Getty Imagesمحمد علی جناح
سنہ 1947 میں تقسیم برصغیر کے بعد انڈیا میں شامل ہونے والی چھوٹی بڑی شاہی ریاستوں کی تعداد 500 سے زیادہ تھی تاہم صرف تین ریاستیں، حیدرآباد، جوناگڑھ اور کشمیر، اس ضمن میں آخری دم تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھیں۔
اُس وقت ریاست کشمیر کا کل رقبہ 84,471 مربع میل تھا اور اس لحاظ سے یہ ریاست حیدرآباد سے بڑی تھی تاہم اِس کی آبادی صرف 40 لاکھ تھی۔ حیدرآباد اور جوناگڑھ کے برعکس کشمیر کی سرحد پاکستان کے ساتھ بھی ملتی تھی۔
اُس وقت کشمیر کے حکمراں راجہ ہری سنگھ تھے جو ستمبر’1925 میں کشمیر کے تخت شاہی پر جلوہ افروز ہوئے اور وہ اپنا کافی وقت بمبئی کے ریس کورسز اور اپنی ریاست کے وسیع گھنے جنگلات میں شکار کرتے ہوئے گزارتے تھے۔
بٹوارے کے بعد انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ملک میں بھی شامل نہ ہونے کا خیال مہاراجہ کے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا اور مصنف رام چندر گوہا اپنی کتاب ’انڈیا آفٹر گاندھی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہری سنگھ کانگریس سے نفرت کرتے تھے، اس لیے وہ انڈیا میں شامل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن انھیں یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہو گئے تو ان کے ہندو خاندان کی قسمت کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے گا۔‘
دوسری طرف کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کی وجہ سے بانی پاکستان محمد علی جناح پُرامید تھے کہ کشمیر کسی ’پکے ہوئے پھل کی طرح اُن کی گود میں آ گرے گا۔‘
Getty Imagesمہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے قبائلیوں کے حملے کے بعد انڈیا کے ساتھ الحاق کے دستاویزات پر دستخط کر دیےجناح کو کشمیر میں چھٹیاں گزارنے کی اجازت نہیں ملی
مگر جناح کی یہ امید زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ طویل مذاکرات کر کے وہ تھک چکے تھے اور پھیپھڑوں کی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اُن کا جسم پہلے ہی کمزور ہو چلا تھا۔
اسی سبب انھوں نے کشمیر میں کچھ دن گزارنے اور آرام کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے سیکریٹری ولیم برنی سے کہا کہ وہ کشمیر جائیں چنانچہ وہاں اُن کے قیام و آرام کا انتظام کیا جائے۔
عالمی شہرت کے حامل مصنفین ڈومینک لیپیئر اور لیری کولنز اپنی کتاب ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ جناح یہ جان کر دنگ رہ گئے کہ اُن کا برطانوی سیکریٹری پانچ سات دن بعد بے نیل و مرام واپس لوٹ آیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’مہاراجہ ہری سنگھ نہیں چاہتے تھے کہ جناح چھٹی گزارنے کے لیے اُن کے علاقے میں قدم بھی رکھیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ان کے جواب نے پاکستان کے حکمران کو پہلا اشارہ دیا کہ کشمیر میں پیش رفت اس طرح نہیں ہو رہی جس طرح انھوں نے سوچا تھا۔‘
کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کا منصوبہGetty Imagesلیاقت علی خان کشمیر کے پاکستان میں الحاق کے لیے کشمیر پر دباؤ ڈالنے کے حق میں تھے
ستمبر کے وسط میں وزیر اعظم لیاقت علی نے یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی کہ مہاراجہ کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر مجبور کیسے کیا جائے۔
فیصلہ ہوا کہ سرحدی صوبے کے پٹھان قبائلیوں کو اسلحہ کے ساتھ کشمیر بھیجا جائے۔
پاکستانی فوج کے میجر آغا ہمایوں امین اپنی کتاب ’1947-48 کشمیر وار: دی وار آف لوسٹ اپارچونیٹیز‘ یعنی ’گمشدہ مواقع کی جنگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہر ٹکڑی کو باقاعدہ پاکستانی فوج سے ایک میجر، ایک کیپٹن اور دس جونیئر کمیشنڈ آفیسرز دیے گئے تھے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’وہ (فوجی اہلکار) پٹھانوں میں سے منتخب کیے گئے تھے اور وہ قبائلیوں کی طرح کپڑے پہنتے تھے۔‘ پاکستان نے قبائلی لشکر کو آگے بڑھنے کے لیے لاریوں اور پیٹرول کا بھی انتظام کیا تھا۔
انھوں نے مزید لکھا: ’اگرچہ قیادت میں پاکستانی فوجی افسران موجود تھے، لیکن قبائلی نہ تو جدید حرب کے طریقے سے واقف تھے اور نہ ہی کسی نظم و ضبط سے۔‘
جب بغاوت شروع ہوئی
22 اکتوبر 1947 کی شب ایک پرانی فورڈ سٹیشن ویگن جس کی لائٹس بند تھیں دھیرے دھیرے رینگتے ہوئے دریائے جہلم کے پُل سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر رُک گئی۔
اس کے پیچھے ٹرکوں کی لمبی قطار تھی۔ ہر ٹرک میں کچھ لوگ خاموشی سے بیٹھے تھے۔
لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں: ’اچانک سٹیشن ویگن میں بیٹھے لوگوں نے رات کی تاریکی میں آسمان پر شعلے بھڑکتے اور اس سے کمان بننے کا منظر دیکھا۔‘
’یہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ پُل کے اُس پار مہاراجہ کے مسلمان سپاہیوں نے بغاوت کر دی ہے، سرینگر جانے والی ٹیلی فون لائن کاٹ دی ہے اور پُل کے کنارے پر تعینات سنتری کو پکڑ لیا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’سٹیشن ویگن کے ڈرائیور نے اپنا انجن سٹارٹ کیا اور تیزی سے پُل عبور کیا۔ کشمیر کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔‘
قبائلیوں کے سامنے سرینگر کا راستہ کھلا تھا۔ 135 میل لمبی سڑک پر پہرے اور نگرانی کا کوئی نظام نہیں تھا۔ قبائلیوں کا منصوبہ واضح تھا۔ جیسے ہی صبح کی پہلی کرنیں پھوٹیں گی، لاتعداد قبائلی مہاراجہ ہری سنگھ کے سوئے ہوئے دارالحکومت پر حملہ کریں گے۔
جب سیراب حیات خان نے قبائلیوں کے ساتھ سرینگر کی طرف مارچ کرنے کا حکم دیا تو انھیں پتا چلا کہ اُن کی فوج وہاں سے غائب ہے۔
بعد میں ایک انٹرویو میں سیراب حیات خان نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’اپنے کشمیری بھائیوں کو آزاد کرانے کے لیے ان کا جہاد مظفرآباد کے ہندو بازار میں ایک رات کے حملے سے شروع ہوا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے انھیں روکنے کی کوشش کی، انھیں سمجھایا کہ ہمیں سرینگر جانا ہے لیکن کسی نے نہیں سنی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں اگلے 75 میل کا سفر کرنے میں 48 گھنٹے لگے۔‘
وی پی مینن کو سرینگر بھیجا گیا
ماؤنٹ بیٹن کو یہ خبر اُس وقت ملی جب وہ تھائی لینڈ کے وزیر خارجہ کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت کے لیے تیار ہو رہے تھے اور کپڑے بدل رہے تھے۔
ضیافت کے بعد جب تمام مہمان چلے گئے تو انھوں نے نہرو کو ٹھہرنے کو کہا۔ نہرو یہ خبر سُن کر چونک گئے۔ اگلے دن شام کو انڈین فضائیہ کا ایک ڈی سی-3 طیارہ سرینگر کے ویران ہوائی اڈے پر اُترا۔
اس پر تین آدمی سوار تھے۔ سردار پٹیل کے قابل اعتماد سینیئر آئی سی ایس آفیسر وی پی مینن، انڈین فوج کے سیم مانک شا اور فضائیہ کے افسر ونگ کمانڈر دیوان۔
بعد میں مؤرخ ایچ وی پوڈسن کے ساتھ ایک انٹرویو میں وی پی مینن نے اس سفر کو یاد کرتے ہوئے بتایا: ’اس دن سرینگر میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ ائیرپورٹ پر ایک بھی شخص ہمارے استقبال کرنے کے لیے موجود نہیں تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں ایئرپورٹ سے سیدھا سرکاری گیسٹ ہاؤس گیا۔ وہاں چند چپراسیوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میرے پاس کوئی مسلح محافظ نہیں تھا۔ پھر میں وہاں سے سیدھا کشمیر کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن کے گھر گیا۔‘
مینن نے کہا: ’مہاجن نے مجھ سے کچھ کرنے کی درخواست کی۔ میں نے کہا کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے کافی دن تھے۔ آپ نے کچھ نہیں کیا اور اب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔‘
سرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر پہنچنے والے پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کو خالی ہاتھ واپس کیوں لوٹنا پڑا؟جب کشمیر ’ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش‘ کو پچھتر لاکھ روپے میں بیچ دیا گیامہاراجہ پر کیا دباؤ تھا؟ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے آخری دنوں کی کہانیایک گمشدہ یاک کی تلاش جس نے کارگل کے پہاڑوں پر ’پاکستانی فوجیوں کی موجودگی‘ کا راز فاش کیاGetty Imagesڈکوٹا طیارے میں سرینگر پہنچنے والے انڈین فوجی اہلکارانڈیا سے فوجی مدد بھیجنے کی درخواست
تب تک خبر آ چکی تھی کہ حملہ آوروں نے اُڑی اور بارہمولہ کے درمیان ایک پاور پلانٹ کو اڑا دیا ہے اور مہاراجہ کی فوج کے مسلمان سپاہیوں نے بغاوت کر دی ہے۔
حملہ آور سرینگر سے صرف 45 میل کے فاصلے پر تھے۔ جب وی پی مینن تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس پہنچے تو ان کی حالت بہت خراب تھی۔
وی پی مینن نے مہاراجہ کو مشورہ دیا کہ اگر وہ سرینگر چھوڑ کر جموں چلے جائیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔
وی پی مینن گیسٹ ہاؤس واپس آئے لیکن واپس آنے سے پہلے مہاراجہ ہری سنگھ نے ان سے فوری طور پر فوجی مدد بھیجنے کی درخواست کی۔
نارائنی باسو وی پی مینن کی سوانح عمری ’دی انسنگ آرکیٹیکٹ آف ماڈرن انڈیا‘ میں لکھتی ہیں کہ ’گیسٹ ہاؤس میں مینن کو کھانا کھلانے یا ان کا بستر بچھانے والا کوئی نہیں تھا۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’وہ اتنے تھکے تھے کہ وہ اپنے سامنے والے بستر پر لیٹ گئے۔ وہاں کوئی لحاف نہیں تھا۔ سرینگر کی سردی کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے انھیں خود کو ڈھانپنے کے لیے ایک اور بیڈ شیٹ کا سہارا لینا پڑا۔‘
’وہ سو نہیں پا رہے تھے، صبح چار بجے ان کا ٹیلی فون بجا۔ دوسری طرف کشمیر کے وزیر اعظم انھیں اطلاع دے رہے تھے کہ حملہ آور سرینگر کی سرحد پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ فوراً وہاں سے چلے جائیں۔‘
لیکن ہری سنگھ وہاں موجود تمام گاڑیوں کو اپنے ساتھ جموں لے گئے تھے۔ بڑی مشکل سے مینن نے ایک پرانی جیپ حاصل کی۔
وہ اس میں سوار ہوئے اور صبح ساڑھے چار بجے ایئرپورٹ پہنچے لیکن پائلٹ نے یہ کہہ کر پرواز سے انکار کر دیا کہ وہ صبح کی پہلی کرنوں سے پہلے ایسا نہیں کر سکتے۔
تاہم کسی طرح طیارہ دہلی پہنچ گیا اور وی پی مینن ہوائی اڈے سے سیدھے دفاعی کمیٹی کی میٹنگ میں گئے جہاں انھوں نے بتایا کہ وہ سرینگر میں کیا دیکھ کر آئے ہیں۔
بارہمولہ میں حملہ
دریں اثنا، قبائلیوں نے اُڑی اور مظفر آباد پر قبضہ کر لیا اور 25 اکتوبر کو بارہمولہ پہنچ گئے۔ یہاں انھوں نے ایک قتل عام کیا۔
بی بی سی کے سابق سینیئر صحافی اینڈریو وائٹ ہیڈ اپنی کتاب ’اے مشن ان کشمیر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بارہمولہ کے سینٹ جوزف کانونٹ اور ہسپتال کو بھی نہیں بخشا گیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ خواتین اور بچوں کو مردوں سے الگ کیا گیا تھا اور تمام مردوں کو گولیاں مار دی گئی تھیں۔‘
’چرچ کو اس بُری طرح سے لوٹا گیا کہ دروازوں کے پیتل کے ہینڈل تک کو نہیں چھوڑا۔ پورے دو دن تک قتل، عصمت دری اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ پکڑی گئی لڑکیوں کی بولی بھی لگائی گئی۔‘
انڈیا میں انضمام کی شرطGetty Imagesلارڈ ماؤنٹ بیٹن بغیر دستخط کے فوج بھیجنے کے حق میں نہیں تھے
دفاعی کمیٹی میں مینن کا مشورہ یہ تھا کہ کشمیر کو بچانے کے لیے انڈیا فوری طور پر فوجی امداد بھیجے۔
لیکن ماؤنٹ بیٹن نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے انڈیا میں الحاق سے پہلے انڈیا کو کشمیر میں فوجی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ انضمام سے بھارت کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا قانونی حق مل جائے گا۔
میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ مینن ایک بار پھر انضمام کا خط لے کر کشمیر جائیں گے۔ مہاراجہ کے دستخط ہوتے ہی انڈیا کشمیر میں اپنی فوج بھیجنا شروع کر دے گا۔
نارائنی باسو لکھتی ہیں کہ تازہ دستاویزات ٹائپ کرنے کا وقت نہیں تھا، اس لیے پرانی دستاویزات کا استعمال کیا گیا تھا۔ اگست میں بیشتر شاہی ریاستیں ہندوستان کے ساتھ ضم ہو گئی تھیں۔
انھوں نے لکھا: ’نیشنل آرکائیوز میں دستیاب دستاویزات میں اگست کو قلم سے کاٹ کر اکتوبر لکھا گیا اور تاریخ بھی تبدیل کی گئی۔ جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی، مینن ایک بار پھر چلے گئے لیکن اس بار جموں کے لیے روانہ ہوئے۔‘
مینن جب مہاراجہ ہری سنگھ کے محل میں پہنچے تو دیکھا کہ سرینگر سے لائی گئی قیمتی چیزیں محل کی دیوار کے اندر باغ میں بکھری پڑی ہیں۔
یہ تمام سامان 48 ٹرکوں کے قافلے میں لایا گیا تھا اور اس میں ہیرے اور جواہرات سے لے کر پینٹنگز اور قالین تک سب کچھ تھا۔
انضمام کے معاہدے پر دستخطGetty Imagesبرطانیہ چاہتا تھا کہ یہ فیصلہ رجواڑے خود کریں کہ وہ انڈیا یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا خود مختار رہنا چاہتے ہیں
مہاراجہ طویل پہاڑی مسافت طے کرنے کے سبب تھک کر سو گئے تھے۔ سونے سے پہلے مہاراجہ نے مہاراجہ کی حیثیت سے اپنے آخری احکامات اپنے اے ڈی سی کو دیے۔
لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں: ’مہاراجہ کا حکم تھا کہ مجھے تب ہی جگایا جائے جب وی پی مینن دہلی سے واپس آئیں۔ ان کی واپسی کا مطلب یہ ہو گا کہ انڈیا نے ہماری مدد کا فیصلہ کیا ہے لیکن اگر وہ صبح سے پہلے نہیں آیا تو مجھے نیند میں اپنے پستول سے گولی مار دی جائے۔ اگر وہ نہیں آتے تو اس کا مطلب ہے کہ سارا کھیل ختم ہو گیا ہے۔‘
بہر حال مہاراجہ ہری سنگھ کو جموں میں قیام کی پہلی ہی رات گولی مارنے کی نوبت نہیں آئی۔
مینن مہاراجہ کے اے ڈی سی کو دی گئی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ان کی پلنگ کے پاس پہنچ گئے۔ ان کے پاس انضمام کے معاہدے کی دستاویز تیار تھی۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے فوراً دستخط کر دیے۔
انڈین فوج نے آپریشن شروع کیاGetty Imagesسردار پٹیل
وی پی مینن 26 اکتوبر کو کشمیر کے انضمام کی دستاویز کے ساتھ دہلی واپس آئے۔ وزیر داخلہ سردار پٹیل تمام پروٹوکول توڑ کر صفدر جنگ ایئرپورٹ پر ان سے ملنے پہنچے۔
وہاں سے دونوں سیدھے دفاعی کونسل کے ایک اور اجلاس میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ شام کو برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر الیگزینڈر سائمن مینن کے گھر آئے۔
لیپیئر اور کولنز لکھتے ہیں: ’مینن بہت خوش تھے۔ انھوں نے ان دونوں کے لیے ایک ایک بڑا پیگ بنایا۔ کچھ دیر بعد انھوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر برطانوی سفارت کار کو دکھایا اور کہا ’یہ رہا کشمیر کے الحاق کا خط۔ اب کشمیر ہمارا ہے۔ اب ہم اسے اپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دیں گے۔‘
27 اکتوبر کی صبح سویرے ایک سو سے زیادہ فوجی اور سویلین طیاروں نے سرینگر کے لیے اڑان بھری جن میں فوجیوں کے ساتھ فوجی ساز و سامان اور دوسرے ضروری سامان تھے۔
سب سے پہلے نو ڈی سی -3 تیارے سرینگر میں اترے۔ اس میں سکھ رجمنٹ کے 329 فوجی اور آٹھ ٹن فوجی ساز و سامانتھا۔
ایک وقت آیا جب کشمیر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں پر ایک لاکھ سے زیادہ ہندوستانی فوجی قبائلیوں سے لڑ رہے تھے۔
آہستہ آہستہ انھوں نے قبائلی حملہ آوروں کو اسی راستے سے پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا جس راستے سے وہ سرینگر کے قریب پہنچے تھے۔
اس طرح وادی کشمیر انڈیا کے کنٹرول میں رہی اور گلگت کے ارد گرد کا شمالی علاقہ پاکستان کے کنٹرول میں رہا۔
اتنے سالوں کے بعد بھی کشمیر ہی انڈیا اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی جڑ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ایک گمشدہ یاک کی تلاش جس نے کارگل کے پہاڑوں پر ’پاکستانی فوجیوں کی موجودگی‘ کا راز فاش کیاسرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر پہنچنے والے پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کو خالی ہاتھ واپس کیوں لوٹنا پڑا؟جب ایک انگریز فوجی افسر نے پاکستان کے حق میں بغاوت کیکشمیر میں ریلوے ٹریک کا نیا پل جو ایفل ٹاور سے بھی 35 میٹر اونچا ہےچھ روپے کا ایک انڈا جو سوا دو لاکھ روپے میں نیلام ہواکیرن سیکٹر: ’رات کو ہمارے ہاں بجلی ہوتی نہیں اور ایل او سی کے پار ایک منٹ کے لیے بھی نہیں جاتی‘