EPA
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے واقعات میں 40 سے زیادہ ہلاکتوں کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کا نتیجہ فرقہ وارانہ تصادم کی شکل میں برآمد ہوا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کی شام سے سنی اور شیعہ قبائل کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
جمعرات کو لوئر کرم کے علاقوں بگن اور اوچت میں 200 گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے چار مقامات پر حملہ کیا تھا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 44 افراد مارے گئے تھے جبکہ 39 زخمی ہوئے تھے۔
ان ہلاک شدگان اور زخمیوں میں سے اکثریت کا تعلق پاڑہ چنار اور اہلِ تشیع برادری سے تھا۔
جمعے کو پاڑہ چنار میں ہلاک شدگان کے جنازوں میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی تھی اور اس موقع پر جہاں پاڑہ چنار اور کئی دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے وہیں توڑ پھوڑ کے واقعات بھی پیش آئے۔
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک شدگان کی تدفین کے بعد جمعے کی شام شیعہ اکثریتی علاقے علیزئی سے طوری قبائل کی جانب سے لشکرکشی کا آغاز ہوا اور اب لوئر کرم میں تین مقامات پر فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں بھاری ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔
بگن کے علاوہ مقبل اور کنج علیزئی جبکہ صدہ میں خارکلے اور بالشخیل میں بھی اہلِ سنت اور اہلِ تشیع قبائل کے درمیان لڑائی کی اطلاعات ہیں۔
خیال رہے کہ جمعرات کو مسافر گاڑیوں پر حملے میں ہلاکتوں کے خلاف شیعہ تنظیم مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ جمعے کو کراچی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے رہنماؤں نے ضلع کُرم سمیت خیبر پختونخوا بھر میں آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔
مقامی صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے لوئر پاڑہ چنار کے علاقے میں اس وقت کئی مقامات پر موبائل انٹرنیٹ میں خلل ہے جبکہ کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر متعدد مقامات پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ قافلہ اس سڑک پر سفر کر رہا تھا جسے اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے واقعے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا۔
پاڑہ چنار کے ’محصور‘ عوام: ’ہماری آنکھوں میں الوا کی موت کے دُکھ سے زیادہ اپنی بے بسی کے آنسو تھے‘ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیںپاڑہ چنار کے ’سلگتے چنار‘کرم میں مسافروں کے قافلے پر حملے میں 11 افراد ہلاک: ’حملہ آور کافی زیادہ تھے اور انھوں نے سڑک کو گھیرا ہوا تھا‘’جب پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوئے تو سکیورٹی اہلکاروں سے کہا قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی کم‘
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کے مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب قافلہ پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’(قافلے کی حفاظت پر تعینات) ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ ہمارا ایک ساتھی بھی فائرنگ سے زخمی ہوا ہے۔‘
عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم 14 کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچت شامل ہیں۔
عینی شاہد نصیر خان نے بتایا تھا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھر دوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا تھا۔
Getty Imagesفائل فوٹو
سعیدہ بانو پشاور میں ملازمت کرتی ہیں وہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پشاور سے پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت میں نے اپنی گاڑی سے اُتر کر سکیورٹی فورسز سے کہا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر مجھے کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔‘
سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاؤں گی۔ مگر قافلے کے درمیان میں گاڑیوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ گاڑیاں جو شروع اور آخر میں تھیں وہ براہ راست ٹارگٹ تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔‘
سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں شاید ایک خاتون ڈاکٹر یا نرس تھی اور وہ دوڑ دوڑ کر زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘
’آخر کب تک یہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہیں گے‘
ضلع کرم کے علاقے اوچت کے مقامی شخص شاہین گل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب مسافر گاڑیوں پر حملہ ہوا تو وہ فوراً اس مقام کی طرف گئے لیکن پہلے تو پولیس نے انھیں روکا کہ کہیں انھیں کوئی خطرہ نہ ہو لیکن جب انھوں نے کہا کہ اس واقعے کا شکار ہونے والے ان کے اپنے لوگ ہیں تو انھیں جانے کی اجازت دی گئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر فوری طور پر زخمیوں اورہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو مندوری ہسپتال منقتل کرنا شروع کر دیا۔
انھوں نے بتایا کہ مندوری میں بنیادی صحت مرکز اہل سنت کا علاقہ ہے اور وہاں 30 کے لگ بھگ لاشیں اور ایک درجن کے قریب زخمی پہنچائے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ان زخمیوں اور لاشوں کو مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔
شاہین گل نے بتایا کہ انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ حملہ آور کیسے آئے اور کیسے حملہ کیا لیکن اس انھوں نے وہاں موجود لوگوں کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حملہ آور فائرنگ کر کے پہاڑوں کی جانب چلے گئے۔
اوچت کا علاقہ پاڑہ چنار اور ٹل کے درمیان واقع ہے اور شاہین گل کے مطابق اوچت ٹل سے 24 کلومیٹر دور ہے جبکہ پاڑہ چنار سے کوئی 75 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
شاہین گل کہتے ہیں کہ دو روز قبل ان کے مکان پر بھی ایک مارٹر گولہ گرا تھا جس کے خلاف انھوں نے بدھ کے روز احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آخر کب تک یہ تشدد کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔‘ انھوں نے علاقے میں امن کا مطالبہ بھی کیا۔
ان سے جب پوچھا کہ گاڑیوں کا قافلہ کے سکیورٹی کس طرح کی جا رہی ہے تو انھوں نے بتایا کہ ماضی میں مسافر گاڑیوں کے ساتھ پولیس یا سکیورٹی فورسز کی گاڑیاں ساتھ چلتی تھیں لیکن اب پولیس اہلکار سڑک کے کنارے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔
’پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا‘
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔
بیرسٹر سیفکا کہنا ہے کہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں جنھیں نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اب تک 33 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 19 شدید زخمی ہیں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور واقعے کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ، ڈی پی او، آر پی او سمیت تمام متعلقہ افسران جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
ادھر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلی فونک رابطے میں سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی اور صوبے میں دہشتگردی کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سے امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور خیبرپختونخوا ملک کا اہم صوبہ ہے جہاں ضرورت ہو گی مدد کریں گے۔
ضلع کرم اہم کیوں ہے؟BBC
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔
پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔
پاڑہ چنار کے ’سلگتے چنار‘پاڑہ چنار کے ’محصور‘ عوام: ’ہماری آنکھوں میں الوا کی موت کے دُکھ سے زیادہ اپنی بے بسی کے آنسو تھے‘ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیںضلع کرم میں جھڑپیں: ’معاملہ زمین کی ملکیت کا ہے، فرقہ وارانہ نہیں‘زمین کا تنازع یا فرقہ واریت کا نتیجہ: ضلع کرم میں آٹھ افراد کے قتل پر متضاد دعوےکرّم میں 43 ہلاکتیں: بوشہرہ میں زمین کا تنازعہ پُرتشدد فرقہ وارانہ لڑائی میں کیسے بدل جاتا ہے