’ذاکر نائیک، پاکستان کی عالمی تنہائی اور اُس کا مداوا‘

بی بی سی اردو  |  Oct 15, 2024

Getty Images

ہمیں ہمیشہ سے بتایا گیا ہے کہ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں مگر اپنے ہمسائے نہیں بدل سکتے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہمارا جغرافیہ ہماری قسمت ہے۔

کبھی بتایا گیا کہ نقشے پر ہمارا مقام ہماری خوش قسمتی ہے کیونکہ ہم چین، انڈیا اور ایران کے سنگم پر ہیں، کبھی یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ ہم انڈیا، ایران اور چین کے بیچ گِھرے ہیں، یہ خواب دکھائے گئے کہ افغانستان اور وسط ایشیا کا راستہ ہمارے گھر سے ہو کر جاتا ہے، کبھی یہ کہہ کر جہاد کے نعرے لگائے گئے کہ اگر افغانستان پر کسی اور کا قبضہ ہوا تو ہمارا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

ہمارا یہ فلسفہ کہ ہمارا جغرافیہ ہماری خوش قسمتی اور یہ کہ ہمارا جغرافیہ ہی ہمارا دشمن، کئی دہائیوں تک دنیا میں بِکتا رہا۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھا امریکی صدر رات کو پریشان رہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں سو جاؤں اور اور پاکستان اور انڈیا پھر ایٹمی جنگ کے دہانے پر نہ پہنچ جائیں۔

کہیں یہ عالم بھی تھا کہ پاکستانی مجاہدین اور افواج کو کارگل کی چوٹیوں سے اُتارنے کے لیے کیمپ ڈیوڈ میں چھٹی کے دن ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں۔ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ افغانستان کی کنجیاں اُچھالتی پھرتی تھی کہ یہاں پر رہ کر دکھاؤ یا یہاں سے زندہ سلامت بھاگ کر دکھاؤ۔

دنیا ہمارے بڑے بم سے، ہمارے دور مار کرنے والے میزائلوں سے، ہمارے جہادی بھائیوں سے یا تو بور ہو گئی یا ہماری جغرافیائی اہمیت کا خوف کم ہوتا گیا۔

دنیا نے پاکستان سے درگزر کرنے کے لیے اس طرح کے بائی پاس بنا لیے جیسے ہم نے بوریوالہ، ساہیوال اور دوسرے شہروں کے اِرد گرد ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے بنائے ہیں۔

امریکہ اور روس راولپنڈی سے ہو کر جانے کی بجائے افغانستان کے وارثوں سے براہ راست بات کرنے لگے، انڈیا اور چین لڑتے بھی رہتے ہیں اور ساتھ کام دھندے بھی جاری رکھتے ہیں۔

ہمارے عربی اسلامی بھائی بھی انڈیا کے وزیراعظم مودی کو ایسے گلے لگاتے ہیں جیسے وہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر اقتدار میں نہ آیا ہو بلکہ کنبھ میلے میں بچھڑا ہوا بچپن کا یار ہو۔

Getty Images

ہمارے دو ہمسائے ایسے بچے ہیں جن سے ہماری امیدیں نہیں ٹوٹتیں۔ طالبان نے افغانستان سے امریکہ اور اتحادیوں کو بھگایا تو جشن ہمارے گھر برپا ہوا، ’حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں‘ جیسے نعرے بلند ہوئے۔

اب طالبان کا وفد پاکستان آتا ہے تو ہمارے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا نہیں ہوتا بلکہ کہتا ہے کہ یہ ترانہ بدلو، پاکستانی طالبان کو پناہ بھی دیتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ افغانستان کو امریکہ سے آزاد کروانے کے بعد وہ پاکستان کو بھی آزاد کروانا چاہتا ہے، ہماری غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے بھی بے قرار ہے۔

سندھ: ’ہر گھر سے ممتاز قادری نکلے گا‘محمد حنیف کا کالم: ’کیا وہ عمران خان کو مار دیں گے؟‘ذاکر نائیک سے ’اسلامی معاشرے میں پیڈوفائلز‘ سے متعلق سوال پر خاتون کو ٹرولنگ کا سامنا: ’بدقسمتی سے میرا سوال سمجھا ہی نہیں گیا‘کیا ہم سب ایک دوسرے کو جلا دیں؟

چین سے دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہری تھی اور ہے، چین کے انجینیئر اور مزدور کئی منصوبوں پر کام کرنے کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان نے تمام تر سکیورٹی وسائل اُن کی حفاظت کے لیے لگا رکھے ہیں لیکن ہر دو چار ہفتے بعد ان پر حملہ ہوتا ہے، ہلاکتیں ہوتی ہیں، تعزیتی کتاب کھلتی ہے، ہماری حکومت اور اپوزیشن والے سب جا کر افسوس کرتے ہیں لیکن یہ سلسلہ روکے نہیں رُکتا۔

اس تنہائی کے عالم میں کسی کو یہ خوب سوجھی کہ چونکہ کوئی بڑا لیڈر پاکستان بہت عرصے سے نہیں آیا اس لیے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بلایا جائے تاکہ سرکاری نظام کو یہ تو یاد رہے کہ کسی ریاستی مہمان کے لیے کیا انتظامات کیے جاتے ہیں۔

گورنر ہاؤس میں تقریبات ہوئیں، بادشاہی مسجد کی رونقیں بڑھیں لیکن وہ بھی ایک مرتبہ پاکستان کے بارے میں بول اٹھے ’یہ کیسا دیش ہے؟‘

Getty Images

اب اسلام آباد میں شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس شروع ہوا چاہتا ہے۔ طویل عرصے بعد روس، چین، انڈیا اور ایران کے رہنما اسلام آباد میں موجود ہوں گے۔

اسلام آباد کے رہائشی شکایت کر رہے ہیں کہ اُن کے شہر کو اس اجلاس کے لیے قیدخانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد والوں کو وقتاً فوقتاً اپنے لگژری قید خانوں میں رہنے کی عادت ہو گئی ہو گی، بس اب آنے والے مہمانوں کو ملاقاتوں اور ضیافتوں میں اتنا مصروف رکھا جائے کہ انھیں کنٹینروں میں محصور اسلام آباد سے دور اُس پاکستان کی جھلکیاں نہ نظر آ جائیں جہاں کراچی میں عوام یہ کہنے پر پِٹ رہے ہیں کہ ہمیں گستاخ کہہ کر پولیس کے ہاتھوں نہ مارو، لاہور میں اس لیے ڈنڈے کھا رہے ہیں کہ ہمیں ریپ نہ کرو اور شمالی علاقوں میں اس لیے اکھٹے ہو کر رو رہے ہیں کہ ہماری سکیورٹی پالیسی سے ہماری جان چھڑاؤ اور باقی ہر دوسرے روز اس لیے مار کھا رہے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اور ملک کے اصلی لیڈر کی جیل کے دروازے کھولو۔

اڈیالہ سے آکسفرڈ تک۔۔۔’کراچی کی شرفا کمیٹی کا آخری شریف‘مسیحا کی مدتِ ملازمت: محمد حنیف کا کالمہمارے ڈنڈے والے استاد: محمد حنیف کا کالممحمد حنیف کا کالم: ’ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں‘سندھ: ’ہر گھر سے ممتاز قادری نکلے گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More