’میری بیٹی آپ کو انکل سمجھتی تھی، آپ نے اسے کھلونے کی طرح استعمال کیا': آسٹریلیا میں درجنوں بچیوں کے ریپ کے مجرم کو عمر قید

بی بی سی اردو  |  Nov 29, 2024

آسٹریلیا کی ایک عدالت نے ایک 47 سالہ سابق چائلڈ کیئر ورکر کو چھ درجن سے زیادہ بچیوں کا ریپ اور جنسی استحصال کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سُنا دی ہے۔

ایشلے پال گریفتھ کو ملک کی تاریخ کا ’بدترین پیڈوفائل‘ قرار دیا گیا ہے اور انھیں تقریباً 70 بچیوں کا ریپ کرنے اور ان پر جنسی تشدد کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جن بچیوں کو انھوں نے نشانہ بنایا ان کی عمریں ایک سال سے سات سال کے درمیان تھیں۔

ایشلے گریفتھ بطور چائلڈ کیئر ورکر کوئنزلینڈ کے متعدد چائلد کیئر سینٹرز (بچوں کی نگہداشت کے لیے قائم مراکز) میں کام کرتے رہے ہیں، جبکہ سنہ 2022 اور سنہ 2023 کے دوران انھوں نے بیرون ملک بھی کام کیا ہے۔

انھوں نے عدالت میں 307 جرائم کے ارتکاب کا اقرار کیا تھا۔

جمعے کو برسبین ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دورانجج سمتھ جج پال سمتھ نے مجرم کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے کہا کہ جرائم کا پیمانہ اور نوعیت اتنی 'خوفناک' ہے کہ اس سے لوگوں کے 'اعتماد کی دھجیاں اڑ گئی ہیں۔'

بیبی سی کی معلومات کے مطابق اس کیس کے علاوہ ایشلے گریفتھ پر آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز اور اٹلی میں بھی دو درجن سے زائد بچوں پر جنسی تشدد کے الگ الزامات ہیں۔

سماعت کے دوران بتایا گیا کہ ایشلے گریفتھ کو 'پیڈوفیلک ڈس آرڈر' یعنی بچوں کا ریپ اور جنسی تشدد کرنے کی ذہنی بیماری ہے۔

جج سمتھ نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ ایشلے دوبارہ یہ جرم کریں۔ اس پس منظر میں انھیں کم از کم 27 سال قید میں گزارنے ہوں گے جس کے بعد ہی انھیں پیرول کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہو گی۔

ایشلے گریفتھ کو پہلی بار اگست 2022 میں آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ایک سال بعد ان پر ایک ہزار 600 سے زیادہ بچوں کو جنسی جرائم کا نشانہ بنانے کا الزام بھی لگا تھا۔ تاہم بعد میں ان میں سے زیادہ تر الزامات کو بالآخر ختم کر دیا گیا تھا۔

Getty Imagesایشلے گریفتھ کو پہلی بار اگست 2022 میں آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا

انتباہ: تحریر میں شامل تفصیلات بعض قارئین کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں

تفتیش کاروں کو ایشلے گریفتھکے پاس بچیوں پر کیے گئےتشدد کی ایسی ہزاروں تصاویر اور ویڈیوز ملی تھیں جو کیمرے میں انھوں نے خود نظر بند کی تھیں اور پھر انھیں ڈارک ویب پر اپ لوڈ کیا تھا۔

اگرچہ فوٹیج میں بچیوں کے چہرے نظر نہیں آ رہے تھے لیکن کچھ ویڈیوز میں بستر پر بچھی چادروںکے سبب تفتیش کار ایشلے گرفتھ کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے۔

یہ چادریں کوئنزلینڈ کے چائلڈ کیئر سینٹرز کو فروخت کی گئی تھیں۔

ایشلے گریفتھ نے اعتراف جرم کرتے ہوئے ریپ کے 28 الزامات کو قبول کیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تقریباً 200 ایسے الزامات بھی قبول کیے جن کے مطابق وہ بچوں کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آئے۔

اُن کی بنائی ہوئی ویڈیوز میں نظر آنے والی چار لڑکیاں اٹلی کے شہر پیسا کے ایک چائلڈ کیئر سینٹر میں موجود تھیں جبکہ انھوں نے برسبین کے 11 مقامات پر 65 متاثرین کو اپنے جرائم کا نشانہ بنایا۔

گوجرانوالہ سکول ریپ کیس: ’ہماری موجودگی میں بچیوں سے ایسے سوال کیے جاتے ہیں کہ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں‘جعفرآباد کے سکول میں بچوں کا مبینہ ریپ، پرنسپل اور ہاسٹل وارڈن گرفتار: ’میرے بیٹے کی وجہ سے دوسرے بچے بچ گئے‘سیکس اوفینڈر رجسٹری: کیا یہ نظام پاکستان میں بچوں سے ریپ اور جنسی جرائم کی روک تھام میں مدد دے سکتا ہے؟’وہ شاید ریپ کے بارے میں کسی کو بتاتا لیکن اسے مہلت ہی نہیں ملی‘

عدالت نے ایشلے گریفتھ کے جرائم سے متاثر ہونے والی بچیوں اور ان کے والدین میں سے کچھ کے بیانات سنے۔ تاہم قانونی وجوہات کی بنا پر ان والدین اور بچیوں کیشناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی ہے۔

متاثرین میں دو بہنیں بھی شامل ہیں جو اُس وقت کنڈرگارٹن میں تھیں اور ان میں سے ایک بچی ایشلے گریفیتھ کو اپنا پسندیدہ استاد مانتی تھی۔

دی کورئیر میل اخبار کے مطابق ان میں سے ایک بہن نے عدالت کو بتایا کہ 'یہ جاننا کہ اُس وقت (ایشلے) کیا کر رہے تھے میرے لیے بہت تباہ کن تھا۔۔۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اس صدمے سے کیسے باہر آؤں۔ مجھے جو یاد ہے اور جو حقیقت میں ہوا اس میں بہت تضاد ہے۔'

ایک اور خاتون نے بتایا کہ کس طرح ایشلے کے اعمال نے اُن سے ان کا بچپن چھین لیا اور کس طرح وہ برسوں سے ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔

دی گارڈین آسٹریلیا کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 'میں کبھی نہیں جان پاؤں گی کہ میری زندگی کیسی ہوتی اگر میرے ساتھ یہ سب نہ ہوا ہوتا۔'

'مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کہ لوگوں سے بے خوف رہ کر بڑا ہونا کیسا ہوتا ہے۔'

Getty Imagesایک اور خاتون نے بتایا کہ کس طرح ایشلے کے اعمال نے اُن سے ان کا بچپن چھین لیا اور کس طرح وہ برسوں سے ذہنی بیماری کا شکار ہیں

والدین نے بھی عدالت کو سماعت کے دوران اپنی تکلیف کے بارے میں بتایا کہ ان پر کیا گزری جب انھیں اپنے بچوں کے ساتھ ہوئے ان مظالم کے بارے میں علم ہوا۔

ان میں سے کئی والدین نے کہا کہ ایشلے گریفیتھ پر اعتماد کرنے پر وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے۔

نیوز کور آسٹریلیا کی رپورٹ کے مطابق والدین میں سے ایک نے عدالت کو بتایا کہ '(میری بیٹی) آپ (ایشلے) کو اپنے انکل کی طرح سمجھتی تھی اور آپ نے اسے کھلونے کی طرح استعمال کیا۔'

والدین میں سے ایسے ہی ایک اور فرد نے کہا کہ وہ اپنی بیٹیپر ہوئے تشدد کے علم کے بوجھ سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی۔

کوریئر میل کے مطابق انھوں نے کہا کہ 'آپ نے میری بیٹی کے جسم کے ساتھ جو کیا سو کیا، اس تکلیف سے تو میں اب اسے محفوظ نہیں رکھ سکتی لیکن اس کے ذہن کو کسی بھی نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے آخری حد تک کوشش کروں گی۔'

متاثرہ بچیوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ آسٹریلیا میں چائلڈ کیئر سینٹرز اور بچوں کی نگہداشت کے لیے موجود نظام کو بھی تحقیقات کے دائرے میں لایا جائے، جس میں ایشلے گریفیتھ ایک طویل عرصے تک بغیر کسی کی نظروں میں آئے یہ کام کرتے رہے۔

ایک متاثرہ بچی کے والد نے رپورٹرز سے کہا کہ 'آج بھی والدین اس غلط فہمی کے ساتھ اپنے بچوں کو چائلڈ کیئر سینٹرز میں چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ وہ یہاں محفوظ رہیں گے۔'

قصور ویڈیوز سکینڈل کے ملزمان بری: کیا ایسا ہو سکتا ہے اصل ملزم کبھی گرفتار ہی نہ ہوا ہو؟رانی پور میں گدی نشین کی حویلی پر کام کرنے والی نوعمر بچیاں: ’بی بی کہتیں کہ مجھے ہنساؤ، ڈانس کرو، آپس میں لڑو‘ذاکر نائیک سے ’اسلامی معاشرے میں پیڈوفائلز‘ سے متعلق سوال پر خاتون کو ٹرولنگ کا سامنا: ’بدقسمتی سے میرا سوال سمجھا ہی نہیں گیا‘سیکس اوفینڈر رجسٹری: کیا یہ نظام پاکستان میں بچوں سے ریپ اور جنسی جرائم کی روک تھام میں مدد دے سکتا ہے؟نوعمری کے تعلقات اور استحصال: ’میری بیٹی اپنے قاتل کے رویّے میں بدسلوکی کو پہچان نہیں پائی‘فیصل آباد میں معلم مدرسہ کی کمسن بچے کو ریپ کرنے کی کوشش: پولیس ملزم کی رہائی کے بعد متحرک کیوں ہوئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More