Getty Images
جب سے یہ ملک پیدا ہوا تب سے ہمیں بس دو طرح کے انتخابات میں دلچسپی ہے۔ عوام کو یہ انتظار رہتا ہے کہ انھیں پھر کب بیلٹ بکس کی زیارت نصیب ہو گی۔ اس ڈبے میں جتنے ووٹ پڑیں گے انھیں گنے کا کون اور گنتی کے بعد بھی وزیرِ اعظم کون بنے گا اور اسے دراصل کون چنے گا اور کتنے برس کے لیے؟
دوسرا امریکہ کا صدارتی انتخاب ہے۔ مگر اس میں عام پاکستانیوں سے زیادہ حکمران اشرافیہ کی دلچسپی ہے۔ کیونکہ جتنا یقین دیسی اشرافیہ کو اپنے عوام کی سمجھ بوجھ پر ہے، اس سے دس گنا بھروسہ واشنگٹن کی جنبشِ ابرو پر ہے۔
اب تو خیر وہ بات نہیں رہی مگر چند برس پہلے تک امریکی صدارتی نتائج پر ہماری قومی توجہ کا یہ عالم تھا کہ ’آقا جو لڑکھڑایا تو نوکر پھسل گیا۔‘
ایک عام امریکی کو اپنے صدر کے بارے میں شاید اتنا معلوم نہ ہو جتنا ہم نسل در نسل بتاتے آ رہے ہیں۔ مثلاً یہی کہ لیاقت علی خان نے کس طرح سٹالن کا دعوت نامہ ٹھکرا کے صدر ٹرومین کا نیوتا قبول کر لیا اور یہ نیوتا آج تک ہمارے ہر سادہ و خاکی حکمران کے گلے میں لٹکا (یا اٹکا) ہوا ہے۔
کئی برس سے روایت ہے کہ جب بھی کوئی صدر یا وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے تو سب سے پہلے سلام کرنے ریاض اور پھر بیجنگ جاتا ہے۔ لیکن امریکہ سے اگر دورے کی دعوت چھوڑ مبارک بادی کا فون تک نہ آئے تو ہمارے کرسی نشینوں کو برابر لگتا رہتا ہے کہ شاید زندگی میں سب کچھ ملنے کے باوجود ایک فوٹو کی کمی رہ گئی۔
وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی صدر کے بازو میں بیٹھ کر تصویر نہ کھنچی تو کاہے کی بادشاہی؟ بھلے اوباما کے سامنے ہر ایک منٹ بعد گلے کی خشکی کے سبب کھنکارتے ہوئے نواز شریف کی طرح ہاتھ میں ’کیا کیا بات کرنی ہے‘ کی پرچی ہی کیوں نہ پھنسی ہو۔
Getty Imagesعمران خان جب ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو مجمع دیکھ کے بقول خان صاحب ’یوں لگ رہا ہے جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں‘
دور کیوں جائیں۔ ہمارے اگلے سے پچھلے وزیرِ اعظم عمران خان جب ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو مجمع دیکھ کے بقول خان صاحب ’یوں لگ رہا ہے جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں۔‘
اور جب بائیڈن نے انھیں کبھی کال نہیں کی تو بے چین خان صاحب کے منھ سے ایک روز نکل ہی گیا کہ ’مجھے بھی اس کی کال کا انتظار نہیں۔‘ یعنی شاعر دراصل کہہ رہا ہے کہ ’جا جا میں توسے ناہی بولوں۔‘
دبدبے کا یہ عالم ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی صفِ دوم کا اہلکار ڈونلڈ لو جسے گھر والے دوسری بار سالن مانگنے پر گھورتے ہوں گے اس کا ایک جملہ ہماری خدائی ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
امریکہ اوروں کے لیے سپر پاور ہو گا۔ ہمارے لیے تو وہ ایک متواتر ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اگر امریکہہمارے تئیں بار بار بے وفائی نہ کرتا اور گو نا گوں خدمات کے عوض جتنی دہاڑی بنتی ہے اتنی ہی دے دیتا تو آج ہمارے چین سے بھی اتنے ہی اچھے تعلقات ہوتے جتنے ایران سے ہیں۔
عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘عمران خان کی قید کا ایک سال: ’جس بحران کے خاتمے کے لیے انھیں جیل میں بند کیا گیا تھا، وہ ختم نہیں ہوا‘ڈونلڈ لو: حکومتِ پاکستان کو ملنے والی ’دھمکی‘ کا اہم کردار کون ہے؟ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میںپیشی کیا پی ٹی آئی لابنگ کی کامیابی ہے اور پارٹی کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟
پھر بھی ہم نے سنہری یادیں سینت سینت کے رکھ چھوڑی ہیں۔ مثلاً آج کے امریکی لونڈوں لپاڑوں کو لنڈن بی جانسن کے بارے میں شاید ہی معلوم ہے۔ مگر ہم نے بشیر ساربان اور صدر جانسن کی دوستی کی کہانی خود کو نسل در نسل منتقل کی ہے۔
صدر ایوب کا جان ایف کینیڈی کی دعوت پر دس روزہ سٹیٹ وزٹ اور ان کی اہلیہ جیکولین کے ہمراہ گھڑ سواری کی باچھیں کھول تصاویر، ضیا الحق کا وائٹ ہاؤس کے لان میں ریگن کے ساتھ ٹہلنے کا بصری لمحہ، پرویز مشرف کے صدر بش کے کان میں کچھ کہنے کی تصویر (حالانکہ جو بات کان میں کہی گئی وہ بش کو پہلے سے معلوم تھی) یا پھر وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ شاہ محمود قریشی کی سر جوڑ آرسی مصحف تصویر۔
اور کیا چاہیے امریکہ سے۔ ہماری سیاسی و عسکری نسلوں کے لیے تو یہ تصاویر بھی بیش قیمت اثاثہ ہے۔
Getty Images
پھر بھی ہم آج تک اس اداسی میں پھنسے ہیں کہ امریکہ نے ہم سے لیا بہت اور بدلے میں دیا بہت کم۔ جبکہ امریکیوں کا خیال ہے کہ پاکستانیوں نے بس لیا ہی لیا ہے۔
ہم جس رشتے کو وفا و بے وفائی کے ترازو پر تولنے سے باز نہیں آتے امریکہ اسے خدمت اور معاوضے کے میزان پر رکھتا ہے۔
جانے کس لال بھجکڑ نے ایک اور بات ہماری اشرافی نفسیات میں ڈال دیکہ جب ریپبلیکن صدر آتا ہے تو وہ ہمارا کسی ڈیموکریٹ صدر کی نسبت زیادہ خیال رکھتا ہے۔ اور یہ کہ ڈیموکریٹس کا روائیتی جھکاؤ انڈیاکی طرف ہے۔
ہم چونکہ مشرقی روایات کے مارے ہوئے ہیں لہذا ہر بار بھول جاتے ہیں کہ ملکوں کی یاری نہیں ہوتی بلکہ مفادات کی ہم آہنگی کو دوستی کی پوشاک پہنا دی جاتی ہے۔
جب مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پوشاک بھی واپس لے لی جاتی ہے۔
جو دور اندیش رہنما اس عرصہِ دوستی کو غنیمت جان کے ذاتی کپڑے سلوا لیتے ہیں انھیں پرائی خلعت اترنے سے زیادہ جھٹکا نہیں لگتا۔ مگر جو بھولے بادشاہ اجرتی پوشاک کو ذاتی سمجھ لیتے ہیں وہ بعد میں تن ڈھانپنے کے لیے انجیر کا پتہ تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔
Getty Images
میں تب سکول میں پڑھتا تھا جب یحیی خان نے امریکہ چین تعلقات کی بحالی کے لیے سہولت کاری کی تھی اور صدر نکسن اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنگر پاکستان کے اس احسان کا بار بارتذکرہ نہیں بھولتے تھے۔
جب اسی نکسن انتظامیہ نے خلیج بنگال میں ساتواں بحری بیڑہ بھیجا تو ہماری فوجی قیادت کو یوں لگا گویا امریکہ مشرقی پاکستان کو انڈیا سے بچانے آ گیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کا ہر بلیٹن اس خبر سے شروع ہوتا تھا کہ آج ساتواں بحری بیڑہ مشرقی پاکستان سے کتنا قریب پہنچ گیا ہے۔ پھر اچانک ساتویں بیڑے نے اپنا رخ اور مشرقی پاکستان کے بارے میں آخری امید نے ہم سے منھ موڑ لیا۔
اور یحٰیی رجیم کے رطب السان اسی ہنری کسنجر نے اگلے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا جوہری پروگرام روکنے کے لیے کھلی دھمکی دی اور پھر اگلے حکمران ضیا الحق کو آزاد دنیا کا ہراول سپاہی کہہ کر ریپبلیکن ریگن نے گلے لگا لیا اور پھر اگلی انتظامیہ نے افغان جہاد کے دورانیے میں پاکستان کو جوہری پیش رفت سے مستسنی رکھنے کا سرٹیفکیٹ واپس لے کر ایف سولہ طیاروں کی خریدی ہوئی کھیپ بھی ضبط کر لی اور نوے کی پوری دہائی ایسے ہی گذر گئی۔
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے ایک بار پھر مسکرا کے دیکھا تو ہم ایک بار پھر مارے خوشی کے چپر غٹو ہو گئے۔ دو طرفہ ماضی راتوں رات معاف ہو گیا۔ حال سنہری اور مستقبل روشن دکھنے لگا۔ جیسے ہی افغانستان سے آخری امریکی فوجی نکلا وہ دن اور آج کا دن تو کون اور میں کون۔
مگر آج بھی ہمارے متعدد لطیف کھوسے خوشی سے جھومتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بس دیکھنا جیسے ہی ٹرمپ آتا ہے خان بھی باہر آ جائے گا۔ یہ فارمی سیٹ اپ تو ٹرمپ کے ایک فون کی مار ہے۔
اور بھائیواگر کملا ہیرس آ گئی تو؟
ہائے وے ساڈیاں سادگیاں تے نیاز مندیاں۔
دھمکی آمیز خط کا معمہ: قومی سلامتی کا معاملہ یا سیاسی ہتھیار؟ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میںپیشی کیا پی ٹی آئی لابنگ کی کامیابی ہے اور پارٹی کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟عمران خان کا دورہ امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان پر یوٹرن’ٹرمپ اور عمران ایک دوسرے سے مخاطب ہی نہیں‘دورۂ امریکہ: ’افغانستان کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی‘’پاکستان، انڈیا مسئلہ کشمیر پر مل کر اختلافات دور کریں‘عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟