شاید آپ نے شاپور جی سکلت والا کا نام نہ سنا ہو اور شاید تاریخ کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر نمایاں طور پر نہ ملے لیکن ماضی کی کسی بھی اچھی کہانی کی طرح ان کی کہانی بھی دلچسپیوں سے خالی نہیں۔
اس کے لیے اتنا جاننا ہی اپنے آپ میں دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلق انڈیا کے سب سے امیر خاندان ٹاٹا سے تھا۔
ہر موڑ پر ایسا لگتا ہے کہ ان کی زندگی جہد مسلسل، مزاحمت اور استقامت سے عبارت تھی۔ انھوں نے نہ تو اپنے امیر کزنز کی طرح اپنے نام کے ساتھ ’ٹاٹا‘ لگایا اور نہ ہی ان کی دولت میں شراکت داری کی۔
اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کاروباری سلطنتوں میں سے ایک ٹاٹا گروپ کو چلانے کے لیے وہ آگے نہیں آئے بلکہ اس کی بجائے وہ ایک بااثر سیاست دان بنے اور انھوں نے برطانوی پارلیمان میں تاج برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔
یہاں تک کہ ان کا انڈیا کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مہاتما گاندھی سے بھی تصادم رہا۔
بہرحال یہاں یہ سوال اپنے آپ میں دلچسپی کا باعث ہے کہ اتنے بڑے تاجر گھرانے میں پیدا ہونے والے سکلت والا نے اپنے رشتہ داروں سے مختلف راستہ کیوں اختیار کیا؟
اور انھوں نے برطانیہ میں پہلے ایشیائی رکن پارلیمنٹ بننے کی راہ کیسے ہموار کی؟ اس کا جواب اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ سکلت والا کے اپنے خاندان کے ساتھ تعلقات۔
Getty Imagesکمیونسٹ پارٹی آف گریٹ بریٹن کے ممبران پارلیمنٹ سکلت والا شاپور جی (بائیں) اور والٹن نیوبولڈ (دائیں)
سکلت والا کپاس کے تاجر دوراب جی سکلت والا اور جر بائی کے بیٹے تھے۔ جربائی جمسیت جی، نوشیرواں جی ٹاٹا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں جنھوں نے ٹاٹا گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔
جب سکلت والا 14 سال کے تھے تو ان کا خاندان بمبئی کے سپلینیڈ ہاؤس میں جربائی کے بھائی (جن کا نام بھی جمسیت جی تھا) اور ان کے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے چلے گئے۔
سکلت والا کے والدین اس وقت الگ ہو گئے جب وہ ابھی نو عمر ہی تھے اور اس طرح چھوٹے جمسیت جی ان کی زندگی کی اہم شخصیت بن گئے۔
سکلت والا کی بیٹی سحری اپنے والد کیسوانح عمری ’دی ففتھ کمانڈمنٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’جمسیت جی ہمیشہ سے ہی شاپور جی کو خاصا پسند کرتے تھے اور انھوں نے بہت کم عمری سے ہی ان میں بڑی صلاحیتوں کے امکانات دیکھے تھے، انھوں نے ان پر بہت زیادہ توجہ دی۔‘
لیکن جمسیت جی کی سکلت والا سے محبت نے ان کے بڑے بیٹے دوراب جی کو اپنے چھوٹے کزن سے ناراض کر دیا۔
سحریلکھتی ہیں کہ ’بچپن سے لےکر بڑے ہونے تک وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف رہے اور ان کا اختلاف کبھی ختم نہیں ہوا۔‘
اس کے نتیجے میں دوراب جی خاندانی کاروبار میں سکلت والا کے کردار کو کم کرنے کا باعث بنے اور سکلت والا کو ایک مختلف راستہ چننے پر مجبور کیا۔
انڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایاانڈیا کے ’بگ فائیو‘: اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے ’کاروباری خاندانوں کا غلبہ‘ جو انڈین معیشت کو متاثر کر رہا ہےنوئل ٹاٹا: 100 ارب ڈالر سے زیادہ آمدن والی کمپنی کے نئے سربراہ جو رتن ٹاٹا کے سوتیلے بھائی ہیںGetty Imagesقدیم بمبئی میں ٹاٹا خاندان کے گھر ’سپلینیڈ ہاؤس‘ کی ایک تصویر
لیکن خاندانی چپقلش کے علاوہ سکلت والا 1890 کی دہائی کے آخر میں بمبئی میں آنے والے بوبونک طاعون کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ کس طرح اس وبا نے غریب اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا، جبکہ ان کے خاندان سمیت معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لوگ اس وبا میں نسبتاً محفوظ رہے۔
اس دوران سکلت والا کالج میں تھے اور انھوں نے ایک روسی سائنسدان والڈیمار ہافکائن کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ہافکائن کو اپنی انقلابی سیاست کی وجہ سے اپنے ملک سے بھاگنا پڑا تھا۔ ہافکائن نے طاعون سے لڑنے کے لیے ایک ویکسین تیار کی اور سکلت والا گھر گھر جا کر لوگوں کو ٹیکہ لگوانے پر راضی کرتے تھے۔
سحری لکھتی ہیں کہ ’ان دونوں کے نقطہ نظر میں بہت کچھ مشترک تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اصول پسند بوڑھے سائنس دان اور نوجوان ہمدرد طالب علم کے درمیان کے قریبی تعلق نے ضرور شاپور جی کے نظریات کو تشکیل دینے اور ان کو مضبوط کرنے میں مدد کی ہوگی۔‘
ایک اور اہم اثر سیلی مارش کے ساتھ ان کا رشتہ تھا۔ سیلی مارش ایک ویٹریس تھیں جن سے انھوں نے سنہ 1907 میں شادی کی۔
سیلی مارش اپنے والدین کے 12 بچوں میں سے چوتھے نمبر پر تھیں۔ انھوں نے کم عمری میں ہی اپنے والد کو کھو دیا۔ مارش کے گھرانے میں زندگی بہت مشکل تھی کیونکہ ہر ایک کو گزارہ کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔
لیکن اچھی بنیاد سے آنے والے سکلت والا ویٹرس سیلی مارش کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کی صحبت کے دوران سکلت والا نے سیلی کی زندگی کے ذریعے برطانیہ کے محنت کش طبقے کی مشکلات کو دیکھا اور محسوس کیا۔
سحری لکھتی ہیں کہ ان کے والد پادریوں اور راہباؤں کی بے لوث زندگیوں سے بھی متاثر تھے جن کے تحت انھوں نے اپنے سکول اور کالج کے برسوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔
Getty Imagesشاپور جی سکلت والا اپنی شعلہ بیان تقریروں کے لیے جانے جاتے تھے
چنانچہ سکلت والا جب سنہ 1905 میں برطانیہ پہنچے تو انھوں نے غریبوں اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے کے مقصد سے سیاست کے میدان میں اترنے کی ٹھان لی۔
انھوں نے سنہ 1909 میں لیبر پارٹی اور 12 سال بعد کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وہ ہندوستان اور برطانیہ میں محنت کش طبقے کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ صرف سوشلزم ہی غربت کو ختم کر سکتی ہے اور لوگوں کو حکمرانی میں ان کا حق دے سکتی ہے۔
اس دوران سکلت والا کی تقریروں کو خوب پذیرائی ملی اور وہ جلد ہی ایک مقبول چہرہ بن گئے۔ سنہ 1922 میں وہ پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے اور تقریباً سات سال تک رکن پارلیمنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اس دوران انھوں نے ہندوستان کی آزادی کی بھرپور وکالت کی۔ ان کے خیالات اتنے سخت تھے کہ کنزرویٹو پارٹی کے ایک برطانوی، ہندوستانی رکن پارلیمنٹ نے انھیں ایک خطرناک ’بنیاد پرست کمیونسٹ‘ قرار دیا۔
ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر اپنے عہد میں انھوں نے ہندوستان کے دورے بھی کیے، جہاں انھوں نے محنت کش طبقے اور نوجوان قوم پرستوں میں جوش و جذبہ بھرنےکے لیے اور انھیں ترغیب دینے کے لیے تقریریں کیں اور تحریک آزادی کے لیے اپنی حمایت کا وعدہ کیا۔
انھوں نے جن علاقوں کا دورہ کیا وہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو منظم کرنے میں بھی مدد کی۔
کمیونزم کے بارے میں ان کے سخت خیالات اکثر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے نقطہ نظر سے ٹکراتے تھے۔
Getty Imagesسکلت والا، گاندھی کو ’مہاتما‘ کہے جانے کے خلاف تھے
انھوں نے گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’پیارے کامریڈ گاندھی، ہم دونوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے لیے آزاد ہیں تاکہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا صحیح طریقے سے اظہار کر سکیں۔‘
وہ گاندھی کو مہاتما (عظیم ہستی) کہے جانے کے بھی مخالف تھے۔
اگرچہ دونوں کبھی بھی کسی معاہدے پر نہیں پہنچے لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ رہے اور برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کے اپنے مشترکہ مقصد میں متحد رہے۔
ہندوستان میں سکلت والا کی شعلہ بیان تقریروں نے برطانوی حکام کو پریشان کر دیا اور سنہ 1927 میں ان پر اپنے وطن جانے پر پابندی لگا دی گئی۔
سنہ 1929 میں وہ پارلیمنٹ میں اپنی نشست کھو بیٹھے لیکن وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔
سکلت والا سنہ 1936 میں اپنی موت تک برطانوی سیاست اور ہندوستانی قوم پرست تحریک کی ایک اہم شخصیت رہے۔
ان کی آخری رسومات لندن میں ادا کی گئیں اور ان کی راکھ کو لندن کے ایک قبرستان میں ان کے والدین اور جمسیت جی ٹاٹا کے پاس دفن کیا گیا جس نے انھیں ان کی میراث یعنی ٹاٹا قبیلے کے ساتھ ایک بار پھر متحد کر دیا۔
انڈین کمپنی ٹاٹا کی مالیت پاکستان کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایاانڈیا کے ’بگ فائیو‘: اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے ’کاروباری خاندانوں کا غلبہ‘ جو انڈین معیشت کو متاثر کر رہا ہےانڈیا کی ایک لاکھ کی کار نینو: کیا رتن ٹاٹا کا ادھورا خواب نئے انداز میں پورا ہوسکے گا؟’قومی سلامتی یا اردوغان سے تعلق‘: ترک نژاد شہری نے ایئر انڈیا کے سی ای او کا عہدہ کیوں ٹھکرایا؟