صحافی مطیع اللہ جان کا اغوا، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی مذمت

اردو نیوز  |  Nov 28, 2024

صحافی اور نجی نیوز چینل سے منسلک اینکر مطیع اللہ جان کو گزشتہ رات اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ سے اغوا کیا گیا۔

جمعرات کی علی الصبح صحافی ثاقب بشیر نے اردو نیوز سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ گزشتہ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ اُن کو مطیع اللہ جان کے ہمراہ پمز ہسپتال کی پارکنگ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور بعد ازاں اُن کو سیکٹر آئی نائن میں چھوڑ دیا گیا۔

ثاقب بشیر نے بتایا کہ اُن کو مطیع اللہ جان کے ہمراہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ڈبل کیبن گاڑی میں لے جا کر ایک عمارت میں رکھا گیا جہاں سے بعد ازاں دوسری گاڑی میں منتقل کر کے سیکٹر آئی نائن میں چھوڑ دیا گیا۔

مطیع اللہ جان کے بیٹے نے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اُن کے والد کو پمز کے باہر سے اغوا کیا گیا ہے۔

انہوں نے اپنے والد کی بازیابی کی اپیل کی۔

مطیع اللہ جان کے بیٹے عبدالرزاق نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اُنہوں نے تھانہ کراچی کمپنی جی نائن کو اپنے والد کی بازیابی کے لیے درخواست جمع کرائی ہے جہاں تاحال مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کیے گئے ایک بیان میں مطیع اللہ جان کے اغوا کی مذمت کی ہے۔ 

دوسری طرف لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی و یوٹیوبر شاکر اعوان کے بھائی زاہد محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شاکر رات کو 10 بجے گھر آئے جبکہ رات تقریبا 2 بجے ایک درجن سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہمارے گھر آئے جنہوں نے ایلیٹ فورس کی وردیاں پہنی ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ کچھ افراد سول کپڑوں میں بھی تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’آتے ہی انہوں نے شاکر اعوان کو حراست میں لیا اور ان کا موبائل فون بھی لے لیا اور ان کی اہلیہ کی مزاحمت پر ان کا فون بھی لے لیا گیا۔ جس کے بعد جاتے ہوئے گھر میں لگا سی سی ٹی وی کیمرا بھی ساتھ لے گئے۔ ہم پوچھتے رہے کہ کہاں لے جا رہے ہیں لیکن کچھ نہیں بتایا گیا اور ابھی کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘

لاہور پولیس نے ابھی تک شاکر اعوان کی گرفتار کی تصدیق نہیں کی۔ گزشتہ مہینے ایک نجی کالج میں ’فیک ریپ کیس‘ کو سوشل میڈیا پر ہوا دینے کے الزام میں ایف آئی اے نے شاکر اعوان پر مقدمہ درج کیا تھا تاہم اس مقدمے میں وہ ضمانت پر تھے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More