Getty Imagesمحمد رضا پہلوی اپنی اہلیہ شہزادی فوزیہ کے ہمراہ۔ مصر کے بادشاہ فاروق کی اہلیہ ملکہ فریدہ بھی تصویر میں موجود ہیں
ایران اور اسرائیل میں جاری کشیدگی کے درمیان ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اُردن اور مصر کا ایک غیر معمولی دورہ کیا ہے۔
مصر عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں ایکخاص مقام رکھتا ہے اور اِسی تناظر میں ایران کے سیاسی رہنما گذشتہ کئیبرسوں سے مصر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایران اور مصر مشرق وسطیٰ کے ناصرف دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ دونوں ممالکمشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ایک منفرد سیاسی اور سماجی شناخت رکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک 20ویں صدی میں معرض وجود میں آئے ہیں جبکہ قدیم تہذیبوں کا امین ہونے کے باعثایران اور مصر کا مشرق وسطیٰ میں ایک بلند رتبہ اور مقام ہے۔
ایران اور مصر میں برادرانہ تعلق کی تاریخ اختلافات اور مفاہمت سے بھری پڑی ہے۔ خاص طور پر اگر گذشتہ 150 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ممالک جہاں متعدد مرتبہ بہت سے معاملات پر ایک دوسرے کے انتہائی قریب آئے وہیں بعض اوقات وہ تصادم اور دشمنی کے راستے پر بھی چلے۔
فی الوقت ایران اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات انتہائی محدود نوعیت کے ہیں اور حالیہ برسوں میں کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود دونوں ممالک نے ابھی تک ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے اپنے سفیر تعینات نہیں کیے ہیں۔
تاہم غزہ کی جنگ اور لبنان پر اسرائیلی حملوں نے تہران اور قاہرہ کو تعلقات دوبارہ بہتر کرنے کا ایک نیا موقع دیا ہے اور حالیہ ایرانی سفارتی سرگرمیاں واضح طور پر کم از کم ایران کی جانب سے مفاہمت کی شدید خواہش کا اظہار ہیں۔
درحقیقت ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا مصر سمیت خطے کے دیگر ممالک کا دورہ کرنے کا مقصد ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر بات چیت کرنا تھا۔ اپنے اس دورے کے دوران عباس عراقچی لبنان، عراق اور سعودی عرب کے بعد مصر اور اُردن گئے تھے۔
اس تمام تر منظر نامے میں مصر کو ایک خاص فوقیت حاصل ہے کیونکہ ناصرف اس کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھملتی ہیں بلکہ اس کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ جبکہ مصر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔
ایران اور مصر کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جغرافیائی فاصلوں اور سنگین مسائل کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات، دوستی اور تعاون کی بہت سی وجوہات تھیں۔ تاہم علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
خاندانی تعلقاتGetty Imagesرضا پہلوی اپنی اہلیہ شہزادی فوزیہ کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ بائیں جانب ان کی اہلیہ کے بھائی اور مصر کے بادشاہ فاروق موجود ہیں
اگر ماضی کی بات کی جائے تو خطے میں سلطنت عثمانیہ اور اس کے بعد فرانس اور انگلینڈ جیسی نوآبادیاتی طاقتوں کی موجودگی کے باعث ایران اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات بہت زیادہ رسمی شکل اختیار نہ کر سکے۔
16ویں صدی کے اوائل میں مصر سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بن گیا لیکن 19ویں صدی کے آخر میں یہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔
سنہ 1922 میں انگریزوں نے مصر کی آزادی کو اگرچہ سرکاری طور پر تسلیم تو کیا مگر انھوں نے خارجہ پالیسی، فوج، نہر سویز اور مصر میں موجود طاقت کے دوسرے بڑے مراکز کا کنٹرول مصریوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران ایران کے حوالے سے انگریزوں کی حکمت عملی مختلف تھی۔ انھوں نے ایران میں رضا شاہ نامی ایک فوجی کمانڈر کی حمایت کی جس نے سنہ میں1921 ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا اور پھر پانچسال کے اندر اندر احمد شاہ قاجار کا تختہ الٹ کر پہلوی بادشاہت کے نام سے خود تاج پہن لیا۔
اس طرح پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد ایران اور مصر میں ایسے بادشاہوں کی حکمرانی تھی جن کی معاشی اور سیاسی پالیسیاں اپنے ملک کے عوام کی خواہشات یا مفادات سے زیادہ تاجِ برطانیہ کے تابع تھیں۔
مصری شاہی دربار کے ساتھ رضا شاہ کے تعلقات کو مکمل طور پر پروان چڑھنے میں تقریباً دو دہائیاں لگیں۔ جب ایران کے شاہ اپنے بڑے بیٹے اور ولی عہد محمد رضا کے لیے دلہن کی تلاش میں تھے تو انھوں نے مصر کے بادشاہ فاروق کی بہن فوزیہ کا انتخاب کیا۔
اور یہ انتخاب رضا شاہ اور مصر کے بادشاہ فاروق، دونوں کے لیے بڑا سیاسی اور علامتی فائدہ لے کر آیا۔
پہلوی خاندان کی نئی نئی قائم کردہ بادشاہت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے سلسلے میں یہ ایک اہم اقدام تھا، یعنی ایک ایسے شاہی خانوادے (مصر کے بادشاہ فاروق) سے تعلق قائم کرنا جو بہت عرصے سے قائم و دائم تھا۔
دوسری طرف شاہ فاروق، جن کا ملک ایک مغربی طاقت کے کنٹرول میں تھا اور جن کو عرب خطے میں ایک نااہل اور کٹھ پتلی حکمران کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اس سیاسی شادی سے خود کو بطور حکمران حاصل ہونے والے فوائد سے پوری طرح آگاہ تھے۔
سنہ 1939 میں ایرانی ولی عہد محمد رضا پہلوی کی مصری شہزادی فوزیہ سے شادی کے بعد دونوں ممالک نے جدید تاریخ میں پہلی بار سفیروں کا تبادلہ کیا، اور یوں تہران اور قاہرہ کے درمیان باضابطہ طور پر مکمل سفارتی تعلقات کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب خاندانی مراسم اور دونوں ممالک کی علاقائی اہمیت کے تناظر میں یہ تعلقات ایک روشن مستقبل کے حامل نظر آئے۔
شاہ فاروق کا زوالGetty Imagesعرب قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر کے لیے ایران کے شاہ صرف ایک اور علاقائی بادشاہ ہی نہیں بلکہ ایک غیر عرب بادشاہ بھی تھے
وقت کے ساتھ ولی عہد شہزادہ محمد رضا کی فوزیہ سے شادی ایران کے شاہی خاندان کے لیے ایک پریشان کُن اور تکلیف دہ ملاپ ثابت ہوئی۔ اس دور میں اگرچہ دونوں ممالک میں باہمی سفارتی تعلقات تو تھے لیکن رضا شاہ کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے میں مصر کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ شاہ فاروق اور ان کے وزرائے اعظم کو سفارتی اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں انتہائی محدود آزادی حاصل تھی۔
ایران اور مصر کے باضابطہ سفارتی تعلقات قائمہونے کے فوراً بعدہی دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی اور دونوں ممالک نوآبادیاتی طاقتوں خصوصاً برطانیہ کی جنگی پالیسیوں کو فروغ دینے کے آلہ کار بن گئے۔
تاہم جنگ کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک برطانیہ کے زیر کنٹرول مشرق وسطیٰ کے نظام کا حصہ بن گئے جس میں امریکہ اور فرانس کا عمل دخل نسبتاً کم تھا۔
اگرچہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کوئی غیرمعمولی نوعیت کے نہیں تھے مگر اس دورانیے میں کبھی ان کے درمیان تصادم یا دشمنی فروغ نہیں پائی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایران اور مصر دونوں ہی اپنے اپنے ممالک میں غربت پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کرنے اور یورپی دارالحکومتوں سے اپنے اپنے وسائل اور اہم پالیسیوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں سرکرداں تھے۔
ایران اور مصر کے تعلقات میں یہ منفرد دور سنہ 1952 میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا جب مصر میں فوجی افسروں کے ایک گروپ نے ملک میں برطانوی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور ملک کی معیشت کے اہم شعبوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
اس اقدام کو بعد میں ’1952 کے انقلاب‘ کا نام دیا گیا جس کے نتیجے میں شاہ فاروق کو معزول ہونا پڑا اور اس طرح مصر سے تقریباً 150 سال پرانی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بادشاہت کے خاتمے کے تین سال کے اندر جمال عبدالناصر نے نو قائم شدہ جمہوریہ مصر میں اقتدار حاصل کر لیا۔
اس کے بعد سے مصر عرب قوم پرستی اور مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلابات کا علمبردار بن کر سامنے آیا جس کے نتیجے میں جلد ہی ایران بھی سعودی عرب اور عراق جیسی دیگر بادشاہتوں کے ساتھ مصر مخالف کیمپ میں آ گیا۔
عرب قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر کے لیے ایران کے شاہ صرف ایک اور علاقائی بادشاہ ہی نہیں بلکہ ایک غیر عرب بادشاہ بھی تھے جنھیں مغرب کی حمایت حاصل تھی۔
جمال عبدالناصر نے اپنے عرب قوم پرست پراپیگنڈے میں ایران کو خاص طور پر نشانہ بنایا اور ایران پر اسرائیل کے ساتھ اتحاد کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور امریکی ہتھیاروں سے لیس تیار کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔
انور سادات اور شاہ ایران کی دوستیGetty Imagesشاہ ایران اور مصر کے صدر انور سادات
جمال عبدالناصر کو خطے میں اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں پے در پے شکستوں کے بعد بالآخر 1970 میں جمال عبدالناصر اچانک وفات پا گئے۔ اُن کے جانشین انور سادات (جو 1952 کی بغاوت میں جمال عبدالناصر کے ساتھ شریک تھے) نے اپنے ملک کی اہم پالیسیوں کو لگ بھگ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔
انور سادات نے اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اخوان المسلمین کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کی اور شاہ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔
ابتدا میں ایرانی مالی امداد کے اقتصادی فائدے پر مبنی تعلقات تیزی سے آگے بڑھے جس کی ثقافتی اور تاریخی مماثلت نہیں ملتی۔
اس وقت انور سادات نے تہران کے دورے کے موقع پر محمد رضا پہلوی کی موجودگی میں فارسی زبان میں ایک عبارت پڑھ کر سُنائی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی دوستی کا تذکرہ تھا۔
اس موقع پر انھوں نے سامعین کو ایرانیوں اور مصریوں کے اُن کی قدیم تہذیبوں سے وسیع تعلقات کی یاد دہانی کروائی اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک مشترکہ تاریخ رکھنے کے باعث ایک جیسے ہیں۔
اپنے سرکاری بیانات میں شاہ ایران اور انور سادات نے ایک دوسرے کی بہت تعریف کی اور عوامی سطح پر ایک دوسرے کے لیے اپنائیت کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
سنہ 1973 میں مصر نے دوسرے عرب ممالک کے تعاون سے جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا دعویٰ سامنے آنے پر اسرائیل پر حملہ کیا۔ لیکن جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی انھیں ناکامی کا سامنا ہوا۔
جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے ساتھ معاملات طے کرنے میں انور سادات نے سفارتکاری کا راستہ اپنایا اور اس حکمت عملی میں شاہ ایران کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔
امریکی دستاویزات کے مطابق جب شاہ ایران دو سال بعد امریکی صدر جیرالڈ فورڈ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن گئے تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اگر معمر قذافی جیسی انتہائی انقلابی نظریات کی حامل شخصیات سعودی عرب کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ایران اور مصر کو سعودی عرب کے تیل کے وسائل پرمشترکہ کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔
بالآخر جب محمد رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ مستقل طور پر اپنا ملک چھوڑ گئے تو سادات نے سابق شاہ ایران کے ساتھ بھائی چارے کا رویہ اپنایا، یہاں تک کے شاہ کی جلاوطنی کے دور میں انور سادات نے ہمیشہ ان (شاہ ایران) کے ساتھ ایسا برتاؤ رکھا جیسا کہ وہ اب بھی اقتدار میں ہوں۔
یہاں تک کہ جب شاہ ایران کے سب سے بڑے اور اہم حامی امریکہ نے ان کی شدید بیماری کے باوجود انھیں نیویارک شہر کے ہسپتال میں علاج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تو یہ انور سادات ہی تھے جنھوں نے معزول شاہکی موت تک کی فراخدلی اور عزت کے ساتھ میزبانی کی۔
محمد رضا شاہ کی موت کے بعد بھی انور سادات نے ان کے لیےبڑے پیمانے پر سرکاری جناز ے کی تقریب کا انعقاد کیا جس میں انھوں نے دنیا کو دکھایا کہ انھیں ذاتی طور پر شاہ سے کتنی محبت تھی۔
خالد اسلامبولیGetty Imagesایرانی حکام نے تہران میں ایک سڑک کا نام سادات کے قاتل خالد الاسلامبولی کے نام پر رکھا تھا
ایران میں شاہ کا تختہ الٹ کر حکومت میں آنے والے اسلامی انقلاب پسندوں کے لیے انور سادات سے اُن کی دشمنی شاہ کو پناہ دینے کے معاملے سے آگے بڑھ گئی تھی۔
ایرانی انقلاب کے عروج کے دور میں سادات نے امریکی صدر جمی کارٹر کی سربراہی میں اسرائیلی وزیر اعظم میناچم بیگن کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔
ایرانی انقلاب کے فوراً بعد (مارچ 1979 میں) مصر وہ پہلا عرب ملک بن گیا جس نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے۔
انور سادات کے اس اقدام نے مشرق وسطیٰ میں ہلچل مچا دی اور عرب دنیا کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے مصر کی پوزیشن پر سنگین سوالات اٹھائے جانے لگے۔
اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے تین سال بعد، سادات کو خالد الاسلامبولی نامی ایک مصری فوجی افسر نے قتل کر دیا جس کے بعد وسیع پیمانے پر عدم استحکام، سیاسی تشدد، مسلح اسلام پسند بغاوت یا یہاں تک کہ خانہ جنگی کے امکان کے خدشات نے مصر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایک سخت ردعمل کے طور پر مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے سادات کے نائب حسنی مبارک کی حمایت کی۔
اسرائیل کی ’سب سے مہنگی جنگ‘: اسرائیلی معیشت حماس اور حزب اللہ سے جنگوں کی وجہ سے کیسے متاثر ہوئی؟ایئرفورس کے زیر زمین سینٹر سے حملوں کی کمانڈ: ایران پر اسرائیلی حملوں سے متعلق اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟’دور مار میزائل اور اتحادی ملک کی جاسوسی‘: کیا ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے سے متعلق امریکی دستاویزات کسی خاص مقصد کے تحت افشا ہوئیں؟
ایران اور مصر کے تعلقات شاہ ایران کی قاہرہ میں موجودگی اور اسرائیل کے ساتھ سادات کے امن معاہدے کی وجہ سےپہلے سے ہی کشیدہ تھے، اور اب یہ سخت دشمنی میں بدل گئے۔
ایران نے سیاسی پراپیگنڈے میں انور سادات کو مارنے والے خالد الاسلامبولی کو ایک بہادر جنگجو کے طور پر دکھایا اور تہران کی ایک مرکزی سڑک کا نام تبدیل کر کے سے ’شہید خالد اسلامبولی سٹریٹ‘ کا نام دے دیا۔
اور یہ وہ وقت تھا جب مصر اور ایران میں دشمنی اپنے عروج کو پہنچی۔
حسنی مبارکGetty Imagesحسنی مبارک کے دور میں مصر نے ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین کا ساتھ دیا
ایران، عراق جنگ کے آغاز پر مصر نے صدام حسین کی حمایت کی اور جیسے جیسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، مصر صدام حسین کے اہم اتحادیوں میں سے ایک بن گیا اور یہاں تک کہ مصر نے اس جنگ کے لیے عراق کو ہتھیار بھی فراہم کیے۔
ایران کے خلاف کھلی دشمنی کا اظہار اور صدام حیسن کی مکمل حمایت نے مصر کو، خاص طور پر، خلیجی ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی راہ ہموار کی اور علاقائی طاقتوں سے یہ سٹریٹجک اتحاد ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہا۔
تاہم 1990 کی دہائی کے اوائل میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کرنے اور اس سے الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تو مصر عراق کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ تاہم یہ صورتحال بھی تہران اور قاہرہ کے درمیان تعلقات بہتر نہیں کر سکی اور ایران نے مصر پر اسرائیل اور امریکہ کی ’کٹھ پتلی‘ ہونے کا الزام لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
1990 کی دہائی کے وسط میں مصر اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کا زبردست حامی تھا جب کہ ایران نے امریکہ کی جانب سے شروع کیے گئے امن مذاکرات کی شدید مخالفت کی۔
فلسطینیوں نے قاہرہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے کہ غزہ کا انتظام کیسے کیا جائے۔
اس کے ساتھ مصر اسرائیل اور اردن کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا بھی بڑا حامی رہا جس کی وجہ سے بالآخر دونوں ممالک کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
اس وقت تک مصر کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سخت بیانات کے اثرات نمایاں طور پر کم ہو چکے تھے۔
تاہم، جو کچھ فلسطینی علاقوں میں ہو رہا تھا وہ ان امن معاہدوں سے مماثلت نہیں رکھتا تھا۔
سنہ 1995 میں فلسطینیوں کے ساتھ امن کے سب سے اہم حامی اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کو قتل کر دیا گیا اور اسرائیل نے اپنا راستہ یکسر بدل دیا۔
اس وقت سے اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کی 1967 کی سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کو مسترد کر دیا۔
نتیجتاً 21ویں صدی اسرائیل اور خطے کے لیے زیادہ امن کے ساتھ نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کے احتجاج کے ساتھ شروع ہوئی۔
ایران اور مصر اس تنازعکے دوران منقسم اور الگ الگ سائیڈز پر رہے اور اسرائیل کے مسئلے نے تہران اور قاہرہ کو ایک گرہ میں الجھا کر رکھ دیا اور تنازعات اور تعلقات کی بحالی کے لیے بہت کم امید رہ گئی۔
نئی صدیGetty Imagesمصر لبنان میں حزب اللہ کے عروج سے مطمئن نہیں تھا
21ویں صدی کے آغاز میں تہران اور قاہرہ کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوئے۔
لبنان میں مصر نے حزب اللہ کے خلاف سنی گروہوں کی حمایت کی کیونکہ وہ ایک طاقتور شیعہ اسلامی تنظیم کے عروج اور اثر و رسوخ سے مطمئن نہیں تھا۔
سنہ 2003 میں امریکہ اور برطانیہ نے صدام حسین کا تختہ الٹ دیا جس کے نتیجے میں ایران نے عراق میں طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کیا، جو مصر کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
تاہم اس وقت کے ایرانی صدر محمد خاتمی نے مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان طویل تعطل کے بعد یہ رابطہ کسی حد تک بحال ہوا۔ تاہم ان رابطوں کے بھی کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
سنہ 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک بمباری کی تو ایران اور مصر کے درمیان دراڑیں مزید گہری ہو گئی۔
اس جنگ کے دوران مصر نے سعودی عرب کی طرح حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم دو سال بعد غزہ جنگ کے دوران دونوں ممالک ایک بار پھر مخالف فریقوں کے بیچ کھڑے پائے گئے۔
سنہ 2009 میں جب صدارتی انتخابات کے نتائج کے خلاف لاکھوں ایرانیوں کے احتجاج کی تصاویر دنیا بھر میں نشر کی گئیں تو مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بار بار ان تصاویر کو نشر کیا اور ایرانی حکومت پر غیر مسلح مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے دبانے کا الزام لگایا۔
ایرانی حکومت اُس سال بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے بچ تو گئی لیکن دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد عرب دنیا کے بڑے حصوں میں اسی طرح کی بغاوتیں دیکھنے میں آئی۔
حسنی مبارک کے معزول ہونے کے بعد اخوان المسلمون کے محمد مرسی نے الیکشن میں صدارتی انتخاب جیت لیا۔
سنہ 2011 میں مرسی نے غیر وابستہ تحریک (نان الائنڈ موومنٹ سمٹ) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے تہران کا سفر کیا۔ اور دو سال بعد محمود احمدی نژاد نے اسلامی تنظیم تعاون کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ کا دورہ کیا۔
لیکن اس کے فوراً بعد وسیع پیمانے پر مظاہروں کے بعد مصری فوج نے مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عبدالفتاح السیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اس کے بعد کے سالوں میں سیسی نے سعودی عرب کے ساتھ مکمل طور پر اتحاد کیا۔
یاد رہے کہسعودی عرب نے محمد بن سلمان کی قیادت میں اپنی خارجہ پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا تھا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عروج کا مقابلہ کرتے ہوئے علاقائی طاقت پرغالب آنے کی کوشش کی تھی۔
نیا دورGetty Imagesایرانی صدر مسعود پزشکیان اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی روس میں ہونے والے برکس اجلاس میں ملاقات
اگرچہ تہران میں خالد الاسلامبولی سٹریٹ کا نام تبدیل کرنے کے فیصلے سمیت ایران کی کسی کوشش کے نتیجے میں مصر کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہو سکی لیکن قاہرہ کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے تہران کی حکمت عملی زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔
چاہے وہ ایران سعودی تنازعات کے دوران مصر کی محمد بن سلمان کی مکمل حمایت کا موقع ہو یا خطے میں فلسطین کے حامیوں کو الگ تھلگ کرنے کی اسرائیل کی بڑے پیمانے پر کی گئیں کوششیں، ایران نے ہمیشہ قاہرہ کے ساتھ اپنے تناؤ کو سنبھالنا چاہا ہے۔
اسرائیل، فلسطین مذاکرات میں حصہ لینے والے اہم ترین ممالک میں مصر سر فہرست رہا ہے اور یہ اپنے غیر معمولی جغرافیائی محل وقوع اور بڑی آبادی کی وجہ سے ایران کے لیے ہمیشہ ایک انتہائی منافع بخش اقتصادی اور سیاسی شراکت دار ثابت ہو سکتا ہے۔
اب جب کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی غیر معمولی سطح پر پہنچ چکی ہے ایسے میں ایران نے مصر سے واضح درخواست کی ہے کہ حالیہ کشیدگی اور مستقبل کے ممکنہ تنازعات کی روشنی میں اگر مصر ایران کے ساتھ اتحاد نہیں بھی کرتا تو کم از کم ایران کے دشمنوں کی صف میں شامل نہ ہو۔
ایرانی سیاست دان اور سرکاری میڈیا خطے میں موجودہ دشمنی اور کشیدگی کو اسرائیل مخالف پالیسی کے حصے کے طور پر ڈھالنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایران کی مطلوبہ خارجہ پالیسی کے تحت علاقائی ممالک کے ساتھ کوئی دشمنی یا مقابلہ نہیں ہے اور اسرائیل ایران اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا’حقیقی دشمن‘ ہے۔
امریکہ کی جانب سے بھرپور مالی امداد پر انحصارکرنے والے سیسی اور مصر کے فوجی رہنماوں کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہمیشہ کی طرح مشکل ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔ حماس اور اسلامی جہاد جیسے گروپوں کے بارے میں ان کے مختلف نظریات بھی اختلاف کی بڑی وجہ ہیں۔
لبنان کی صورتحال، یمن میں حوثی حکومت، شام کی خانہ جنگی، بشار الاسد کے کردار اور عراق میں پیش رفت یہ سب بھی دوطرفہ تعلقات میں حائل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایران اور مصر دونوں کے لیے سفارتی تعلقات کے باوجود تعلقات میں بہتری، چار دہائیوں سے زیادہ کی دشمنی اور مسابقت کے خاتمے کے امکانات غیر یقینی ہیں۔
اسرائیل کی ’سب سے مہنگی جنگ‘: اسرائیلی معیشت حماس اور حزب اللہ سے جنگوں کی وجہ سے کیسے متاثر ہوئی؟ایئرفورس کے زیر زمین سینٹر سے حملوں کی کمانڈ: ایران پر اسرائیلی حملوں سے متعلق اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟’دور مار میزائل اور اتحادی ملک کی جاسوسی‘: کیا ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے سے متعلق امریکی دستاویزات کسی خاص مقصد کے تحت افشا ہوئیں؟دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہ