تابکاری مواد کی برآمدگی کے واقعات پر انڈین حکومت کی تشویش: ’تجزیے سے پہلے میڈیا کو بتانے سے عالمی سطح پر انڈیا کی بدنامی ہوتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 08, 2024

Getty Imagesپاکستان نے انڈیا میں جوہری اور ديگر تابکاری مادوں کی چوری اور غیر قانونی فروخت کے بار بار رونما ہونے والے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا

انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے ملک کی سبھی ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں کو ہدایت جاری کریں کہ غیر قانونی جوہری اور دیگر تابکاری مادوں کی برآمدگی کے بارے میں فوری طور پر میڈیا کو اطلاع نہ دی جائے۔

وزارتِ داخلہ نے ریاستوں کو بھبجے گئے اس ہدایت نامے میں کہا ہے کہ برآمد شدہ مادوں میں تابکاری کی تصدیق کئی طرح کے تجزیوںاور جاںچ کے بعد ہی ہو پاتی ہے اور تصدیق کے عمل سے پہلے میڈیا میں بیان دینے سے بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی بدنامی ہوتی ہے۔

انڈین میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مرکزی وزیرِ داخلہ نے حال ہی میں ریاستوں کے چیف سیکریٹریز، پولیس سربراہان اور پولیس کمشنرز کو بھیجے گئے سرکاری خط میں اس طرح کے معاملات پر تشویش ظاہر کی گئی جن میں ریاستی پولیس ’تابکاری مادے‘ کی لیبارٹری میں سائنسی بنیادوں پر ہونے والی تصدیق سے پہلے ہی پریس کو بیان جاری کر دیتی ہے۔

روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق اگرچہ اس خط میں وزارت داخلہ نے کسی مخصوص واقعے کا حوالہ نہیں دیا ہے لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ شرارت پسند عناصر جعلی مادوں کو تابکاری مادہ بتا کر خبروں میں اُچھالتے ہیں ’جس کا مقصد جوہری اور تابکاری مادوں کو محفوظ رکھنے سے متعلق انڈیا کے حفاظتی انتظام اور ضابطوں کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر انڈیا کو بدنام کرنا ہے۔‘

خط کے مطابق اس مہم کا مقصد عالمی سطح پر یہ تاثر دینا ہے کہ انڈیا میں جوہری اور تابکاری مادوں کی سمگلنگ کی ایک بلیک مارکٹ موجود ہے۔

انڈین وزیر دفاع کا جوہری بم کا نیا فارمولہپاکستان نہیں چین ہے انڈیا کے جوہری نشانے پرایٹمی حملے کا حکم کون دے سکتا ہے؟انڈیا ایک خفیہ جوہری شہر تعمیر کر رہا ہے: پاکستانی دفتر خارجہ

وزارتِ داخلہ کے ہدایت نامے میں تمام پولیس اہکاروں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی مشتبہ تابکاری مادے کی برآمدگی کی صورت میں پریس میں کوئی بیان دینے سے پہلے اسے سائنسی تجزیے کے لیے اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کو بھیجیں اور جب وہاں سے اس کی تصدیق ہو جائے تب ہی کوئی بیان جاری کریں۔

واضح رہے کہ انڈیا میں مشتبہ جوہری مادہ پکڑے جانے پر پولیس اہلکار پریس کانفرنس کر کے اس کے بارے اطلاع دیتے تھے اور بعض حالیہ معاملوں میں ایسے افراد کو بھی میڈیا کے سامنے لایا گیا تھا جن کے قبضے سے مشتبہ تابکاری مادہ برآمد ہوا اور میڈیا کو مشتبہ مادوں کی تصاویر لینے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔

Getty Images

تابکاری مادہ برآمد کیے جانے کا ایک واقعہ تین مہینے پہلے سامنے آیا تھا جب اگست 2024 میں بہار کی پولیس نے گوپال گنج ضلع میں تین افراد کے قبضے سے 50 گرام نایاب کیلیفورنیم پتھر برآمد کیا تھا۔

یہ ایک نایاب تابکاری مادہ ہے اور اس کی قیت 850 کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔ گوپال گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سورن پربھات نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ یہ سمگلر کئی مہینے سے اس مادے کو فروحت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ملزمان کے پاس سے اس مادے کے بارے میں لیباریٹری کی ایک ٹیسٹ رپورٹ بھی برآمد ہوئی تھی۔ لندن میں واقع رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کے مطابق کیلیفورنیم طاقتور نیوٹران خارج کرنے والا ایک مادہ ہے اور اس کا استعمال ایسے میٹل ڈیٹیکٹر میں کیا جاتا ہے جو زمین کے اندر سونے چاندی کی تہیں، پانی اور تیل کی موجودگی اور ہوائی جہازوں میں گل جانے اور خراب ہونے والے آلات کا پتہ لگاتے ہیں۔

بہار میں کیلیفورنیم تابکاری مادہ کی برآمدگی کے وا‏قعہ کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے اگست میں انڈیا میں جوہری مادوں کی حفاظت کے نظام کے مؤثر ہونے کے بارے میں تشویش ظاہر کی تھی۔

پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو انڈیا میں جوہری اور ديگر تابکاری مادوں کی چوری اور غیر قانونی فروخت کے بار بار رونما ہونے والے واقعات پر گہری تشویش ہے۔

انھوں نے بہار کے وا‏قعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تازہ ترین واقعہ میں ایک گینگ کے قبضے سے 100 ملین ڈالر مالیت کا انتہائی تابکار اور ٹاکسک مادہ کیلیفورنیم برآمد ہوا ہے اور اس طرح کے حساس مواد وقتآ فوقتآ انڈیا میں غلط ہاتھوں میں پہچنا بہت ہی خطرناک ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے تابکاری مواد کی برآمدگی کے دیگر واقعات کا بھی ذکر کرتے ہوئے انڈین حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس بات کی مکمل اور مفصل وضاحت کرے کہ کس طرح کیلیفورنیم جیسے محفوظ تابکار مادے غیر متعلقہ ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

انڈیا نے اس وقت پاکستان کے بیان کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا تھا اور انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا تھا کہ اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کے ماہرین نے مبینہ کیلیفورنیم مادہ کا تجزیہ کیا تھا اور انھیں اس میں کوئی تابکاری اثرات نہیں ملے ہے۔

اٹامک بورڈ نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی۔ جیسوال نے کہا تھا کہ جو بے بنیاد تبصرے کر رہے ہیں ان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے پراپیگنڈہ سے باز آ جائیں۔

انھوں نے مزید کہا تھا کہ انڈیا میں تابکاری مادوں کے تحفظ کا ایک مؤثر قانونی نظام اور ضابطہ نافذ ہے اور انڈیا کے جوہری کنٹرول کا ریکارڈ خود اس کے مؤثر ہونے کا ثبوت ہے۔

انڈیا کی حکومت نے جس طرح ریاستوں کی پولیس کو تابکاری کے مادوں کی برآمدگی کے بارے میں متعلقہ سرکاری لیبارٹریز کی تصدیق کے بغیر کوئی بیان دینے سے منع کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بارے میں انڈیا کی تشویش بڑھ رہی ہے۔

یاد رہے کہ بہار کے واقعہ سے محض ایک مہینے قبل جولائی 2024 میں اتراکھنڈ کی پولیس نے دہرہ دون میں پانچ افراد کو جوہری مادے اور ریڈیوگرافک کیمرہ کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ اس وقت دہرہ دون کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجے سنگھ نے اُن افراد کی گرفتاری اور تابکاری مادے کی برآمدگی کی تصدیق کی تھی۔

Getty Imagesانڈیا میں2021 میں مہاراشٹر کی پولیس نے دو افراد کو تقریبا سات کلوگرام قدرتی یورنیم کے ساتھ گرفتار کیا تھا

یہ مواد مضبوط پیلیکن باکس میں رکھا گیا تھا۔ مشتبہ افراد نے پولیس کو مبینہ طور پر بتایا تھا کہ اس باکس کو کھولنا خطرناک ہو گا کیونکہ اس کے اندر جوہری کیمیکل رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں اور نیوکلیئر پاور کارپوریشن کی ریاستی ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیم کی تفتیش سے یہ تصدیق ہوئی تھی کہ اس باکس میں تابکاری مادہ رکھا ہوا تھا۔

مزید تجزیے کے لیے ملک کے جوہری تحقیق کے سب سے اہم ادارے بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر سے رجوع کیا گیا تھا۔

انڈیا میں اس سے قبل 2021 میں مہاراشٹر کی پولیس نے دو افراد کو تقریبا سات کلوگرام قدرتی یورنیم کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد جھارکھنڈ کی پولیس نے بھی سات افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے قبضے سے ساڑھے چھ کلوگرامیورینیم برامد کی گئی تھی۔

جھارکھنڈ میں یورینیم کی ایک بڑی کان ہے۔ ان واقعات میں پولیس کے ابتدائی بیانات کے بعد مزید تفصیلات کا پتہ نہیں چل سکا۔

Getty Imagesانڈیا میں 1962 کے اٹامک انرجی ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت نے تابکاری مادوں کو بنانے، رکھنے، استعمال، منتقلی، برآمد، درآمد اور انھیں ضائع کرنے کے ضابطے بنا رکھے ہیں

انڈیا میں سنہ 1962 کے اٹامک انرجی ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت نے تابکاری مادوں کو بنانے، رکھنے، استعمال، منتقلی، برآمد، درآمد اور انھیں ضائع کرنے کے ضابطے بنا رکھے ہیں اور انھیں وہ مختلف اداروں کے ذریعے سختی سے نافذ کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشل اٹامک انرجی ایجنسی مختلف ملکوں اور بین الاقوامی سطح پر جوہری اور تابکاری مادوں کے پھیلاؤ پر نظر رکھتی ہے۔ ایجنسی نے سنہ 2023 کی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2022 میں عالمی سطح پر مختلف ملکوں میں جوہری اور دیگر تابکاری مٹیریل سے متعلق 146 واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے جن میں جوہری اور تابکاری مادوں کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔

اس کی ایک مفصل فہرست جاری کی گئی تھی لیکن یہ رپورٹ خفیہ رکھی جاتی ہے اور صرف اس میں شامل 143 ممالک اور انٹرپول جیسے متعلقہ بین الاقوامی ادارےہی اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

ہیروشیما پر گرنے والا ایٹم بم لےجانے والا بحری جہاز مل گیا’پاکستان کے پاس انڈیا سے زیادہ جوہری بم ہیں‘’بموں کی ماں‘ نام کی لاج رکھنے میں ناکام؟پاکستان نہیں چین ہے انڈیا کے جوہری نشانے پرانڈیا ایک خفیہ جوہری شہر تعمیر کر رہا ہے: پاکستانی دفتر خارجہانڈین وزیر دفاع کا جوہری بم کا نیا فارمولہایٹمی حملے کا حکم کون دے سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More