انڈیا کا لداخ میں فوجیں پیچھے ہٹانے اور چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کم کرنے کا نیا معاہدہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 23, 2024

Reutersنریندر مودی اس وقت بریکس کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روس میں موجود ہیں

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی برکس کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے شہر کازان میں موجود ہیں۔ روس کی سربراہی میں ہونے والی اس اجلاس میں چین اور ایران کے صدور سمیت 20 ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کر رہے ہیں۔

اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہونے سے ایک روز قبل انڈیا کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مشرقی لداخ میں ایکچول کنٹرول لائن پر گشت اور فوجیں پیچھے ہٹانے کے حوالے سے چین اور انڈیا کے درمیان معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ منگل کی شام چین نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان سفارتی اور عسکری سطح پر سرحد سے متعلقہ معاملات پر مزید گفتگو ہو رہی ہے۔

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے۔ چین سے بہت دنوں سے بات چیت ہو رہی تھی اور جو متنازع معاملات تھے اُن کے حل کے بارے اتفاق ہو گیا ہے۔ اس کی مزید تفصیلات آئندہ ایک دو روز میں سامنے آ جائیں گی۔‘

انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ دونوں ممالک نے سرحدی علاقوں سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر اتفا‍ق کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ لداخ میں سرحد کے دونوں جانب انڈیا اور چین کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعنیات ہیں۔

وکرم مسری نے مزید بتایا کہ انڈیا اور چین کے سفارتی اور فوجی اہلکاروں کے درمیان کئی سطحوں پر سرحدی تنازع کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ایک عرصے سے بات چیت ہو رہی تھی۔ ’ان مذکرات کے نتیجے میں سرحد پر ایکچول کنٹرول لائن پر گشت کرنے، فوجیں پیچھے ہٹانے اور ان سوالوں کے حل پر اتفاق ہو گیا ہے جن کی وجہ سے 2020 میں اس علاقے میں تنازعات پیدا ہوئے تھے۔ ہم ان کے بارے میں جلد ہي مزید اقدامات کریں گے۔‘

سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی برکس اجلاس میں کئی رہنماؤں سے باہمی ملاقات بھی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس سلسلے میں ملاقاتوں کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں، اس لیے اس مرحلے پر کسی مخصوص رہنما سے ممکنہ بات چیت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن دلی کے سرکاری حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ لداخ تنازع کے حل پر اتفاق کے بعد نریندر مودی اور چینی صدر کے درمیان باہمی ملاقات کے امکانات قوی ہیں۔

مشرقی لداخ کی وادیِ گلوان میں 15 اور 16 جون 2020 کو دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان خونریز ٹکراؤ ہوا تھا۔ اس جھڑپ میں اںڈيا کے 20 فوجی مارے گئے تھے جبکہ چار چینی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اس تصادم کے بعد چینی فوجیوں نے مشرقی لداخ میں پینگانگ سو جھیل سے لے کر ہاٹ سپرنگ ڈیپسانگ اور ڈیمچوک تک کے کم از کم سات سرحدی علاقوں میں ایکچول کنٹرول لائن سے آگے بڑھ کر اُن زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا جن پر انڈیا طویل عرصے سے دعویٰ کرتا آ رہا تھا۔

اس واقعے کے بعد چین اور انڈیا نے لداخ کے ان متنازع علاقوں میں ہزاروں فوجی تمام تر جںگی ساز و سامان کے ساتھ تعینات کر دیے تھے، جو اب تک تعینات ہیں۔

Reutersلداخ میں سرحد کے دونوں جانب انڈیا اور چین کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعنیات ہیں

تاہم نئے معاہدے کے تحت دونوں ملک سرحد پر تعینات فوجیوں کی تعداد کم کریں گے جب کہ گشت کے لیے ایسی حدود مقرر کر دی گئی ہیں جہاں تک دونوں ملک کی فوجیں جا سکیں گی اور پیٹرولنگ کر سکیں گی۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ چین کی فوج ڈیمچوک اور ڈیپسانگ علاقے میں بھی 2020 سے پہلے کی پوزیشن پر لوٹ جائیں گی، تاہم اس ضمن میں تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔

لداخ میں دونوں افواج کے درمیان ٹکراؤ کے بعد انڈیا اور چین کے تعلقات میں انتہائی کشیدگی آ گئی تھی۔ انڈیا نے چینی مصنوعات پر بھاری کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر طریقوں سے بھی انڈیا میں چین کی سرمایہ کاری کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تمام پابندیوں کے باوجود انڈیا اور چین کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں کمی نہیں آئی۔

پچھلے کچھ عرصے سے انڈیا کے کئی صنعتکار اور خود حکومت کی کئی وزارتیں حکومت سے کہتی آئی ہیں کہ چینی اشیا اور ماہرین کی آمد پر قدغنوں سے اںڈیا کے مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اس اہم پیش رفت کے بعد انڈیا میں متعدد حلقوں کا کہنا ہے کہ روس میں جاری برکس اجلاس کے دوران ولادیمر پوتن چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان مذاکرات کروانے کی کوشش کریں گے۔ یاد رہے کہ روس انڈیا کا ایک قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ جنگی طیاروں، توپوں، میزائلوں اور بحری جنگی جہازوں سے لے کر جوہری آبدوزوں اور جوہری ری ایکٹروں کی تعمیر اور سپلائی کے معاملے میں روس انڈیا کا ایک معتبر دوست رہا ہے۔

انڈیا اور چین کے درمیان وادی گلوان پر جھڑپ کیوں ہوئی؟پاکستان سمیت دنیا بھر میں چین کے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہری نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟چین سرحدی تنازعات کے باوجود امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کیسے بنا؟امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کا نیا محاذ: چینی الیکٹرک گاڑیوں پر 100 فیصد ٹیکس کیوں لگا؟

پیر کو چین سے سرحدی سمجھوتے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا ’روس ہمارا ایک قابل اعتبار دوست ملک ہے۔ بڑے ملکوں میں سے روس ہی واحد ایسا ملک ہے جس نے انڈیا کے مفاد کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔‘

موجودہ عالمی منظر نامے میں ایک ’اچھا کاؤنٹر پوائنٹ‘Getty Imagesبرکس اجلاس سے قبل انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ملاقات ہوئی ہے

سفارتی امور کی تجزیہ کار نیروپما سبھرامنین نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور کینیڈا نے انڈیا کو ’بیڈ بوائے‘ قرار دے رکھا ہے، پوتن اور صدر شی کے ساتھ مودی کی یہ ملاقات ایک اچھا کاؤنٹر پوائنٹ ہو گا۔ سفارتی نکتۂ نظر سے مودی کے لیے برکس کی تصویر ایک اچھا آپٹکس ہو گا۔‘

چین سے ہونے والے معاہدے کے بارے میں سبھرامنین کہتی ہیں ’دونوں ممالک چاہ رہے تھے کہ کشیدگی کم ہو اور تجارتی تعلقات معمول پر آئیں۔ اس معاہدے سے تعلقات معمول پر لانے میں مدد ملے گی تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازع حل ہو گیا ہے۔ وہ سارے تنازعات اپنی جگہ قائم ہیں۔ یہ صرف مشرقی لداخ میں 2020 میں وادی گلوان کے ٹکراؤ کے بعد اس خطے میں گشت اور فوجیوں کی تعیناتی کے حوالے سے جو نئے مسئلے پیدا ہوئے تھے ان کے بارے میں ہے۔‘

سبھرا کا مزید کہنا تھا کہ ’سوال یہ بھی ہے کہ انڈیا نے اس معاہدے کے بدلے میں چین کو کیا دیا ہے۔ یہ باتیں تب ہی واضح ہوں گی جب اس معاہدے کی تفصیلات دونوں جانب سے جاری کی جائیں گی۔‘

دفاعی تجزیہ کار اور ’فورس‘ جریدے کے مدیر پروین ساہنی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ چین پیچھے نہیں ہٹا ہے مگر یہ معاہدہ اس لحاظ سے مثبت ہے کہ اب چین اچانک انڈیا کے خطے میں داخل نہیں ہو گا۔ پہلے دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں اب ذرا پیچھے ہٹ گئی ہیں اور بفر زون بنا دیے گئے ہیں۔ ڈیپسانگ اور ڈیمچوک میں چین نے کنسیشن (رعایت) دی ہے۔ وہاں دونوں فوجیں دو، دو کلومیٹر پیچھے جائیں گی اور درمیان بفر زون ہو گا جبکہ ایک دوسرے کو پیشگی اطلاع دے کر گشت کیا جا سکے گا۔‘

دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ گلوان کے ٹکراؤ کے بعد انڈیا اور امریکہ میں نزدیکیاں بڑھی تھیں جس کے نتیجے میں چین کے اثر و رسوخ اور خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے انڈیا نے امریکہ ،آسٹریلیا اور چاپان کے گروپ ’کواڈ‘ میں بھی شمولیت اختیار کی تھی تاہم اب انڈیا کے سرکاری حلقوں میں یہ احساس اب بڑھ رہا ہے کہ انڈیا کو بین الاقوامی معاملات میں اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر مؤقف اپنانا چاہیے۔

Getty Images

روس کے معاملے میں امریکہ اور یورپی ممالک انڈیا سے پہلے ہی نالاں ہیں اور اگر اب تازہ ترین سرحدی معاہدے کے بعد چین سے بھی انڈیا کے تعلقات معمول پر آ گئے تو یہ امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے لیے بہت بڑی چوٹ ثابت ہو گی۔

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چند ماہ قبل ایک یورپی ٹی وی چینل پر ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’انڈیا اب وہی موقف اختیار کرے گا جو اس کے عوام کے مفاد میں ہو گا۔‘

آئندہ چند دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے سرحدی معاہدے کی تفصیلات سامنے آ جائیں گی اور یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ اس کے نتیجے میں انڈیا اور چین کے تعلقات خاص طور سے تجارتی رشتے کس حد تک اور کتنی جلدی بحال ہوتے ہیں۔

’اب کوئی جنگ دور نہیں‘: مودی کے دورۂ روس پر امریکہ کے اس پیغام کا کیا مطلب ہے؟سیٹلائیٹ سے نظر آنے والے دو سُرمئی خاکے اور امریکہ کی پریشانی: کیا چین کمبوڈیا میں مستقل فوجی اڈہ بنا رہا ہے؟وہ ’معاشی معجزہ‘ جس نے چین کو غربت کی دلدل سے نکال کر عالمی طاقت بنا دیا’معمول‘ کی مشق یا ’امریکہ کو پیغام‘: چار دہائیوں بعد بین الاقوامی سمندری حدود میں چین کا میزائل تجربہ غیرمعمولی کیوں ہے؟انڈیا کے اُن پڑوسی ممالک سے تعلقات کیوں بگڑ رہے ہیں جنھیں ماضی میں اس کا حلیف سمجھا جاتا تھا؟چینی معیشت اور پانچ سوال: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More