والد پہلے ریلوے اور پھر کچھ عرصہ فوج میں رہے۔ وہ آٹھ بہن بھائی تھے، گھر میں اکثر فاقوں کی نوبت رہتی۔ گھر کا کوئی بچہ بیمار ہوتا تو گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کیا جاتا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔وہ اور اس کا ایک بھائی ہی بقا کی اس جنگ میں فتح یاب ہوئے۔ اُس کے باقی بہن بھائی مناسب علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث بچپن میں ہی چل بسے۔ ان دنوں ہی والد کو سیمنٹ کی چوری کے الزام میں جیل ہو گئی تو بے گھر ہونا اس خاندان کا مقدر ٹھہرا۔ ان مشکل حالات میں اُس نے اور اُس کے بڑے بھائی نے گھر کی کفالت کی ذمہ داری اُٹھائی۔بھائی کو ریلوے سٹیشن پر قلی کا کام مل گیا جب کہ وہ قریب ہی ریلوے کی پٹڑیوں سے کوئلہ جمع کرتا تاکہ درد کی اس گھڑی میں اپنوں کے لیے امید کی کرن بنا رہے۔اُس کی عمر اُس وقت صرف سات برس تھی جب اسے ایک ڈھابے پر برتن دھونے کا کام مل گیا اور یہ مشکل وقت بھی کسی نہ کسی طرح گزر ہی گیا۔یہ بالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار اوم پرکاش پوری یا اوم پوری کی زیست کا بیاں ہے جنہوں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو پاٹتے ہوئے اپنے خوابوں کو تعبیر ہی نہیں دی بلکہ ہندی سنیما کی تاریخ کے بہترین اداکاروں کی صف میں شامل ہو گئے۔انڈین ٹیلی ویژن چینل نیوز 18 کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق اداکار نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ’اس حقیقت سے قطع نظر کہ میرے کیا حالات تھے، میں 600 روپے ماہوار کمانے سے کچھ بہتر کر سکتا تھا۔‘جواں جذبوں کے حامل اداکار نے جب یہ ٹھان لی کہ انہوں نے اداکاری کرنی ہے تو دہلی کا رُخ کیا اور نیشنل سکول آف ڈراما (این ایس ڈی) میں تین سال کے کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہ سفر مگر آسان نہیں ہونے والے تھا۔ اُن کے چہرے کے خدوحال اداکار کے لیے موزوں نہیں تھے مگر یہ جانتے تھے کہ اداکاری ہی کرنی ہے تو ان کا یہ جنوں ان کے لیے راستے ہموار کرتا چلا گیا۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق نصیرالدین شاہ کی این ایس ڈی میں ہی اُن کے قریبی دوست اور آنجہانی اداکار اوم پوری سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اداکار کو اپنی شخصیت کے برعکس بہت زیادہ ’خام، بے چین، شرمیلا، اپنی ذات میں مقید رہنے والا اور عدم تحفظ کا شکار پایا۔ وہ (نصیرالدین شاہ) علیگڑھ یونیورسٹی میں سٹیج کے ہیرو تھے اور ان کا این ایس ڈی تک کا سفر اعتماد سے بھرپور تھا۔ لیکن جب دونوں نے این ایس ڈی سے تعلیم مکمل کی تو نصیرالدین شاہ پر ادراک ہوا کہ ان تین برسوں میں اوم پوری میں کس قدر بہتری آئی تھی۔‘نصیرالدین شاہ کی این ایس ڈی میں ہی اُن کے قریبی دوست اور آنجہانی اداکار اوم پوری سے پہلی بار ملاقات ہوئی (فائل فوٹو: ریڈِف)یہ عظیم اداکار آج ہی کے روز 18 اکتوبر 1950 کو ہریانہ کے شہر انبالہ کے ایک ہندو پنجابی خاندان میں پیدا ہوا۔ ان کی تاریخِ پیدائش کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کی پیدائش کا سرکاری طور پر اندراج نہیں کروایا گیا تھا تو اس لیے ان کے والدین ان کی تاریخِ پیدائش کے حوالے سے پریقین نہیں تھے۔ ان کی والدہ سے ان کو صرف یہ معلوم ہو سکا کہ وہ سال 1950 میں ہندو تہوار دسہرہ کے دو روز بعد پیدا ہوئے تھے۔ ان کے ماموں نے جب ان کا داخلہ سکول میں کروایا تو سکول کے ریکارڈ میں اُن کی تاریخِ پیدائش 9 مارچ 1950 لکھی مگر اوم پوری نے نوجوانی میں اپنی تاریخ جاننے کے لیے سب سے پہلے تو 1950 میں دسہرہ کے تہوار کی تاریخ کے بارے میں معلوم کیا جس کے بعد انہوں نے اپنی تاریخِ پیدائش سرکاری طور پر 18 اکتوبر کر لی۔اوم پوری مارچ 2014 میں پنجابی کھیل ’تیری امریتا‘ پرفارم کرنے کے لیے اپنی اہلیہ نندیتا پوری (جن سے بعدازاں ان کی علیحدگی ہو گئی تھی) اور اداکارہ دیویا دتا کے ساتھ لاہور آئے تو مصنف کو ان سے تفصیلی انٹرویو کرنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں جب چھ برس کا ہوا تو مجھے پٹیالہ کے قریب گاؤں سنیور میں اپنے ماماجی کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا گیا جہاں پر میں نے آٹھویں جماعت تک مقامی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران میرے پِتا جی اور ماما جی میں جھگڑا ہو گیا تو ماما جی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ لیکن میں نے والد صاحب کو انکار کر دیا کہ میَں واپس لدھیانہ نہیں جائوں گا۔ ان دنوں والد کا تبادلہ لدھیانہ ہو چکا تھا۔‘اوم پوری اُن دنوں ہی ’پنجاب کلا منچ‘ نامی تھیٹر گروپ سے وابستہ ہو گئے جس کے کرتا دھرتا ہرپال ٹوانہ، ان کی اہلیہ نینا ٹوانہ اور کپل تھے اور یہ سب ہی نیشنل سکول آف ڈراما سے فارغ التحصل تھے۔اوم پوری نے مصنف سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے تب ہی اس ادارے کے بارے میں معلوم ہوا۔ چنانچہ میں نے نیشنل سکول آف ڈراما میں داخلہ لے لیا۔‘نیشنل سکول آف ڈراما میں اوم پوری کے اساتذہ میں سے ایک ابراہیم القاضی بھی تھے جو ہندوستان میں تھیٹر کی دیومالائی شخصیات میں سے ایک ہیں۔سال 1976 میں اوم پوری کو بچوں کی فلم ’چور چور چھپ جا‘ کے ذریعے اپنی فنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا (فائل فوٹو: ریڈِف)آن لائن پلیٹ فارم ’وومن داستان گوز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ابراہیم (القاضی) اپنے اداکاروں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ کلاسیکی سنسکرت تھیٹر اور مغربی موسیقی میں تربیت حاصل کریں، وہ جدید انڈین کلاسیکی تھیٹر کے علاوہ عظیم یورپی تھیٹر میں بھی درک حاصل کریں۔‘نیشنل سکول آف ڈراما سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دوست اور ساتھی اداکار نصیرالدین شاہ کے کہنے پر اوم پوری نے پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ (ایف ٹی آئی آئی) کا رُخ کیا۔نصیرالدین شاہ نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان کے پاس کوئی مناسب شرٹ نہیں تھی جو وہ زیبِ تن کر کے ایف ٹی آئی آئی جاتے۔ وہ ایف ٹی آئی آئی میں اپنی تعلیم سے مایوس ہو گئے تھے اور ان کے لیے ٹیوشن فیس ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا، وہ جب مشہور ہو گئے تو ان پر ادارے کا 260 روپے اُدھار واجب الادا تھا جو انہوں نے اس لیے ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ ادارے کا مقروض ہونے میں بھی ایک الگ ہی طرح کا ’مزاح کن‘ لطف ہے۔‘سال 1976 میں اوم پوری کو بچوں کی فلم ’چور چور چھپ جا‘ کے ذریعے اپنی فنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا جس کے بعد اوم پوری کے لیے فلم نگری کے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔ انہوں نے اسی برس مراٹھی فلم ’گھاشی رام کوتوال‘کے ذریعے ڈبیو کیا جو عظیم ڈراما نگار وجے ٹندولکر کے مراٹھی ڈرامے پر مبنی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار کے ہری ہرن اور منی کول تھے جنہوں نے ایف ٹی آئی آئی کے 16 فارغ التحصیل طالب علموں کے ساتھ مل کر یہ فلم بنائی تھی۔ منی کول بالی ووڈ کے رجحان ساز ہدایت کار تھے اور ان کی فلمیں ’دووِدھا‘ اور ’اُس کی روٹی‘ کا شمار بالی ووڈ کی کلاسیکی فلموں میں کیا جاتا ہے۔یہ وہ عہد تھا جب امریش پوری، نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی اور سمیتا پٹیل کی طرح کے اداکار متوازی سنیما کی روایت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ اوم پوری بھی جلد ہی اس فہرست میں شامل ہو گئے اور انہوں نے اس دور میں ’بھومیکا‘، ’اروند ڈیسائی کی عجیب داستاں‘ اور ’البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘ سمیت متعدد فلموں میں کام کیا مگر ان فلموں میں ان کے کردار ثانوی نوعیت کے تھے۔سال 1980 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آکروش‘ نے اداکار کو نئی پہچان دی۔ یہ بے مثل ہدایت کار گووند نہلانی کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی جو اس سے قبل سنیما ٹو گرافر کے طور پر اپنی منفرد پہچان بنا چکے تھے۔ اس فلم کے بعد اوم پوری نے گووند نہلانی کی کئی فلموں میں اہم کردار ادا کیے جن پر بات کرنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ اس فلم کو ناصرف اس سال کی بہترین ہندی فلم کا نیشنل ایوارڈ ملا بلکہ اس فلم نے پانچ فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کیے اور اوم پوری کو بہترین معاون اداکار کا پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔سال 1980 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آکروش‘ نے اوم پوری کو نئی پہچان دی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)اوم پوری کی اسی برس پنجابی فلم ’چن پردیسی‘ ریلیز ہوئی۔ یہ کئی حوالوں سے ایک یادگار فلم ہے کیوں کہ یہ اوم پوری ہی نہیں بلکہ امریش پوری اور کلبھوشن کھربندا کی بھی پہلی پنجابی فلم تھی۔ اس فلم کے لیے محمد رفیع نے دو گیت جب کہ ایک گیت آشا بھوسلے نے گایا تھا۔اوم پوری پنجابی فلم کے بعد لیجنڈ ہدایت کار کیتن مہتا کی گجراتی زبان کی فلم ’بھاونی بھوائی‘ میں بھی نظر آئے۔ اس فلم میں نصیرالدین اور سمیتا پٹیل نے بھی اہم کردار ادا کیے تھے۔سال 1982 میں اوم پوری رچرڈ ایٹن برو کی ہالی ووڈ فلم ’گاندھی‘ میں مختصر کردار میں نظر آئے۔ یہ اُن کا عالمی سنیما میں سفر کا آغاز تھا۔سال 1983 میں اوم پوری کی کئی یادگار فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ’جانے بھی دو یارو‘، ’آروہن‘، ’اردھ ستیہ‘ اور ’منڈی‘ شامل ہیں۔شیام بینیگل کے ساتھ فلم ’آروہن‘ میں اوم پوری نے بنگال کے ایک غریب کسان کا کردار ادا کیا۔ اس فلم پر ان کو بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔گووند نہلانی کی فلم ’اردھ ستیہ‘ کے لیے اوم پوری کا انتخاب غلط نہیں تھا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ سمیتا پٹیل بڑے پردے پر نظر آئیں۔ یہ پولیس سب انسپکٹر آننت کی کہانی ہے جو جرائم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سرگرم ہے مگر ہر بار شکست ہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اداکار نے اس فلم میں حقیقت کے قریب تر اداکاری کرتے ہوئے نفسیاتی کشمکش کا شکار ایک پولیس افسر کے جذبات کو یوں بڑے پردے پر پیش کیا کہ ان کا یہ کردار ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا۔ اس فلم کے لیے وہ ایک بار پھر بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔اداکار کی اس دور کی اہم فلموں میں ’پارٹی‘، ’Genesis‘ اور ’مرچ مسالہ‘ نمایاں ہیں۔ ’پارٹی‘ کے ہدایت کار گووند نہلانی تھے تو ’Genesis‘ ان چند ہندی فلموں میں سے ایک ہے جس کی ہدایت کاری انڈیا کے عظیم بنگالی ہدایت کار مرینل سین نے دی تھی۔ اُن کی بطور ہدایت دیگر دو ہندی فلموں میں ‘اک دن اچانک‘ اور ’کھنڈر‘ شامل ہیں۔ گووند نہلانی کی فلم ’اردھ ستیہ‘ میں اوم پوری کے ساتھ سمیتا پٹیل بڑے پردے پر نظر آئیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)فلم ’Genesis‘ میں اوم پوری کے ساتھ نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی نے اہم کردار دا کیے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد اگر اوم پوری اور نصیرالدین شاہ کی اداکاری کا موازنہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اوم پوری اپنے دوست سے کہیں بہتر اداکار تھے اور کردار میں یوں ڈھل جاتے تھے کہ ان کو کردار سے الگ کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ یہ ذکر کرنا بھی ازبس ضروری ہے کہ اوم پوری اور نصیرالدین شاہ 26 فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے۔ ہدایت کار کیتن مہتا کی ’مرچ مسالہ‘ بالی وڈ کی اتہاسک فلموں میں سے ایک ہے جس میں ابو میاں کا کردار اوم پوری نے ادا کیا تھا جو فیکٹری کے کارکنوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر کسی طور کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں۔ اس فلم میں وہ اگرچہ مرکزی کردار میں نظر نہیں آئے مگر ان کی اداکاری نے اپنی چھاپ ضرور چھوڑی۔اوم پوری بہت سی فلموں میں غیرروایتی کرداروں میں نظر آئے جیسا کہ ’آکروش‘ میں انہوں نے ایک ظلم کا شکار ہونے والے قبائلی کا کردار ادا کیا تو فلم ’ڈسکو ڈانسر‘ میں جمی کے منیجر کے روپ میں نظر آئے، ’اردھ ستیہ‘ میں پولیس انسپکٹر کا یادگار کردار ادا کیا تو ’ماچس‘ میں سکھ عسکریت پسند سناتن کے روپ میں دِکھے۔گزشتہ ہزاریے کی آخری دہائی میں متوازی سنیما کے بہت سے اداکاروں نے کمرشل سنیما کا رُخ کیا جن میں اوم پوری بھی شامل تھے۔ہدایت کار کیتن مہتا کی فلم ’مرچ مسالہ‘ میں ابو میاں کا کردار اوم پوری نے ادا کیا تھا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)انہوں نے اس بارے میں مصنف کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ آرٹ سنیما بننا بند ہو گیا۔ اب بھی اگر کوئی آرٹ فلم بنتی ہے تو ضرور کام کرتا ہوں۔ گووند نہلانی نے میرے اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم ’دیو‘ بنائی۔ اس وقت بھی کمرشل سنیما کر رہا تھا۔ بعدازاں نہلانی جی کی ٹیلی فلم ’تمس‘ اور اسی طرح متوازی سنیما کی ایک اور فلم ’دھوپ‘ میں کام کیا۔ حال ہی میں پرکاش جھا کی فلم ’چکراویو‘ میں اداکاری کی۔ آئندہ بھی جب کبھی موقع ملا، آرٹ فلموں میں کام کروں گا۔‘اوم پوری نے اگرچہ ہندی، پنجابی سمیت انڈیا کی دوسری علاقائی زبانوں کی فلموں میں بھی کام کیا مگر اُن کو عالمی سطح پر اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب انہوں نے سال 1997 میں برطانوی فلم ’The Son of Fanatic‘ میں کام کیا جس کے بعد مزید برطانوی فلموں میں اہم کرداروں میں نظر آئے جن میں ’ایسٹ اِز ایسٹ‘ اور ’دی پیرول آفیسر‘ شامل ہیں۔’ایسٹ اِز ایسٹ‘ ایک مزاحیہ ڈرامائی فلم تھی جس میں اوم پوری نے پہلی نسل کے پاکستانی برطانوی ظاہر جارج خان کا کردار ادا کیا تھا جو 1937 سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور انہوں نے پاکستان میں بھی شادی کر رکھی ہے۔ برطانیہ میں ان کی دوسری بیوی ایلا خان رومن کیتھولک ہیں اور ان کے سات بچے ہیں جس میں تہذیب کے اس تصادم کو دکھایا گیا ہے جس پر اکثر پردہ ڈال دیا ہے جیسا کہ اس فلم میں ہوا کہ جارج کے بچوں کی پرورش چوں کہ برطانیہ میں ہوئی ہے تو وہ برطانوی طرز زندگی سے دور نہیں ہونا چاہتے۔ اس فلم کو ناصرف ناقدین نے سراہا بلکہ یہ باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔اوم پوری ہالی وڈ میں بھی گہرا اثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اگرچہ ’گاندھی‘ میں مختصر کردار ادا کیا تھا مگر بعدازاں ’سٹی آف جوائے‘، ’وولف‘ اور ’دی گھوسٹ اینڈ دی ڈارک نیس‘ میں اہم کرداروں میں نظر آئے۔سال 2007 میں اوم پوری فلم ’چارلی ولسنز وار‘ میں نظر آئے جس میں انہوں نے سابق پاکستانی صدر ضیا الحق کا کردار ادا کیا تھا۔آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر ہدایت کار گووند نہلانی کی ٹیلی فلم ’تمس‘ کا ہو جائے جس میں اداکار نے حقیقت کے قریب تر پرفارمنس سے چمار نتھو کے کردار کو امر کر دیا۔ اس فلم کی کہانی راولپنڈی کے بھیشم ساہنی کے ناول سے مستعار لی گئی تھی۔ اوم پوری نے فلم ’چارلی ولسنز وار‘ میں سابق پاکستانی صدر ضیا الحق کا کردار ادا کیا تھا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)کہا جاتا ہے کہ گووند نہلانی یہ فلم پنجاب (پاکستان) میں شوٹ کرنا چاہتے تھے مگر دونوں ملکوں کے سیاسی حالات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔اوم پوری افیئرز سے تو دور رہے مگر محبت کے جذبے کو خود پر غالب آنے سے نہیں روک سکے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہر ایک کے جیون میں رومان کا خانہ موجود ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ میری زندگی میں بھی رہا لیکن میں چوں کہ بچپن میں شرمیلا تھا تو مجھے اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے میں 30 برس لگ گئے جس کے باعث کوئی افیئر نہیں ہوا۔ کوئی افیئر اگر ہوا بھی تو وہ خاموش محبت کی مانند تھا، لیکن اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ میری دونوں شادیاں لَوّ میرج تھیں۔‘اوم پوری کی پہلی شادی سیما کپور سے ہوئی جو چند ماہ ہی چل سکی۔ سیما کپور معروف بالی وڈ اداکار اور گلوکار انوکپور اور ہدایت کار رنجیت کپور کی بہن ہیں۔ سیما کے والد لاہور کے دیال سنگھ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔اداکار نے دوسری شادی اداکارہ نندیتا پوری سے کی جنہوں نے ان کی سوانح عمری بھی لکھی جس میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر موجود ہے جس سے جوڑے میں کشیدگی پیدا ہوئی تاہم اداکار کی موت سے کچھ عرصہ قبل دونوں میں اختلافات اس قدر بڑھے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔اوم پوری نے اگرچہ اپنے فلمی کیریئر کے دوران زیادہ تر سنجیدہ کردار ہی ادا کیے مگر انہوں نے ’چاچی 420‘، ’ہیرا پھری‘، ’چور مچائے شور‘، ’مالا مال ویکلی‘ سمیت کئی کامیڈی فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے بے ساختہ پن اور برجستگی سے فلم بینوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری۔اوم پوری پنجابی تھے، تو پنجابی سنیما سے دور رہنا ان کے لیے آسان نہیں تھا چنانچہ انہوں نے کچھ پنجابی آرٹ فلموں جیسا کہ ’باغی‘،‘چن پردیسی‘ اور ’لونگ دا لشکارا‘ میں کام کیا جو آج برسوں گزر جانے کے بعد بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔خیال رہے کہ اوم پوری نے پاکستانی فلم ’ایکٹر ان لا‘ میں اہم کردار ادا کیا تھا جو سال 2016 میں ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی ریلیز ہوئی تھی۔عالمی سنیما کے اس عظیم اداکار کی موت سے قبل وہ اس وقت تنازع کا شکار ہو گئے جب کشمیر کے اُڑی سیکٹر پر ایک فوجی کیمپ پر حملے میں انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کے انڈیا میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔چھ جنوری 2017 کو اس لیجنڈ اداکار اوم پوری کی اپنے گھر پر ہارٹ اٹیک سے موت ہوئی (فائل فوٹو: اے این آئی)اداکار نے اس حوالے سے ایک انڈین چینل پر ہونے والے مباحثے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کس نے ان سے کہا کہ فوج میں بھرتی ہوں‘ کس نے ان سے کہا کہ بندوق اُٹھائیں؟انہوں نے اور ایک اور سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان اسرائیل اور فلسطین بن جائیں اور صدیوں تک لڑتے رہیں۔‘انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ صرف ایک ملک کی تقسیم نہیں تھی، اس میں خاندان تقسیم ہو گئے تھے۔ ہمارے ملک میں 22 کروڑ مسلمان ہیں اور ان کی وہاں رشتے داریاں ہیں۔‘انہوں نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ تک کہہ ڈالا کہ ’مودی جی کے پاس جائیے اور ان (پاکستانی فنکاروں) کا ویزا منسوخ کروا دیجیے۔ 15-20 لوگوں کو خودکش بمبار کے طور پر تیار کیجیے اور بھیج دیجیے پاکستان۔‘اداکار کے ان بیانات کے بعد ناصرف ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے بمبئی کے اندھیری پولیس سٹیشن میں درخواست دی گئی بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اوم پوری کی پہلی شادی سیما کپور سے ہوئی جو چند ماہ ہی چل سکی (فائل فوٹو: کوئی موئی)اوم پوری پاکستانی فنکاروں کے انڈیا میں کام کرنے کی حمایت کرنے پر ’غدارِ وطن‘ قرار پائے۔ اور یوں سماجی تنہائی کا شکار ہو گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب چھ جنوری 2017 کو اس لیجنڈ اداکار کی اپنے گھر پر ہارٹ اٹیک سے موت ہوئی تو ان کے مداح اس خبر پر یقین کرنے پر تیار نہیں تھے، جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے سر پر چوٹ کا نشان تھا۔وہ اُن معدودے چند انڈین اداکاروں میں سے ایک ہیں جنہیں برطانوی فلم انڈسٹری کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دینے پر سال 2004 میں ‘آرڈر آف دی برٹش امپائر‘ (او بی ای) کے اعزاز سے نوازا گیا جب کہ اکادمی ایوارڈز کی 89 ویں تقریب میں عالمی سنیما کے لیے ان کی خدمات کو سراہا گیا۔اداکار نے دوسری شادی اداکارہ نندیتا پوری سے کی جنہوں نے ان کی سوانح عمری بھی لکھی (فائل فوٹو: فلم فیئر)اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بہرحال ضروری ہے کہ اوم پوری کے ہم عصر لیجنڈ اداکار امریش پوری کا اُن سے کوئی رشتہ ہے کیوں کہ اکثر دونوں اداکاروں کو بھائی قرار دے دیا جاتا ہے جو غلط ہے۔اوم پوری کے صاحب زادے ایشان پوری بزنس گریجویٹ ہیں مگر وہ اداکاری میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے والد اوم پوری کو اپنا اولین استاد مانتے ہیں۔اوم پوری بھلے ہی وفات پا گئے ہوں مگر نتھو چمار اور ایسے ہی لاتعداد کرداروں کے ذریعے وہ آج بھی فلم بینوں کے دِلوں میں بستے ہیں۔ چائے کے ڈھابے سے ہالی ووڈ تک کا سفر آسان نہیں تھا مگر یہ جواں جذبوں کی کہانی ہے جس نے انبالہ کے چائے بیچنے والے اس بچے کو ’اوم پوری‘ بنا دیا جو اپنی فلموں کے ذریعے آج بھی جیتا جاگتا، سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔