Getty Images
کسی بھی درجہ بندی ٹیبل کے نچلے خانوں میں بھٹکتی ٹیموں کا ایک ہی سپنا ہوتا ہے کہ وہ خود سے بڑوں کو ہرا کر اس دوڑ میں اپنی موجودگی کا ثبوت دے پائیں۔ زمبابوے کا بھی یہ دیرینہ ارمان رہا ہے کہ وہ اکا دکا فتوحات سے بڑھ کر پاکستان جیسے مضبوط حریفوں سے کوئی سیریز جیت دکھائے۔
بہرحال یہ ایک ایسی ون ڈے سیریز تھی جسے فیوچر ٹور پروگرام کے تحت کھیلا جانا ضروری تھا اور اس کے لیے دستیاب محدود ونڈو بالآخر وہی میسر ہو پائی جو آسٹریلیا کے دورے اور جنوبی افریقہ کے طویل دورے کے درمیان دستیاب تھی۔
زمبابوے کو یہ سہولت بھی فراہم ہونا ضروری تھا کہ درپیش سخت جان جنوبی افریقی دورے کی تیاری کے لیے پاکستان کا اپنے سینیئر کھلاڑیوں کو آرام دینا ضروری تھا۔
ایک پاکستانی سکواڈ جو بابر عظم، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ جیسے ناموں سے محروم تھا، وہ زمبابوے کا سپنا پورا کر سکتا تھا۔
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
پہلے ون ڈے میں حیران کن فتح اور دوسرے میچ میں بھاری ندامت کے بعد یہاں زمبابوین کپتان کریگ ایروائن تن کر کھڑے ہوئے۔ انھوں نے اپنی اپروچ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی بیٹنگ لائن کمزور نہ تھی۔
مزربانی اور نگروا جیسے طویل قامت فاسٹ بولرز کے ساتھ ساتھ سکندر رضا اور شون ولیمز جیسے کہنہ مشق سپنرز نے زمبابوین بولنگ کو اس لائق بنایا کہ سازگار حالات میں وہ کسی بھی مضبوط حریف کو حیرت زدہ کر سکتے ہیں۔
مگر بیٹنگ میں زمبابوے کی نئی جنریشن ابھی تک اپنے اس اظہار کا موقع نہیں جما پائی جو دیگر ہمعصر ٹیموں کے نوجوان بلے باز کر رہے ہیں۔ یہی نہیں، اس کے تجربہ کار بلے باز بھی اکثر تگڑے حریفوں کے سامنے اپنی تجربہ کاری کا سکہ جمانے میں ناکام رہے ہیں۔
’ابرار نے صائم ایوب کو ڈھال فراہم کر دی‘پاکستان بمقابلہ زمبابوے: ’جعلی مسٹر بین کا بدلہ لینے کا بہترین موقع‘’تا حکمِ ثانی‘ پہ اٹکی پاکستانی کرکٹتقسیم ہند کے خون خرابے کے باوجود انڈیا کی آسٹریلیا میں پہلی ٹیسٹ سیریز جو منسوخ ہوتے ہوتے رہ گئیGetty Images
کریگ ایروائن نے جب صائم ایوب کی شارٹ پچ گیند کو مڈ وکٹ باؤنڈری کے اوپر اٹھا پھینکا، ان کا عزم عیاں تھا کہ زمبابوین بیٹنگ اس بھاری ہدف کے تعاقب میں نہ صرف سنجیدہ تھی بلکہ مثبت انداز میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تیار بھی تھی۔
ولیمز کے ہمراہ ان کی ساجھے داری نے رضوان کے پلان چیلنج کیے۔ جب ولیمز نے بھی آف سٹمپ کے باہر بھٹکتے ابرار احمد کو تحکمانہ انداز میں مڈ وکٹ کے اوپر کی سیر کروائی تو رضوان کو فوری اپنی سٹریٹیجی بدلنا پڑ گئی۔ مگر جوں ہی رضوان نئی حکمت عملی کے تحت پیسرز کو اٹیک میں لائے، پھر ایروائن ان پر بھاری پڑ گئے۔
اگر ولیمز اپنے ارتکاز میں جھول نہ آنے دیتے اور عامر جمال کے اس باؤنسر پر ایروائن کے جذبات حواس پر غالب نہ آتے تو زمبابوین بیٹنگ ایک تاریخی فتح کی سمت گامزن رہتی مگر ان سے پہلے کامران غلام وہ پہاڑ تشکیل دے گئے تھے جسے سر کرنا باقی ماندہ بلے بازوں کے لیے ممکن نہ تھا۔
پہلے ون ڈے میں جب پاکستانی مڈل آرڈر زمبابوین سپنرز کے سامنے ڈھیر ہوا تو پاکستانی بلے بازوں کی سپن کے خلاف تکنیک قابلِ سوال تھی مگر یہاں کامران غلام نے ولیمز کے خلاف کریز میں پیچھے جا کر اپنی لینتھ بنائی اور مڈ وکٹ باؤنڈری کے پرے پھینک ڈالا۔
کامران غلام کے ارتکاز اور تکنیکی مہارت پر بُنی یہ سنچری اپنے مختلف مراحل میں مختلف رفتار سے آشنا رہی جہاں انھوں نے اپنی تکنیکی پختگی اور ڈومیسٹک سرکٹ میں سالہا سال کی ریاضت کا ثمر دکھایا کہ وہ اسی وینیو پر چار روز پہلے ان ہی زمبابوین سپنرز کے سامنے ریت ہو جانے والے مڈل آرڈر کی چٹان بن کھڑے ہوئے۔
برائن بینیٹ کی تاخیری یلغار اگرچہ زمبابوین بیٹنگ کے لئے خوب حوصلہ افزا تھی مگر تب تک شمع میں اتنی روشنی نہ بچی تھی کہ وہ اسے کوئی حتمی الاؤ دے پاتے۔ ان کی اس یلغار سے کہیں پہلے کامران غلام نے ایروائن کے ارمانوں پر اوس ڈال چھوڑی تھی۔
پاکستان بمقابلہ زمبابوے: ’جعلی مسٹر بین کا بدلہ لینے کا بہترین موقع‘پاکستان کو زمبابوے سے شکست: ’جب آسٹریلیا میں اٹکی پاکستانی حکمتِ عملی رسوا ہوئی‘تقسیم ہند کے خون خرابے کے باوجود انڈیا کی آسٹریلیا میں پہلی ٹیسٹ سیریز جو منسوخ ہوتے ہوتے رہ گئیانڈیا کا چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے سے انکار، شیڈول کا اعلان موخر22 سال بعد پاکستان کی آسٹریلیا میں تاریخی کامیابی: ’رضوان کی کپتانی کے دور میں خوش آمدید‘