وفاقی حکومت نے آئی پی پیز مالکان کو 2018 سے 2022 کے دوران 168 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام آئی پی پیپز کا تفصیلی آڈٹ ہونا چاہیے کیونکہ ان کو ادائیگیاں عوامی پیسے سے کی جاتی ہیں۔
مختلف شہروں میں رات گئے موسلا دھاربارش،پہاڑوں پر برفباری
انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 کے تحت ان پر ٹیکس بنتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے کمپنیاں بے تحاشہ منافع کمارہی ہیں۔ 220 آئی پی پی مالکان پابند ہونے کے باوجود آڈٹ نہیں کرا رہے ہیں اور نہ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔
پاور پروڈیوسرز کے اخراجات کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے۔ انہیں ادا کی گئی رقم کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ حکومت آئی پی پیز کو ٹیکس نیٹ میں لائے۔ انہیں پاور پالیسی کا حصہ بنائے۔
بٹنوں والا فور جی موبائل فون متعارف
آئی پی پیز کو ٹیکس چھوٹ کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔ ہم نیوز ایف بی آر حکام سے مؤقف لینے کی کوشش کر رہا ہے۔