امریکہ کی ریاست نیویارک میں اس پرانے قانون کو منسوخ کر دیا گیا ہے جس کے تحت شریک حیات سے ’بے وفائی‘ جرم کے زمرے میں آتی تھی۔ اس کا استعمال بہت کم دیکھنے میں آتا رہا تاہم اس کی زد میں آنے والے کو ایک بار کسی دوسرے شخص سے جنسی تعلق قائم کرنے پر تین ماہ کی جیل ہو سکتی تھی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نیو یارک میں یہ قانون اس وقت منسوخ تصور کیا گیا جب گورنر کیتھی ہوچل نے اس حوالے سے ایک بل پر دستخط کیے۔ یہ قانون 1907 میں بنایا گیا تھا اور اس پر عملدرآمد کو مشکل تصور کیا جاتا تھا۔
انہوں نے اس موقع پر کہا کہ ’ایسے حالات میں جب میں خوش قسمتی سے ایک شوہر کے ساتھ 40 سال سے پرمسرت ازدواجی زندگی گزار رہی ہوں، میرے لیے یہ خاصا مشکل تھا کہ جنسی تعلق کو جرم قرار نہ دینے والے بل پر دستخط کروں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں جانتی ہوں کہ اکثر لوگوں کو پیچیدہ رشتوں سے پالا پڑتا ہے، ان معاملات کو انہیں انفرادی طور پر دیکھنا چاہیے نہ کہ ہمارا فوجداری نظام عدل ان کو دیکھے۔ آئیے اس فرسودہ قانون کو ہمیشہ کے لیے کتابوں سے ہٹا دیں۔‘
جنسی تعلق قائم کرنے پر بہت سی ریاستوں میں پابندی ہے اور اس کو دراصل علیحدگی کو مشکل بنانے کے لیے عائد کیا گیا تھا اور اس وقت اس کے لیے شریک حیات کی دھوکہ دہی کو ثابت کرنا واحد راستہ تھا۔
اس قانون کے تحت الزامات بہت ہی کم سامنے آتے رہے جبکہ اس کے تحت سزائیں بھی شاذونادر ہی ہوئیں۔
کچھ دوسری ریاستوں نے بھی حالیہ برسوں کے دوران جنسی تعلق کے حوالے سے قوانین کو منسوخ کیا ہے۔
نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچل نے قانون کی منسوخی کی دستاویز پر دستخط کیے (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)
نیویارک میں ’اڈلٹری‘ کی تعریف کچھ یوں ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے سے اس وقت جنسی تعلق قائم کرے جب وہ شریک حیات رکھتا ہو اور دوسرا شخص بھی کسی کے ساتھ ریلیشن میں ہو۔‘
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ یہ قانون بننے کے کچھ ہفتے بعد استعمال کیا گیا تھا اور اس کے تحت ایک شادی شدہ مرد اور 25 سالہ خاتون کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ریاستی اسمبلی کے رکن چارلس لیوائن، جنہوں نے یہ بل پیش کیا، کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت 1970 کے بعد سے درجنوں لوگوں پر الزامات لگے تاہم ان میں سے صرف پانچ کو ہی سزا مل سکی۔
جمعے کو اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’قوانین کا مطلب معاشرے کا تحفظ اور غیر سماجی رویوں کو روکنا ہوتا ہے اور نیویارک کا متذکرہ قانون اس مقصد کے ساتھ میل نہیں کھاتا تھا۔‘
اس قانون کا آخری استعمال 2010 میں دیکھنے میں آیا تھا جس میں ایک خاتون پر پارک میں جنسی سرگرمی کا الزام لگا تاہم بعدازاں ایک درخواست کے بعد اس الزام کو نکال دیا گیا تھا۔
نیویارک 1960 میں بھی اس قانون کو ختم کرنے کے قریب اس وقت پہنچا تھا جب تعزیرات کے قواعد کا جائزہ لینے والے ایک کمیشن کی جانب سے کہا گیا تھا اس کو نافذ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
1965 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق اس وقت تمام قانون ساز ابتدائی طور پر اس قانون کو ختم پر متفق تھے تاہم اس کو برقرار رکھنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا تھا جب ایک سیاست دان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کو منسوخ کرنے سے ایسا لگے گا کہ ریاست سرکاری طور پر دھوکہ دہی کی حمایت کرنے جا رہی ہے۔