اے آر رحمان کا طلاق پر افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف بڑا اقدام

سچ ٹی وی  |  Nov 24, 2024

آسکر ایوارڈ یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے اہلیہ سے طلاق کی خبروں پر افواہیں پھیلانے والوں کو ہتک عزت کے نوٹسز جاری کردیے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقار اے آر رحمان اور ان کی اہلیہ سائرہ بانو نے تقریباً 30 سالہ رفاقت کے بعد علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے وکیل وندنا شاہ نے کہا ہے کہ یہ ایک مشترکہ اور باہمی رضامندی پر مبنی فیصلہ ہے۔

اس خبر نے اے آر رحمان کے پرستاروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ بھارتی میڈیا اور یوٹیوبرز کو ریٹنگ کے حصول کےلیے ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا ہے۔ ہر کوئی اس بہتی گنگا میں جی بھر کر ہاتھ دھو رہا ہے اور ویوز کے لیے افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔

اس معاملے میں دلچسپ پیش رفت یہ ہوئی کہ اے آر رحمان کی طلاق کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کی بینڈ کی گٹارسٹ موہنی ڈے نے بھی اپنے شوہر سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ دونوں فنکاروں کا آپس میں تعلق ہے، تاہم موہنی ڈے نے اس کی سختی سے تردید کردی۔

اے آر رحمان افواہیں پھیلانے والوں پر سخت برہم ہیں جن کے خلاف انہوں نے سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اے آر رحمان نے ان تمام لوگوں کو قانونی نوٹس جاری کردیا ہے جو انہیں اور ان کے خاندان کو نشانہ بناتے ہوئے ہتک آمیز اور "قابل اعتراض" مواد پھیلا رہے ہیں۔

رحمان نے X پر بیان میں کہا کہ میری قانونی ٹیم کی طرف سے تمام تہمت لگانے والوں کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے جس میں اس طرح کے مواد کو ہٹانے کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے، جس کی عدم تعمیل پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ نفرت پھیلانے والوں کو مطلع کیا جاتا کہ اگلے ایک گھنٹے کے اندر اندر قابل اعتراض مواد کو ہٹا دیں اور اس کام کےلیے زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے کی مہلت ہے۔

اے آر رحمان اور بانو 1995 میں شادی کے بندھن میں بندھے تھے اور ان کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں خدیجہ اور رحیمہ جب کہ ایک بیٹا امین شامل ہیں۔

موسیقی کی دنیا میں رحمان کا نام ایک روشن ستارہ ہے۔ حال ہی میں انہیں آئی آئی ٹی مدراس کی جانب سے 'XTIC ایوارڈ 2024' سے نوازا گیا۔ ان کی مشہور فلموں میں روجا، بمبئی، دل سے، لگان، اور راک اسٹار شامل ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر سلم ڈاگ ملینئر کے لیے انہیں دو آسکر ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More