Getty Images
پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان تھوڑے ہی عرصے کے دوران دوسری مرتبہ احتجاج کی غرض سے دارالحکومت اسلام آباد کی طرف ریلی کی صورت پہنچ رہے ہیں۔
حالیہ ملک گیر احتجاجی ریلی کی کال پی ٹی آئی کے سربراہ اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دی گئی ہے جسے ان کی جماعت کی جانب سے ’فائنل کال‘ بھی کہا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی کی قیادت صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں تاہم اس مرتبہ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی ریلی کا بڑا حصہ خیبرپختونخواہ ہی سے اسلام آباد پہنچا ہے۔ یہ وہ واحد صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ گذشتہ ریلی کی طرح اس مرتبہ بھی وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور ان کے کارکنان کے قافلے کو کنٹینرز، پولیس کے ناکوں، خندقوں اور پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ وغیرہ کو عبور کر کے اسلام آباد پہنچنا پڑا۔
انھوں نے 24 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے کا اعلان کیا تھا تاہم ان کی احتجاجی ریلی پیر کی رات تک اسلام آباد میں داخل نہیں ہو پائی۔ ان کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اور کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹانے کے کرینیں بھی شامل نظر آئیں۔
لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگ یا احتجاجی ریلیاں پاکستان کے دوسرے صوبوں سے سامنے نہیں آئی ہیں۔ خاص طور پر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے پی ٹی آئی کے کارکنان بڑی تعداد میں باہر نکل کر اسلام آباد کی طرف آتے دکھائی نہیں دیے۔
اسی طرح صوبہ سندھ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی زیادہ لوگ پی ٹی آئی کی اس احتجاجی ریلی میں شامل ہونے کے لیے اسلام آباد کی طرف آتے نہیں دیکھے گئے۔ پیر کی رات تک لاہور یا کراچی کے اندر بھی کوئی بڑا احتجاج سامنے نہیں ہوا۔
اکا دکا مقامات پر پی ٹی آئی کے چند کارکنان اور مقامی پولیس کے درمیان چھڑپیں ہونے کی اطلاعات آئیں۔ تاہم لاہور سے جماعت کے کسی مرکزی رہنما کی قیادت میں کوئی منظم احتجاج یا رکاوٹوں کو عبور کرکے اسلام آباد کی طرف بڑھنے کی کوشش نظر نہیں آئی۔
تو سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی طرح باقی صوبوں سے بڑی ریلیاں کیوں نہیں نکال پائی۔
Getty Images’ہمارے پاس کوئی کرینیں تو ہیں نہیں‘
پی ٹی آئی کی پنجاب کی قیادت میں سے بہت سے رہنما احتجاج کے آغاز پر اپنے علاقوں سے ریلیوں کی صورت میں نکلے تاہم ان میں سے زیادہ تر یا تو اس کے بعد منظر عام سے غائب ہو گئے یا زیادہ دور تک نہیں جا سکے۔
ان میں بہاولنگر سے پی ٹی آئی کے رہنما اور سیکرٹری انفارمیشن پنجاب شوکت بسرا بھی شامل تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے علاقے سے 200 سے زیادہ گاڑیوں کا قافلہ لے کر نکلے تھے تاہم ان کے لیے اسلام آباد کی طرف جانے والے واحد راستے کو پولیس اور انتظامیہ نے بند کر دیا تھا۔
شوکت بسرا کا کہنا تھا ’صرف یہ کہنا کہ بند کیا ہوا ہے، درست نہیں ہو گا۔ انھوں نے پورا صوبہ بالکل سیل کیا ہوا ہے۔ ہمارے لیے جو دو راستے اسلام آباد کی طرف جاتے تھے دونوں پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی، کنٹینر لگا کر رکاوٹین کھڑی کی ہوئیں تھی، ان سے آگے نکلنا ممکن ہی نہیں تھا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی گاڑی پر بھی پولیس نے دھاوا بولا تاہم وہ بغیر گرفتار ہوئے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے ’کیونکہ ہمیں قیادت کی طرف سے ہدایات ہیں کہ گرفتار نہیں ہونا اور ڈی چوک پہنچنا ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ لاہور سے اور باقی صوبے سے زیادہ تر پی ٹی آئی کے رہنما یا کارکنان بڑی تعداد مِیں اسلام آباد کی طرف ریلی کرتے نظر کیوں نہِیں آئے، شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ لاہور سمیت پورے پنجاب میں حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور ان کی قیادت کو گرفتاریوں کا بھی خوف ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ہر دس کلومیٹر پر تو کنٹینر کھڑے ہوئے ہیں۔ اب ہمارے پاس کرینیں تو ہیں نہیں کہ ہم کنٹینر ہٹا کر راستہ صاف کر سکیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے باوجود پنجاب سے جماعت کی قیادت اور کارکنان کی بڑی اسلام آباد کی طرف جا رہی ہے اور جلد ڈی چوک پر ہو گی۔
اسلام آباد کو ’کنٹینر سٹی‘ بنانے والے 700 کنٹینرز کہاں سے آئے اور یہ حکمتِ عملی کتنی مہنگی پڑتی ہےسعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان پر بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ درج: ’فائنل کال‘ سے پہلے یہ بیان دینے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟پی ٹی آئی کا سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخلپی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج اور مذاکرات کی گونج: ’یہ مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے، ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے‘Getty Imagesحکومت کی طرف پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے؟
پی ٹی آئی کے احتجاج کے شروع ہونے سے پہلے ہی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کئی مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی بہت سی سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا۔
لاہور رنگ روڈ کو دو روز کے لیے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ لاہور سے موٹرویز کے ذریعے باہر جانے یا اندر آنے کے راستہ پہلے ہی سے بند تھا۔ وفاقی حکومت نے ’مینٹیننس‘ کی غرض سے تمام موٹرویز کو دو روز تک بند رکھنے کا اعلان کیا۔
پی ٹی آئی نے دعوی کیا ہے کہ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا ک مطابق پنجاب سے گرفتار ہونے والے ان کی جماعت کے کارکنان کی تعداد لگ بھگ 6000 کے قریب ہو گی۔ رابطہ کرنے پر پنجاب پولیس نے اس تعداد کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
شوکت بسرا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے کارکنان کو واضح ہدایات دے رکھی ہیں کہ انھوں نے اس قسم کی گرفتاریوں سے بچنا ہے تاکہ وہ ڈی چوک اسلام آباد پہنچ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک وجہ ہے کہ پنجاب میں قیادت اور کارکنان کھل کر سامنے نہیں آئے۔
Getty Imagesکیا پنجاب سے پی ٹی آئی کی قیادت لوگوں کو جمع نہیں کر پائی؟
پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی زیادہ تر مرکزی قیادت 24 نومبر کا احتجاج شروع ہونے کے کچھ پہلے ہی سے روپوش ہے۔ لاہور میں پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کی طرف سے جواب نہیں آیا۔
تاہم پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سیکرٹری انفارمیشن پنجاب شوکت بسرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں قیادت کے جو لوگ سامنے آئے ان کو گرفتار کر لیا گیا۔
شوکت بسرا نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں چیف وپ اور ملتان سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما عامر ڈوگر سمیت ایم این اے زین قریشی اور دیگر درجنوں افراد کو پولیس نے پہلے ہی روز ملتان سے اس وقت گرفتار کر لیا جب انھوں نے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے نکلنے کی کوشش کی۔
تاہم انھوں نے دعوی کیا تھا کہ ان کی طرح بہت سے پی ٹی آئی کے رہنما مختلف تعداد میں ریلیاں لے کر لاہور کی طرف آ رہے ہیں جہاں سے وہ بڑی ریلیوں کی صورت میں اسلام آباد کی طرف جائیں گے۔
انھوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت سامنے نہیں آئی یا لوگوں کو جمع نہیں کر پائی ’لاہور سے میں آپ کو بتا دوں کہ حماد اظہر خود ریلی کی قیادت کریں گے۔‘
انھوں نے دعوی کیا کہ ان کی جماعت کے بہت سے کارکنان اپنے طور پر مختلف ٹولیوں کی صورت میں چھپ چھپا کر پہلے ہی اسلام آباد کی طرف روانہ ہو چکے ہیں اور کچھ پہنچ بھی چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بھی اس احتجاج کو طول دینا ہے۔ جس طرح یہ حکومت رکاوٹیں کھڑی کر کے طول دے رہی ہے ہم بھی اس کو آگے لے کر جائیں گے۔ جیسا بھی ہو ہم اسلام آباد کے ڈی چوک ضرور پہنچیں گے۔ یہ ہمیں روک نہیں سکتے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پارٹی کے ہر ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی کو بڑی تعداد میں کارکنان کو ڈی چوک لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے اور پنجاب سے بھی اس کو پورا کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور سے پی ٹی آئی کے بہت سے مرکزی رہنما پہلے ہی سے جیل میں قید ہیں جن میں سابق صوبائی وزیر یاسمین راشد، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اور سینیٹر اعجاز چوہدری شامل ہیں۔
BBCصوبہ سندھ سے پی ٹی آئی کارکنان کی شرکت کتنی رہی؟
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میں ملک کے دوسرے بڑے صوبے سے کوئی واضح شرکت نظر نہیں آتی جبکہ تنظیم کے سٹرانگ ہولڈ اور سپورٹ بینک سمجھے جانے والے شہر کراچی میں بھی خاموشی رہی۔
پی ٹی آئی سندھ کے ترجمان محمد علی بلوچ کا دعویٰ ہے کہ کراچی سے 180 سے زائد بسوں کے علاوہ گاڑیوں اور وینوں کا ایک قافلہ سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کی قیادت میں روانہ ہوا ہے، جس کو پہلے مرحلے میں شکارپور میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد سندھ پنجاب بارڈر پر بھی انھیں مشکلات کا سامنا رہا لیکن رکاوٹوں کے باوجود کچھ لوگ احتجاج میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ماضی میں پارٹی کی کال پر کراچی میں بھی کارکن اور ہمدرد سڑکوں پر نکل کر یکہجتی کا اظہار کرتے رہے ہیں اس بار ایسا نظر نہیں آیا تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس نے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے کارکنوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان کے خلاف ایف ائی آرز درج کی جاتی ہیں، بقول ان کے عمران خان نے بھی واضح کیا تھا کہ کراچی کے لوگوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں گی اس لیے وہ نہ آئیں۔‘
کراچی سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما حلیم عادل شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم کراچی سے تین مختلف قافلوں سے نکلے، دو قافلے بذریعہ روڈ اور ایک بڑی تعداد لگ الگ ٹولیوں کی شکل میں ٹرین کے ذریعے بھی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بسوں اور کوسٹرز اور چھوٹی پرائیویٹ گاڑیوں پر نیشنل ہائی وے اور انڈس ہائی وے کا راستہ لیا۔
حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا ’کراچی میں پولیس گردی سے بچنے کے لیے ہم 23 تاریخ کو بارہ بجے ملینیئم مال سے نکلنے کا آفیشل اعلان کیا مگر ہم رات بارہ بجے سے پانچ بجے کے درمیاں کراچی سے نکلے اور اگلے شہروں کے قافلے کراچی کے دونوں قافلوں میں شامل ہوتے رہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جس قافلے میں وہ تھے وہ انڈس ہائی وے سے گیا تھا ’ہم خاموشی جارہے تھے مگر ہمیں نصیر آباد کے ایک ہوٹل میں ناشتے کے لیے رُکنا پڑا جس کا حکومت اور ایجنسیز کو پتا چل گیا۔‘
BBC
انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ’جب ہم شکارپور گڑھی یاسین سی آگے گئے تو پولیس کی بھاری نفری نے زبردستی ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی اور ہمارا پولیس سے تصادُم ہو گیا جس پر پولیس نے فائرنگ کر کے بسوں کے ٹائر پھاڑ دیے اور ہمارے اوپر بھی ہوائی فائرنگ کی اور ورکرز پر تشدُد کیا۔‘
حلیم عادل شیخ نے دعویٰ کیا کہ اس مقام پر ان کے دس ورکرز زخمی ہو گئے جبکہ 30 گرفتار کر لیے گئے۔ اپنے ورکرز کو آزاد کرانے کے لیے انھوں نے شکارپور میں مظاہرہ کیا، دھرنا دیا اور روڈ بلاک کر دیا۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کی گاڑیوں کی چابیاں نکال لی تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ شکارپور سے انھوں نے سکھر کا رُخ کیا تو سکھر داخلے پر روڈ بلاک کیا گیا تھا، آمنے سامنے ٹرک کھڑے کر دیے گئے تھے، ان کی بسوں کے شیشے توڑ دیے گئے اور روڈ کو بھی کھود دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ آگے بھی راستے میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور سندھ اور پنجاب کا بارڈر بھی سیل تھا اس لیے ’اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بڑے قافلے کی بجائے چھوٹے گروپ کی صورت میں نکلیں گے۔‘
حلیم عادل شیخ نے بتایا کہ سندھ سے ان کی جماعت کے کئی گروپس کے پی میں علی امین گنڈاپور کے قافلے میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ اکثر پنجاب میں جہلم کے مقام پر پھنسے ہیں۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’سندھ میں پارٹی قیادت میں جو اختلافات ہیں اس کی وجہ سے پی ٹی آئی غیر فاعل نظر آتی ہے ان کے مطابق اپوزیشن میں آنے کے بعد سندھ کی تنظیمی خامیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی بڑے جلسے جلوس نظر نہیں آتے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’سابق صدر عارف علوی جو کراچی سے منتخب ہوئے وہ بھی کے پی سے جا کر احتجاج میں شریک ہوئے ہیں جبکہ اصولی طور پر تو وہ کراچی سے قیادت کرتے لیکن انھوں نے خیبرپختونخوا کو ترجیح دی۔‘
اڈیالہ جیل سے بنی گالہ تک: سب جیل کیا ہوتی ہے اور کیا بشریٰ بی بی کو خلاف قانون یہ سہولت فراہم کی گئی ہے؟پی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج اور مذاکرات کی گونج: ’یہ مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے، ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے‘سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان پر بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ درج: ’فائنل کال‘ سے پہلے یہ بیان دینے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟اسلام آباد کو ’کنٹینر سٹی‘ بنانے والے 700 کنٹینرز کہاں سے آئے اور یہ حکمتِ عملی کتنی مہنگی پڑتی ہےپی ٹی آئی کا احتجاج، اسلام آباد بند اور شہری پریشان: ’شادی ہال والوں نے کہا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا اور ایڈوانس واپس کر دیا‘پی ٹی آئی کا سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل