داؤد ابراہیم اور چھوٹا راجن کے درمیان دوستی سے شروع ہونے والی کہانی جس کا انجام ایک دوسرے پر قاتلانہ حملوں پر ہوا

بی بی سی اردو  |  Oct 21, 2024

یہ سنہ 2004 کی بات ہے جب چھوٹا راجن گینگ کے ایک اہم کارندے وکی ملہوترا نے انڈیا کی وسطیٰ ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور سے تعلق رکھنے والے شراب کے ایک تاجر کو بنکاک سے فون کیا اور اُن سے چار کروڑ روپے کا بھتہ طلب کیا۔

تاجر کو دھمکی دی گئی کہ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو انھیں اغوا کر لیا جائے گا جبکہ دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ تاجر نے فوری طور پر اندور پولیس کو اِس کی اطلاع دی۔ اندور پولیس نے دھکی دینے والے شخص کے فون نمبر کو ممبئی کرائم برانچ کے ساتھ شیئر کیا، جہاں اِس نمبر کی نگرانی کی جانے لگی۔

جب وکی ملہوترا سنہ 2005 میں انڈیا آئے تو ممبئی کے ایئرپورٹ پر اُترتے ہی انھوں نے وہ سِم دوبارہ استعمال کی جس سے تاجر کو ایک سال پہلے دھمکی دی گئی تھی اور بھتے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ممبئی پولیس چوکس ہو گئی اور جب وکی اگلی فلائٹ سے دہلی پہنچے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ چونکہ اُن کے خلاف تاجر کو دھمکی دینے کا مقدمہ اندور میں درج کیا گیا تھا اس لیے انھیں پوچھ گچھ کے لیے اندور لایا گیا۔

اس واقعے کی تمام تر تفصیلات مدھیہ پردیش کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے شیلندر سریواستو کی کتاب ’شیکل دی سٹارم‘ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔

وکی ملہوترا کا نام شاہ رخ خان کے کردار کے نام پر رکھا گیا

شیلیندر سریواستو کہتے ہیں کہ ’میں نے وکی کے ساتھ کوئی تھرڈ ڈگری طریقے کا استعمال نہیں کیا (یعنی دورانِ تفتیش اُن پر تشدد نہیں کیا گیا)۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کريں گے؟ انھوں نے کہا کہ وہ سبزی خور ہیں اور انھیں اڈلی پسند ہے۔ میں نے شراب کی پیشکش بھی کی لیکن اُس نے کہا کہ وہ شراب نہیں پیتے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے گھر والوں سے ملنا پسند کریں گے؟ جب اُس نے ہاں میں جواب دیا تو میں نے اُن کی اہلیہ اور بیٹے کو اُن سے ملنے کے لیے اندور بلایا۔‘

شیلیندر لکھتے ہیں کہ ’ایک دن میں وکی کے ساتھ صوفے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا جب وہ اچانک وہ جذباتی ہو گئے اور میرے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگے۔ اُس کے بعد انھوں نے اپنی مجرمانہ زندگی کی پرتوں اور اُن تمام کارروائیوں کی تفصیلات بتانا شروع کر دیں جن میں وہ شریک رہے تھے۔‘

وکی کا اصل نام وجے کمار یادو تھا۔ وہ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے رہائشی تھے۔ بچپن میں وہ چھوٹے موٹے جرائم کرتے تھے اور بعدازاں وہ ممبئی آ گئے۔

شیلیندر سریواستو کا کہنا ہے کہ ’وکی نے مجھے بتایا تھا کہ ایک بار ممبئی میں جیولری کی دکان سے ہیرے چرانے کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شاہ رخ خان کی فلم ’بازیگر‘ دیکھنے گئے جس میں شاہ رخ کے کردار کا نام وکی ملہوترا تھا۔‘

’پھر اُن کے ساتھیوں نے اُن کا نام وجے کمار یادیو سے بدل کر وکی ملہوترا رکھ دیا۔ انڈر ورلڈ میں داخل ہونے کے بعد اُن کی ملاقات چھوٹا راجن سے ہوئی، جو ’نانا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ آہستہ آہستہ وہ اُن کے دستِ راست بن گئے۔‘

چھوٹا راجن داؤد گینگ میں شامل

چھوٹا راجن کا اصل نام راجیندر نکھلجے تھا۔ ابتدا میں وہ سنیما کے ٹکٹ بلیک کیا کرتا تھا اور جب ایک بار پولیس نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی تو اُنھوں نے اُن کی لاٹھیاں چھین لیں اور انھیں مارا پیٹا۔

چھوٹا راجن سنہ 1980 میں بڑا راجن گینگ کے رُکن بنے۔ جب عبدل کنجو نے بڑا راجن کا قتل کر دیا تو راجیندر نکھلجے (چھوٹے راجن) نے اعلان کیا کہ بدلہ لیا جائے گا۔ کنجو کو مارنے کی اس کی تمام ابتدائی کوششیں ناکام ہو گئیں لیکن اِن تمام تر کارروائیوں نے داؤد ابراہیم کی توجہ چھوٹا راجن کی جانب مبذول کروا دی۔

ایس حسین زیدی اپنی کتاب ’ڈونگری ٹو دبئی سکس ڈیکڈز آف دی ممبئی مافیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’داؤد کے گینگ میں شامل ہونے کے بعد انھوں نے ایک کرکٹ میچ کے دوران کنجو کو قتل کیا۔ کنجو ایک میچ کھیل رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سفید پینٹ اور شرٹ پہنے نامعلوم افراد اس کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا انھوں نے اس پر حملہ کر دیا۔‘

داؤد گینگ کے پرانے اُرکان کا چھوٹا راجن سے حسد

چھوٹا راجن نہ صرف آہستہ آہستہ داؤد ابراہیم کے قریبی افراد میں شامل ہو گیا بلکہ گینگ کا دماغ اور طاقت بھی بن گیا اور داؤد اس پر بہت بھروسہ کرنے لگے۔

اُس وقت ’ڈی کمپنی‘ (یعنی داؤد کمپنی) میں تقریباً پانچ ہزار افراد یا کارندے کام کرتے تھے۔ چھوٹا راجن کی وجہ سے سادھو شیٹی، موہن کوٹیان، گرو ساٹم، روہت ورما اور بھرت نیپالی جیسے لوگ بھی اُن کے گینگ میں شامل ہوئے۔ لیکن آہستہ آہستہ داؤد گینگ کے پرانے لوگ راجن سے حسد کرنے لگے۔

شعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑاابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلا40 سال پہلے بمبئی کے مِل مزدوروں کے بچے جرائم کی دنیا کے بادشاہ کیسے بنے؟کھجی گراؤنڈ: کھیل کا وہ میدان جہاں کبھی موت مقبول ترین کھیل تھی

حسین زیدی لکھتے ہیں کہ ’شرد شیٹی، چھوٹا شکیل اور سنیل ساونت کو چھوٹا راجن پسند نہیں تھا۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ راجن کی اجازت کے بغیر وہ ممبئی میں نہ تو کوئی قتل کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروباری سودا۔ ایک دن شراب کی پارٹی میں شرد شیٹی نے داؤد سے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب چھوٹا راجن بغاوت کر دے گا۔ داؤد کے قریبی حلقوں کی ان آرا کا اثر آہستہ آہستہ داؤد پر ہونے لگا اور چھوٹا راجن کو اہم فیصلوں سے دور رکھا جانے لگا۔‘

چھوٹا راجن اور داؤد میں علیحدگی

سنہ 1992 میں ممبئی دھماکوں نے داؤد اور چھوٹا راجن کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا۔ چھوٹا راجن اس بات پر حیران تھے کہ داؤد نے انھیں ممبئی حملوں سے قبل ہونے والی میٹنگوں سے مکمل طور پر دور رکھا تھا جب کہ چھوٹا شکیل ان میٹنگز میں باقاعدگی سے شرکت کر رہے تھے۔

سنہ 1993-94 تک دونوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے تھے۔ اسی سال داؤد نے کروز لائنر پر اپنے قریبی لوگوں کو پارٹی دی۔

حسین زیدی لکھتے ہیں: ’پارٹی میں جانے سے پہلے راجن کو ایک فون آیا جسے سُن کر اُن کا چہرہ سفید ہو گیا۔ فون کرنے والے نے بتایا کہ اس پارٹی میں انھیں مارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چھوٹا راجن نے ابوظہبی میں انڈین سفارتخانے سے رابطہ کیا اور دبئی سے باہر نکلنے میں اُن کی مدد طلب کی۔ بدلے میں انھوں نے داؤد کے بارے میں تمام معلومات دینے کی پیشکش کی۔‘

’آخر کار، انڈین سفارتخانے نے چھوٹا راجن کے دبئی سے فرار ہونے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند گھنٹوں کے اندر، انھیں دوسرے نام سے کھٹمنڈو اور وہاں سے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور بھجوا دیا گیا۔ اُس کے بعد سے چھوٹا راجن کا ’صرف ایک مقصد تھا اور وہ مقصد داؤد ابراہیم اور اُن کی کاروباری سلطنت کو ختم کرنا تھا۔‘

چھوٹا راجن پر داؤد کے حواریوں کا حملہ

اس کے بعد چھوٹا راجن نے بنکاک میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران داؤد اور اُن کے ساتھی چھوٹا راجن کی رہائش کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ایک دن چھوٹا شکیل کے کہنے پر منا جھینگڑا اور اُن کے ساتھیوں نے چھوٹا راجن پر اُن کے بنکاک والے اپارٹمنٹ میں حملہ کر دیا۔ انھوں نے پہلے چھوٹا راجن کے نگراں روہت ورما کو گولی ماری اور پھر اُن کی اہلیہ سنگیتا، بیٹی اور ملازمہ کو زخمی کر دیا۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’چھوٹا راجن اپنے فلیٹ کے بیڈ روم میں چھپا ہوا تھا جسے اس نے اندر سے بند کر دیا، انھوں نے بیڈ روم کے بند دروازے پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ چھوٹا راجن کھڑکی سے نیچے کود گیا۔ وکی ملہوترا کو جیسے ہی اس کا علم ہوا اس نے پولیس کو بلایا۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو انھوں نے اسے فلیٹ کے پیچھے ایک درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا پایا۔ وہاں سے اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں وکی سائے کی طرح اس کے ساتھ رہا۔‘

برتھ ڈے کیک کے بہانے گھر میں داخل

حسین زیدی نے اپنی کتاب میں اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کی ہے۔

زیدی لکھتے ہیں: ’کالے سوٹ پہنے چار تھائی باشندے چھوٹا راجن کے گھر کے گیٹ پر پہنچے۔ وہ اپنے ساتھ سالگرہ کا ایک بڑا کیک لائے تھے۔ انھوں نے گارڈز سے کہا آج راجن کے ساتھی مائیکل ڈی سوزا کی بیٹی کی سالگرہ ہے۔ اسی لیے ان کے ہندوستانی دوستوں نے انھیں یہ کیک بھیجا ہے تاکہ انھیں سرپرائز دیا جائے۔ گارڈز سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ انھوں نے 200 ڈالر کا نوٹ گارڈ کے حوالے کر دیا۔ گارڈ نے گیٹ کھولا اور چاروں لوگ اپنی گاڑی گھر کے اندر لے آئے۔‘

’جب گارڈز گیٹ بند کرنے ہی والا تھا کہ اچانک چار انڈین نمودار ہوئے اور اُس پر جھپٹ پڑے۔ انھوں نے اسے باندھ دیا۔ داؤد کے کارندوں نے راجن اور ورما کے پہلی منزل کے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔‘

زیدی مزید لکھتے ہیں کہ ’نگران ورما دروازے پر ان لوگوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ راجن کو خبردار کر پاتے، انھوں نے اسے مار ڈالا۔ راجن کو کہیں نہ ملنے پر انھوں نے بیڈ روم کے بند دروازے پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی دروازے کو چھید کر چھوٹا راجن کے پیٹ میں لگی۔ خون آلود راجن کھڑکی سے نیچے کود گیا اور گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ سارا واقعہ پانچ منٹ میں ختم ہو گیا۔‘

Getty Imagesچھوٹا راجن قاتلانہ حملے کے بعد تھائی لینڈ کے ہسپتال میں زیر علاج رہےچھوٹا راجن ہسپتال سے فرار

چھوٹا راجن کو وجے دمن کے فرضی نام سے ہسپتال میں رکھا گیا تھا لیکن پھر بھی یہ افواہیں پھیلنے لگیں کہ وہ بنکاک میں مارا گیا ہے۔

جلد ہی انڈین ایجنسیوں کو اطلاع ملی کہ چھوٹا راجن بنکاک میں زیر علاج ہیں۔ انھوں نے راجن کی حوالگی کی کوشش شروع کر دی اور سی بی آئی کی ایک ٹیم تھائی لینڈ جانے کی تیاری کرنے لگی۔

اسی دوران وکی ملہوترا نے وہاں موجود عملے کو سمجھانا شروع کر دیا کہ وہ چھوٹا راجن کو ہسپتال سے نکال لیں۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’اِسی دوران، وکی انڈیا آئے اور یہاں سے چھوٹا راجن کا مجسمہ بنا کر ایک بڑے سوٹ کیس میں بنکاک لے گئے۔ وکی نے مجھے بتایا کہ وہ اس دوران دو بار انڈیا آئے۔ پہلی بار وہ راجن کے مجسمے کے اوپری حصے کے ساتھ بنکاک گئے اور دوسری بار نیچے والے حصے کے ساتھ بنکاک پہنچے۔ انھوں نے ایک بڑی رسی بھی خریدی۔ پھر مجسمے کے دونوں حصوں کو جوڑا اور اسے چادر سے ڈھانپ کر چھوٹا راجن کے بستر پر لٹا دیا۔ راجن رسی کی مدد سے کھڑکی سے نیچے آئے۔ اور سی بی آئی کی ٹیم کو خالی ہاتھ ہندوستان لوٹنا پڑا۔‘

داؤد پر قبرستان میں حملہ کرنے کا منصوبہ

چھوٹا راجن نے بھی داؤد کے خلاف جوابی کارروائی کا منصوبہ بنایا۔ داؤد کی بیٹی کی وفات ہوئی تو اُس کے جنازے کے دوران داؤد کو مارنے کی کوشش کی گئی۔ اس مشن کے لیے وکی نیپالی پاسپورٹ پر کھٹمنڈو سے کراچی پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ داؤد کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ کراچی منتقل ہو گئے تھے تاہم پاکستانی حکام ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں: ’وکی نے کراچی میں ہی ایک اسلحے کے اسمگلر سے دو AK-47 رائفلیں خریدیں۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جب داؤد اپنی بیٹی کو دفنانے کے لیے قبرستان آئیں گے تو ان پر حملہ کیا جائے گا۔ لیکن اسلحہ سمگلر کو پکڑ لیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس نے دو اے کے-47 رائفلیں دو نیپالی لڑکوں کو فروخت کی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’اس کے نتیجے میں، داؤد چوکنا ہو گئے اور قبرستان نہیں گئے، جب وکی اور ان کے ساتھی قبرستان پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ پورے علاقے کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور داؤد کا کوئی سراغ نہیں۔ انھوں نے اپنی رائفل وہیں پھینک دیں۔‘

دبئی میں داؤد پر حملے کی ایک اور کوشش

داؤد کو مارنے کی اگلی کوشش کے بارے میں شیلیندر سریواستو کہتے ہیں کہ ’اس بار وکی اور اس کا ساتھی بنگلہ دیشی پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے نیپال پہنچے۔ وہاں سے دونوں کراچی پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے دو اے کے-47 رائفلیں اور دو پستول خریدے۔ انھوں نے دو ایل ای ڈی ٹی وی سیٹ بھی خریدے اور ان سیٹوں کے اندر اپنا اسلحہ چھپا دیا۔ وہاں وکی نے 60 کروڑ روپے کی ایک کشتی خریدی اور سمندر کے راستے دبئی روانہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ٹی وی سیٹ بھی تھے جن میں رائفلیں اور پستول رکھے گئے تھے۔ انھوں نے انڈیا کلب کے سامنے 56 منزلہ عمارت میں ایک فلیٹ کرائے پر لیا۔‘

وکی اور اس کے ساتھی داؤد کے انتظار میں اس فلیٹ میں رہنے لگے۔ لیکن داؤد کئی مہینوں تک انڈیا کلب نہیں آئے۔ اسی دوران دبئی پولیس کو وکی اور اس کے ساتھی پر شک ہو گیا۔ انھوں نے فلیٹ کی تلاشی لی لیکن کوئی مجرمانہ سامان نہیں ملا۔

سریواستو لکھتے ہیں: ’اس کے بعد وکی کو احساس ہوا کہ وہ دبئی پولیس اور داؤد کے ریڈار میں آ گئے ہیں۔ ایک دن انھوں نے ٹی وی سیٹس سے ہتھیار نکالے اور انڈیا کلب پر حملہ کر دیا۔ وہاں انھوں نے 19 جنوری 2003 کو داؤد کے ساتھی شرد شیٹی، جسے ’ڈینی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، مار ڈالا۔‘

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’وکی نے بتایا کہ داؤد نے اب تک کم از کم 13 عرفی نام استعمال کیے ہیں۔ اُن کے پاس کئی ممالک کے پاسپورٹ ہیں، ان کے گھروالوں میں میں اُن کی اہلیہ ماہ جبین شیخ، بیٹا معین نواز اور دو بیٹیاں ماہ رخ اور مہرین ہیں۔

’ان کی تیسری بیٹی ماریہ کا انتقال 1998 میں ہوا۔ ماہ رخ کی شادی کرکٹر جاوید میانداد کے بیٹے جنید سے ہوئی جبکہ ان کی دوسری بیٹی مہرین کی شادی پاکستانی نژاد امریکی شخص ایوب سے ہوئی۔‘

چھوٹا راجن اور تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا

بعدازاں انٹر پول نے چھوٹا راجن کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا تھا۔ سنہ 2015 میں انھیں انڈونیشیا کی پولیس نے بالی میں پکڑا تھا بعدازاں انھیں انڈیا کے حوالے کر دیا گیا جہاں وہ تاحال تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

اُن پر 70 جرائم کے الزامات تھے اور انھیں سنہ 2018 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سنہ 2024 میں انھیں ایک اور کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

شیلیندر سریواستو لکھتے ہیں کہ ’2005 میں وہ داؤد ابراہیم کو قتل کرنے کی ایک اور کوشش میں مصروف تھے لیکن انھیں اور ان کے ساتھی فرید تناشا کو دہلی میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری انٹیلیجنس بیورو اور ممبئی کرائم برانچ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے ہوئی۔‘

اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہونے والی میرا بورونکر نے اپنی سوانح عمری ’میڈم کمشنر‘ میں لکھا کہ ’جب وکی کو گرفتار کیا گیا تو انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ اُن کے ساتھ موجود تھے۔ انھوں نے وکی کو آزاد کرانے کی پوری کوشش کی لیکن میں نے اسے چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا۔‘

سریواستو کہتے ہیں کہ ’وکی کو گرفتار کر کے دہلی سے ممبئی لایا گیا تھا۔ سنہ 2010 میں جب اسے ضمانت پر رہا کیا گیا تو وہ فرار ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت جنوبی افریقہ میں ہے اور چھوٹا راجن کے کاروبار کو دیکھ رہا ہے جس میں ہیروں کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔‘

شعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑاابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلاکھجی گراؤنڈ: کھیل کا وہ میدان جہاں کبھی موت مقبول ترین کھیل تھی40 سال پہلے بمبئی کے مِل مزدوروں کے بچے جرائم کی دنیا کے بادشاہ کیسے بنے؟’ہتھوڑا گروپ‘: کراچی میں دہشت پھیلانے والا گروہ کیا تھا اور کہاں گیا؟گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟جاوید اقبال: ’100 بچوں‘ کا سفاک قاتل کیا شہرت کا بھوکا ذہنی مریض تھا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More