Getty Images
شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد حالیہ دنوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے اور سفارتی سطح پر بہت سی پیش رفت ہوئی ہیں۔
اب بنگلہ دیش نے پاکستانی طلبہ کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی بنگلہ دیشی شہریوں اور طلبا کے لیے ویزا حاصل کرنے کے عمل کو خاصا آسان بنا دیا ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر سائمہ حق بیدیشہ نے بتایا کہ یہ فیصلہ 13 نومبر کو وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد خان کی صدارت میں منعقدہ سنڈیکیٹ اجلاس میں کیا گیا۔
نئی پالیسی کے مطابق پاکستانی طلبا ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں گے اور بنگلہ دیشی طلبا پاکستان میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ اس فیصلے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ شیخ حسینہ کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مختلف سطحوں پر قربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پہلی بار پاکستان کا بنگلہ دیش کے ساتھ سمندری رابطہ بحال ہوا جب ایک پاکستانی مال بردار جہاز کراچی سے بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع چٹاگانگ کی بندرگاہ پر پہنچا۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان بحری تجارت سنگاپور یا کولمبو کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری راستے سے تجارت کیسے بحال ہوئیکیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کا پاکستان اور چین کو کیسے فائدہ ہو سکتا ہے؟بنگلہ دیش: حسینہ واجد کا استعفیٰ اور آرمی چیف کی پریس کانفرنس، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟
پروفیسر سیما حق بیدیشہ نے بنگلہ دیش کے انگریزی اخبار ڈھاکہ ٹریبیون کو بتایا کہ ’پاکستان کے ساتھ تعلقات کئی سطحوں پر اچھے نہیں ہیں لیکن ڈھاکہ یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ ہمارے بہت سے طلبہ سکالرشپ پر پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ کئی لوگ تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کر لیا ہے۔اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کر دیے گئے ہیں۔‘
ڈھاکہ یونیورسٹی نے بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کی آواز بھی اسی یونیورسٹی سے اٹھی ہے۔
اس سال جولائی-اگست میں شیخ حسینہ کے خلاف تحریک کا آغاز بھی ڈھاکہ یونیورسٹی سے ہوا۔ اس یونیورسٹی نے 1971 کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو پاکستان کے فوجی آپریشن سرچ لائٹ کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی نے ہمیشہ سے پاکستان مخالف تحریک کی جائے پیدائش کے طور پر شہرت پائی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران یونیورسٹی میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان1971 میں مشرقی پاکستان میں نسل کشی پر معافی مانگے۔
شیخ حسینہ نے 2015 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
Getty Imagesڈھاکہ یونیورسٹی پاکستان مخالف تحریک کا گڑھ سمجھی جاتی تھی لیکن اب کچھ تبدیلی آ رہی ہے ہندوؤں پر حملے سے متعلق سوالات ’پروپیگنڈا‘ قرار
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پر اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں پر حملے کروانے اور اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت کرنے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم اس وقت جاری تھی۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے 18 نومبر کو بھارتی انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہندوؤں پر حملے سے متعلق سوالات کو پروپیگنڈا قرار دیا۔
محمد یونس نے کہا کہ ’ٹرمپ کے پاس بنگلہ دیش اور اس کی اقلیتوں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہیں۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب ٹرمپ کو حقیقت کا علم ہوگا تو وہ بھی حیران رہ جائیں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ امریکہ میں نئے صدر کے آنے سے سب کچھ بدل جائے گا۔ اگر امریکہ میں اقتدار میں تبدیلی ہوئی ہے، تو بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ کو تھوڑا انتظار کرنا چاہیے۔ ہماری معیشت درست راستے پر ہے اور امریکہ اس میں بہت دلچسپی لے گا۔‘
’دی ہندو‘ نے ان سے سوال کیا کہ یہ صرف ٹرمپ کا معاملہ نہیں ہے۔ انڈیا نے بھی کئی بار پریس کانفرنسز میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔
اس کے جواب میں محمد یونس نے کہا کہ ’16 اگست کو میری وزیر اعظممودی سے فون پر پہلی بات چیت ہوئی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے بھی بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کے بارے میں بات کی۔ میں نے انھیں واضح طور پر بتایا کہ یہ سب پروپیگنڈا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کئی صحافی یہاں آئے، اور کئی لوگوں نے کشیدگی کے بارے میں بات کی، لیکن حقیقت وہ نہیں ہے، جو میڈیا میں کہی جا رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پروپیگنڈے کے پیچھے کون ہے، لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
Getty Imagesپاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر انڈیا کی ’پریشانی‘
انڈیا کے بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر پرنے ورما نے 17 نومبر کو ’بے آف بنگال کنورسیشن‘ میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بنگلہ دیش میں اقتدار کی پرتشدد تبدیلی کے باوجود انڈیا کے بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی، ٹرانسپورٹ، توانائی اورعوامی سطح پر تعلقات مثبت ہیں۔ ہمارے تعلقات کثیر الجہتی ہیں اور کسی ایک ایجنڈے پر منحصر نہیں ہیں۔‘
تاہم پاکستان میں بنگلہ دیش کی نئی حکومت کا مؤقف مثبت طور پر لیا جا رہا ہے۔ انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنرعبدالباسط کا ماننا ہے کہ شیخ حسینہ کا اقتدار سے باہر ہونا پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔
عبدالباسط نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی اور کہا کہ ’انڈیا شیخ حسینہ کے اقتدار سے باہر ہونے پر خوش نہیں ہے۔ انڈین لابی امریکہ میں بنگلہ دیش کے خلاف فعال ہوگئی ہے۔ یہ لابی ٹرمپ انتظامیہ کو بنگلہ دیش پر پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش سے برآمد ہونے والے زیادہ ترگارمنٹس امریکہ کو بھیجے جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کی وکالت کی ہے۔ اگر ٹرمپ ٹیرف لگاتے ہیں تو بنگلہ دیش کو بہت نقصان ہوگا۔‘
عبدالباسط نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان سمندری روابط کے آغاز پر کہا کہ ’یہ پہلا موقع ہے کہ ایک پاکستانی کارگو جہاز براہ راست چٹاگانگ پہنچا ہے۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی تجارت ہوتی تھی وہ سنگاپور اور سری لنکا کے ذریعے کی جاتی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے انڈیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ بنگلہ دیش کی قیادت اب بہت کھلے ذہن کی حامل ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خلاف ہیں لیکن انھوں نے اپنے مواقع کھلے رکھے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کیوں نہ بڑھائے جائیں۔ اب اگلا قدم یہ ہوگا کہ تجارتی اور صنعتی دنیا کی تنظیمیں بھی ایک دوسرے کے دورے کریں گی اور ممکن ہے کہ اگلے سال تک دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر بات چیت شروع ہو جائے۔‘
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی تاریخ Getty Imagesذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ یہاں تک کہ شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو (جو بعد میں وزیر اعظم بنے) سے اس وقت تک بات کرنے سے انکار کر دیا جب تک پاکستان بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کر لے۔ پاکستان نے بھی ابتدا میں بنگلہ دیش کی آزادی کو مسترد کر دیا تھا۔
لیکن پاکستان کے رویے میں اچانک تبدیلی آئی اور فروری 1974 میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔
اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے اور انھوں نے شیخ مجیب الرحمن کو باضابطہ دعوت بھیجی۔ پہلے تو مجیب نے شرکت سے انکار کر دیا، لیکن بعد میں اس دعوت کو قبول کر لیا گیا۔
اس کانفرنس کے بعد انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا۔ ان تینوں ممالک نے 9 اپریل 1974 کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ 1971 کی جنگ کے بعد باقی ماندہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔ پاکستان نے 28 اگست 1973 کے انڈیا اور پاکستان کے درمیانمعاہدے میں درج چاروں اقسام کے غیر بنگالیوں کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں کسی قسم کا جرم کیا ہے تو یہ قابل افسوس ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جون 1974 میں ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران بنگلہ دیش نے اثاثوں کی تقسیم کا معاملہ اٹھایا۔ اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں برف پگھلنے لگی۔
پاکستان نے 22 فروری 1974 کو بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ بھٹو نے اس تسلیم کا اعلان او آئی سی کے اجلاس میں ہی کیا۔
تسلیم کا اعلان کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’اللہ کے نام پر اور اس ملک کے شہریوں کی جانب سے ہم بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ کل ایک وفد آئے گا اور ہم انھیں سات کروڑ مسلمانوں کی جانب سے گلے لگائیں گے۔‘
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری راستے سے تجارت کیسے بحال ہوئیکیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟تیستا ماسٹر پلان: کیا بنگلہ دیش انڈیا کی رضا مندی کے بغیر چین سے قرض حاصل کر سکتا ہے؟52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش معیشت کے شعبے میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟’بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے‘: شیخ حسینہ کے بیٹے نے یہ موازنہ کیوں کیا اور کیا یہ حقائق پر مبنی ہے؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کا پاکستان اور چین کو کیسے فائدہ ہو سکتا ہے؟