پاکستان تحریک انصاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ناکام دھرنے کی کوشش کے بعد سیاسی طور پر مشکل میں نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد دھرنے پر مختلف زاویوں سے تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں جن میں سے ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ پنجاب سے تحریک انصاف کی قیادت یا اُن کے کارکن دھرنے کی کال پر کیوں نہیں نکلے؟خود پی ٹی آئی کے رہنما شوکت یوسفزئی نے ایک ویڈیو بیان میں پنجاب کی قیادت پر تنقید کی ہے کہ وہ کہاں ہے؟
اگر واقعات کو ترتیب سے دیکھا جائے تو جمعے کی شب سے بدھ کی صبح تک پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب کی قیادت مکمل طور پر غائب تھی۔اتوار کی دوپہر کو وسطی پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات حافظ ذیشان چند ساتھیوں کے ہمراہ نکلے اور جلد ہی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔اس کے علاوہ جنوبی پنجاب میں دو تین کوششیں ہوئیں، چیچہ وطنی سے تحریک انصاف کے رہنما رائے حسن نواز جیسے ہی قافلہ لے کر نکلے تو انہیں بھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔اسی طرح عامر ڈوگر ملتان سے گرفتار ہو گئے اور یوں پورے پنجاب سے کوئی خاطر خواہ رسپانس نہیں آسکا۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سوائے پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رہنما عالیہ حمزہ کے کوئی بھی اسلام آباد دھرنے کے لیے نہیں نکلا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دھرنا اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے صوبے میں واپس جا چکے ہیں لیکن اس وقت بھی پنجاب کی تحریک انصاف کی قیادت سرے سے دستیاب نہیں ہے۔اردو نیوز نے اس حوالے سے کوشش کی کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا سے بات ہو لیکن وہ بھی دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ سیکریٹری اطلاعات شوکت بسرا بھی دستیاب نہیں تھے۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب ملک احمد خان بھچر کا فون بھی بند تھا۔پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز علی بھی دستیاب نہیں ہیں تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی جو دستیاب قیادت ہے وہ بھی ابھی تک رابطے میں نہیں آرہی۔
سوال یہ ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف کی کوششوں کے باوجود لوگ اس طرح سے تمام احتجاجی کالز کا جواب نہیں دے رہے۔اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف بنیادی طور پر نو مئی سے باہر نکل ہی نہیں سکی، نو مئی کا سب سے زیادہ خمیازہ پنجاب کی لیڈرشپ کو بھگتنا پڑا ہے۔‘’سب سے بڑا واقعہ بھی لاہور میں ہوا جب جناح ہاؤس پر احتجاج کر کے اس کو جلایا گیا تو اس کے جو آفٹر شاکس ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ جس نے پاکستان تحریک انصاف پنجاب کو تقریباً مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی ساری لیڈرشپ یا تو جیلوں میں ہے یا حماد اظہر اور میاں اسلم وغیرہ روپوش ہیں، اور اس وقت پارٹی جن کے ہاتھ میں ہے اُن کے پاس لیڈرشپ کا فقدان ہے اور وہ اپنے کارکنوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔سلمان غنی کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے چند ایک ایم پی ایز ہیں وہ بھی کوئی بڑے سیاسی موبلائزر نہیں ہیں تو یہ ایک وجہ ہے اور دوسری وجہ پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلٰی لگانا تھا۔‘ان کے مطابق ’اس فیصلے کی وجہ سے بھی پنجاب میں تحریک انصاف کا تنظیمی سٹرکچر کافی حد تک کمزور ہوا کیونکہ پارٹی کی مرکزی لیڈرشپ کو یہ فیصلہ پسند نہیں تھا۔‘
صحافی اور سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں زیادہ مشکلات کا شکار اپنی سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔‘’جو لوگ آج بھی نو مئی اور اس کے بعد سے مقدمات بھگت رہے ہیں جیلوں میں ہیں، جو ان کے متحرک کارکن تھے وہ اس وقت اپنے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور پارٹی کی جانب سے انہیں بہت زیادہ قانونی معاونت بھی دستیاب نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اپنے مقدمات خود جھیل رہے ہیں اور پارٹی کا بنیادی تنظیمی ڈھانچہ نو مئی کے بعد کمزور ہوا ہے تو یہ سب سے اہم فیکٹر ہے جو اب تحریک انصاف کو اپنے مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں میں بھگتنا پڑتا ہے۔‘سہیل وڑائچ کے مطابق ’اسلام آباد دھرنے میں بھی یہی ہوا ہے کہ لیڈرشپ دستیاب نہیں تھی اور قیادت کے بغیر عوام کو باہر نہیں نکالا جا سکتا۔‘