"تعلیمی ادارے بے حیائی کے مراکز بنتے جا رہے ہیں، انہیں بند کر دینا چاہیے"
"یہ کپڑے پہننے کے قابل بھی نہیں، یہ بے شرمی اور فضول خرچی ہے!"
“کم سے کم یونیورسٹی کے اسلامی نام کا ہی خیال کر لیا ہوتا۔
“سب سے پہلے تو کوئی ان فضول کپڑوں کو نہیں پہنے گا،دوسری بات، منتظمین کو شرم آنی چاہیے۔ اقراء یونیورسٹی کے نام پر یہ بے حیائی پھیلا رہے ہیں۔“
یہ کہنا ہے سوشم میڈیا صارفین کا جو اقرا یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے حالیہ فیشن شو کی ویڈیوز وائرل ہوتے ہی پھٹ پڑے ہیں۔ ملک بھر کے تعلیمی ادارے، جنہیں علم کے چراغ جلانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، آج کل غیر تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ کہیں ثقافتی میلے، تو کہیں ناچ گانوں کی محفلیں، یہ سب طلبہ کے اخلاقی و تعلیمی معیار پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
تعلیمی مقاصد پر تفریحی تقریبات کا غلبہ
حال ہی میں کراچی کی جناح یونیورسٹی فار ویمن کے چانسلر نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے یونیورسٹی کو تقریب گاہ میں بدل دیا۔ یہ تقریب نہ صرف میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث رہی، جہاں مہندی کی تقریب سے لے کر شادی تک، یونیورسٹی کی عمارت کو برقی قمقموں سے سجایا گیا اور انڈین گانوں پر رقص کیا گیا۔
فیشن شو یا بے حیائی؟ اقرا یونیورسٹی کی ویڈیو کا تنازعہ
جناح یونیورسٹی کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ اقرا یونیورسٹی کا فیشن اوڈیسی 2024 سوشل میڈیا پر گرما گرم موضوع بن گیا۔ اس تقریب میں معروف ماڈلز نے ریمپ پر جلوے بکھیرے اور نوجوان ڈیزائنرز کے تخلیقی کلیکشن پیش کیے گئے۔ اس شاندار شو کو جدت اور وژن کا نام دیا گیا، لیکن صارفین نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
تعلیمی نظام کے لیے لمحہ فکریہ
یہ واقعات ایک اہم سوال چھوڑ جاتے ہیں: کیا تعلیمی اداروں کو ان کے اصل مقصد یعنی تعلیم کے فروغ کی جانب واپس لانے کی ضرورت نہیں؟ کیا والدین اور انتظامیہ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ان سرگرمیوں کا اثر طلبہ کی سوچ اور کردار پر کیا پڑے گا؟
تعلیمی ادارے اگر علم کی روشنی پھیلانے کے بجائے غیر ضروری تقریبات کا انعقاد کریں گے، تو ہمارا تعلیمی نظام اور نوجوان نسل کہاں کھڑی ہوگی؟