راولپنڈی کی ’بار بی کیو‘ پچ اور پاکستان کے وقار کی بحالی

بی بی سی اردو  |  Oct 23, 2024

Reuters

یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ راولپنڈی لَوٹے اور پچ سے جڑے مباحث کی گرد نہ اڑے کہ جب سے پاکستان میں ہوم کرکٹ بحال ہوئی ہے، تب سے راولپنڈی کی پچ نے کئی الگ الگ روپ دکھائے ہیں جن میں سے کچھ پاکستان کے لیے بھیانک بھی ثابت ہوئے۔

تین سال پہلے سری لنکن ٹیم کے خلاف جب پاکستان اسی پچ پر کھیلا تو یہ روایتی راولپنڈی پچ تھی، جس میں پیس اور باؤنس تھا جو میچ میں آگے بڑھتے ہوئے جہاں سپنرز کے لیے کچھ سازگار ہوا تو وہیں پرانی گیند کے ہمراہ ریورس سوئنگ بھی فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

پھر جب جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان اسی پچ پر اترا تو جنوری کا یخ بستہ موسم گھاس سے ہری بھری پچ کے لیے موزوں رہا اور ایسی گرین ٹاپ وکٹ دیکھنے کو ملی جس پر میچ چار دن بھی مکمل نہ کر پایا اور پیسرز نہال رہے۔

یہ دو واقعات تب ہوئے جب پی سی بی کی حالیہ تاریخ کا مستحکم ترین دور تھا۔ احسان مانی کی سرکردگی میں پاکستان کرکٹ اپنے سٹائل اور ہوم گراؤنڈز کے تنوع کی شناخت پیدا کر رہی تھی مگر یہ استحکام زیادہ برقرار نہ رہ پایا اور رمیز راجہ آن پہنچے۔

رمیز راجہ کے زیرِ انتظام پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف سیریز وہ موقع تھی جب راولپنڈی کی پچ کو ’نیوٹرل‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اقدام کی بدولت وہ پچ پیدا ہوئی جہاں پانچ روز میں پندرہ وکٹیں بھی حاصل نہ ہو سکیں۔

اس حکمتِ عملی کا جواز رمیز راجہ نے یہ پیش کیا تھا کہ آسٹریلوی پیسرز کو باؤنس سے محروم کرنے کے لیے ایسی پچ تیار کی گئی کہ وہ میچ میں فیصلہ کن کردار ادا نہ کر سکیں مگر اب یہ انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ پچ بدلنے کا وہ فیصلہ دراصل بابر اعظم کا تھا۔

رمیز راجہ کے مطابق بابر اعظم ایسی پچ چاہتے تھے جو بلے بازی کے لیے آسان ہو۔

Getty Images

بہر طور یہ جس کا بھی فیصلہ تھا مگر اس ایک فیصلے سے شروع ہونے والا زوال ایسا دامن گیر ہوا کہ پھر چار سال تک پاکستان کرکٹ کسی ہوم ٹیسٹ میں جیت کوترستی ہی رہی۔

اب جبکہ دوسرے ملتان ٹیسٹ میں سپن وکٹ نے پاکستان کو امید کی کرن دکھائی تو راولپنڈی میں بھی پچھلے پانچ دن سے ویسی ہی پچ کی تیاری جاری ہے جو پاکستان کا کھویا وقار بحال کر سکے۔

یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ الیکٹرک ہیٹرز اور پنکھوں کے ذریعے پچ کو خشک بلکہ باربی کیو کرنے کا عمل کس قدر موثر ثابت ہو گا کیونکہ جو ’ٹرن‘ ملتان کی پچ میں سات روز استعمال کے بعد پیدا ہوا، یہاں شاید وہ تیسرے دن سے پہلے پیدا نہ ہو پائے۔

ایسے میں پاکستان کے لیے دقت یہ ہے کہ انگلش ٹیم کے برعکس انھیں صرف ایک پیس آل راؤنڈر کی خدمات دستیاب ہیں جبکہ انگلش ٹیم کا توازن زیادہ بہتر ہے کہ اسے تین فرنٹ لائن سپنرز شامل کرنے کے بعد بھی دو پیس آپشنز مہیا رہتے ہیں۔

گو، ملتان کی گرمی اور کنڈیشنز نے جو ریورس سوئنگ مہیا کی تھی، ویسی شاید راولپنڈی میں دیکھنے کو نہ ملے مگر پھر بھی بین سٹوکس اور گس ایٹکنسن کی سیم بولنگ اس پچ کے دوغلے باؤنس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

عاقب جاوید کا ملتان ٹیسٹ جیتنے کا فارمولا: سب سے ’فلیٹ‘ پچ انگلش بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب کیسے بنیساجد خان: فوجی کا بیٹا جو ’ہر بار پرفارم کرنے پر ٹیم سے باہر ہو جاتا ہے‘نیویارک کی ’جادوگر‘ پچ متنازع کیسے بنی اور یہ بیٹرز کے لیے خطرناک کیوں ہو سکتی ہے؟پنڈی کی پچ اور دو بڑے پنکھے:’یہ ٹیکنالوجی پاکستان سے باہر نہیں جانی چاہیے‘

پاکستانی ٹاپ آرڈر میں اگرچہ عبداللہ شفیق سپن کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں مگر ان کی حالیہ فارم قابلِ رشک نہیں رہی اور شان مسعود کی بیک فٹ تکنیک اگر کسی سپن پچ پر موثر ثابت نہ ہو پائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی۔

لیکن کامران غلام اور سعود شکیل وہ دو مہرے ہوں گے جن سے پاکستان کو اپنی بیٹنگ اننگز جوڑے رکھنے کی توقع ہو گی کیونکہ ریحان احمد کی واپسی سے انگلش سپن اٹیک کو جو اضافی تقویت ملی، اس سے نمٹنا پاکستانی مڈل آرڈر کے لیے ہمت طلب کام ہو گا۔

اور اگرچہ ملتان میں ساجد خان اور نعمان علی نے انگلش بیٹنگ کو محبوس کیے رکھا مگر یہاں پہلے دو روز اگر انگلش ٹیم کو بیٹنگ کا موقع مل گیا تو وہ ان دونوں پاکستانی سپنرز کے خلاف بھرپور جارحیت سے مقابلہ کریں گے اور سست رن ریٹ کا تدارک چھکوں سے کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایسے میں پاکستان کے لیے بھی فرنٹ لائن سپنرز کے علاوہ عامر جمال کی تائید کے لیے ایک ریگولر پیسر ضروری ہو سکتا ہے اور جب بات ’بیز بال‘ کی جارحیت پر آئی تو نعمان علی اور ساجد خان سے بڑھ کر یہ شان مسعود کا امتحان ہو گا کہ وہ کیسے انگلش بلے بازوں کی جارحیت کو انھی پر پلٹا سکیں۔

’وننگ کمبینیشن میں تبدیلی نہ کرنے کی روایت کب ختم ہو گی؟‘

انگلینڈ کے خلاف راولپنڈی میں کھیلے جا رہے تیسرے ٹیسٹ کے لیے پلئینگ ایلیون میں شامل کھلاڑیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’ایک بھی فاسٹ بولر کو شامل نہیں کیا گیا، ٹاس ہار گئے تو لگ پتا جانا ہے۔‘

کچھ صارفین وننگ کمبینیشن میں تبدیلی نہ کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ یہ روایت کب ختم ہو گی؟‘

شہریار لکھتے ہیں ’وہی پرانی روایت کہ پچھلا میچ جیت گئے تو وننگ کمبینیشن میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ تین سپنرز کا اچار ڈالنا ہے؟‘

دانیل نامی صارف نے لکھا کہ ’اگر واقعی یہ وکٹ سپن کے لیے بہترین ہے تو دو سپنر کافی تھے، ملتان میں ساجد اور نعمان نے یہ ثابت بھی کیا اور ایسی پچ پر تیسرے سپنر کی ضرورت نہیں۔‘

کچھ افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’تیسرے سپنر کی جگہ ایک سیمر کو موقع ملنا چاہیے تھا۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ اگر انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ لے لی تو اسی سکواڈ کو چننے کا فیصلہ بہت غلط ثابت ہو گا۔‘

کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ ’دونوں ٹیموں نے ایک ایک پیسر شامل کیا، پچ اگر ٹرن نہ ہوئی تو دونوں ٹیموں کو لگ پتا جائے گا۔‘

ساجد خان: فوجی کا بیٹا جو ’ہر بار پرفارم کرنے پر ٹیم سے باہر ہو جاتا ہے‘عاقب جاوید کا ملتان ٹیسٹ جیتنے کا فارمولا: سب سے ’فلیٹ‘ پچ انگلش بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب کیسے بنینیویارک کی ’جادوگر‘ پچ متنازع کیسے بنی اور یہ بیٹرز کے لیے خطرناک کیوں ہو سکتی ہے؟پنڈی کی پچ اور دو بڑے پنکھے:’یہ ٹیکنالوجی پاکستان سے باہر نہیں جانی چاہیے‘سرفراز خان کی پہلی ٹیسٹ سنچری: رنز کا انبار لگانے والے انڈین بلے باز جنھیں کوہلی نے وزن کم کرنے کا مشورہ دیا’نام نہیں بِکتے، صرف جیت بیچی جا سکتی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More