Getty Imagesپاکستان تحریکِ انصاف نے 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں ڈی چوک کے مقام پر احتجاج کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کا کہنا ہے کہ منگل کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج ہر صورت میں ہو گا۔
دوسری جانب پیر کی شام وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر ’کسی احتجاج یا مظاہرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘ وزارت داخلہ کی جانب سے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو بھیجے گئے مراسلے میں کسی بھی ’غیر قانونی اجتماع کی روک تھام کے لیے سکیورٹی اقدامات مزید سخت‘ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے واضح کیا تھا کہ وہ اپنا احتجاج اسی صورت مؤخر کر سکتے ہیں اگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ عمران خان کی صحت اور خیریت کے حوالے سے ابھی تک انھیں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں ہر کارکن اور عوام پر لازم کے وہ باہر نکلیں۔ انشاللہ ایک پُرامن لیکن پُرزور احتجاج ہو گا۔‘
جبکہ تحریک انصاف اسلام آباد کے صدر عامر مغل نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’والپنڈی، اسلام آباد سے جو بھی عہدیدار یا ٹکٹ ہولڈر اس تحریک کو فرنٹ سے لیڈ نہیں کرے گا، (میں) وعدہ کرتا ہوں اسے قومی یا صوبائی اسمبلی تو دور کونسلر اور چیئرمین کا ٹکٹ بھی نہیں لینے دوں گا۔‘
یاد رہے کہ اسلام آباد 15 اکتوبر سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں اجلاس کی تیاریاں زوروں پر ہیں اور اس موقع پر اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے، شہر میں ہر طرح کے احتجاج اور ریلیوں پر پابندی عائد ہے جبکہ شہر میں سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے فوج بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق وزارت داخلہ نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے جائیں تاکہ ایس سی او اجلاس کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔
Getty Imagesایس سی او اجلاس کے موقع پر اسلام آباد میں فوج بھی تعینات کر دی گئی ہےپی ٹی آئی کی احتجاج موخر کرنے کی شرط کیا ہے؟
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ حکومت بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ’بربریت کا نشانہ‘ بنا رہی ہے اور حکومت جان بوجھ کر اڈیالہ جیل میں اسیر ’عمران خان کی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘
اس سے قبل حکومت نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے 18 اکتوبر تک اڈیالہ جیل میں موجود عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ہر قسم کی ملاقات پر پابندی عائد کی تھی۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف کا مطالبہ رہا ہے کہ عمران خان کی اُن کے وکلا، ڈاکٹرز، اہلِخانہ اور پارٹی قائدین تک رسائی بحال کی جائے۔
سنیچر کے روز پی ٹی آئی کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لیے وزارتِ داخلہ کو باضابطہ درخواست بھی دی گئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ آخری مرتبہ پی ٹی آئی کے وکیلوں کی سابق وزیر اعظم سے اڈیالہ میں ملاقات تین اکتوبر کو ہوئی تھی، اور اب پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور حامد رضا کو بانی چیئرمین سے جیل میں ملنے کی اجازت دی جائے۔
یہ درخواست دائر کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے سابق وزیرِ اعظم تک رسائی نہیں دی تو وہ خود احتجاج کی قیادت کریں گے۔
اگرچہ 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کرنے کے معاملے پر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بشمول چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم پیر کی شب صحافیوں سے گفتگو کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے تحریک انصاف نے اسلام آباد میں احتجاج کا ’مشروط اعلان‘ کر رکھا ہے اور یہ کہ ’(ہم) بالکل اسلام آباد جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ جائز ہے کہ ہمارے لیڈر عمران خان سے ملنے دیا جائے۔۔۔ امید ہے کہ یہ (حکومت) مان جائے گی۔۔۔ ورنہ ہم تیار ہیں۔‘
پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟علی امین گنڈاپور کی ’حکمت عملی‘ اور تحریک انصاف کا ڈی چوک احتجاج جو ’پارٹی کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا‘علی امین گنڈا پور: کے پی ہاؤس میں ’پراسرار گمشدگی‘ سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی ’سرپرائز انٹری‘ تکپی ٹی آئی کا راولپنڈی میں احتجاج ختم: ’نو مئی جیسے منصوبے کا موقع نہیں دینا چاہتے‘
حکومتی وزرا کا دعویٰ ہے کہ اس احتجاج کے ذریعے پی ٹی آئی کا مقصد ایس سی او کانفرنس کا سبوتاژ کرنا ہے۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک سیاسی جماعت احتجاج کی کال دے کر ایس سی او کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’قومی اہمیت کے ایونٹ کے موقع پر احتجاج مثبت پیغام نہیں۔ پی ٹی آئی کو احتجاج کی کال واپس لینی چاہیے۔‘
جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی ’عمران خان سے سیاسی ملاقات کے لیے سہولت کاری چاہتی ہے۔‘
’عمران خان سے 10 منٹ ملاقات کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟‘
حکومت کے الزام کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت چاہتی ہے کہ آنے والے تمام بین الاقوامی معززین کا دورہ کامیاب اور خوشگوار ہو۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انھوں نے سوال کیا کہ ’حکومت عمران خان سے 10 منٹ کی ملاقات کی اجازت کیوں نہیں دے رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سب سے پہلے پاکستان کی بات کرتی ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے پاکستان کا مفاد سامنے رکھا جائے اور ایک ڈاکٹر کو عمران خان کا معائنہ کرنے اجازت دی جائے۔ ’اتنی معمولی چیز کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی اور اس کو افراتفری کا سبب کیوں بنایا جا رہا ہے؟‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مبصرین نے بھی اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
حامد حسین نامی ایک صارف کا دعویٰ تھا کہ حکومت ’جان بوجھ کر یہ سب کر رہی ہے تاکہ کانفرنس کے بعد یہ راگ الاپا جا سکے کہ پی ٹی آئی کی وجہ سے کانفرنس ناکام ہوئی اور غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آئی۔‘
ہمیرا نامی صارف نے مثال دی کہ اقوام متحدہ کے باہر آئے روز احتجاج ہوتا ہے تو ’احتجاج کو چھپا کر (ہم) پاکستان کی کون سی عزت بچا رہے ہیں؟‘
پیر کو وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایس سی او سربراہی کانفرنس اور سکیورٹی خدشات کے تناظر میں جیل میں تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ کسی ایک قیدی کو ملاقات کی اجازت دینا، دیگر قیدیوں کے ساتھ دہرے معیار اور سلوک کے زمرے میں آئے گا۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے گذشتہ روز وفاقی وزیرداخلہ سے بیرسٹر گوہر کی ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی۔
ترجمان کا کہنا ہے وزیر داخلہ نے درخواست کا جائزہ لینے کی یقین دہانی کروائی تھی، لیکن ملاقات کی اجازت کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی تھی۔
’پی ٹی آئی اور حکومت کے ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے حربے‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے احتجاج کے لیے 15 اکتوبر کا انتخاب ’حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے کیوںکہ اسی دن ایس سی او کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو عمران خان کی صحت اور سکیورٹی کے بارے میں خدشات ہیں اور وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں جو کہ ان کا قانونی حق ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ حکومت عمران خان کی اُن کے وکلا سے ملاقات اس لیے نہیں چاہتی کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ سابق وزیرِ اعظم اپنے وکلا سے ملاقات کے دوران قانونی معاملات پر بات چیت کے بجائے انھیں سیاسی معاملات پر ہدایات دیتے ہیں۔
حامد میر کے مطابق عمران خان سے اُن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے آخری ملاقات سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی تھی۔ حامد میر کا دعویٰ ہے کہ اس ملاقات کے دوران علی ظفر کو عمران خان سے سیاسی معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ جب علی ظفر کو عمران خان سے سیاسی گفتگو کرنے سے روکا گیا تو انھوں نے دلیل دی کہ وہ سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ تاہم حامد میر کے مطابق جیل حکام نے اسے قبول نہیں کیا اور ان کی ملاقات روک دی گئی۔
وہ کہتے ہیں حکومت کا یہ رویہ بھی خلاف قانون ہے۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے کیا تحریک انصاف کے بیانیے کو تقویت ملے گی؟عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟اڈیالہ سے آکسفرڈ تک۔۔۔پاکستان کی فوج میں اختلاف رائے کا تاثر: ’ذہن سازی‘ اور پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا ٹکراؤ کیسے ہوا؟کیا عمران خان کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟جنرل فیض حمید: ولی عہد ہونے کی سزا