پشتون قومی جرگہ: ’مفت بجلی اور فوج کی بیدخلی‘ سمیت دیگر مطالبات کس حد تک قابلِ عمل ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 14, 2024

پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں منعقد کردہ قومی جرگے میں فوج اور دہشت گردوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’دو ماہ میں علاقہ خالی کر دیں، وگرنہ جرگہ فیصلہ کرے گا کہ علاقہ کیسے خالی کروانا ہے۔‘

یہ مطالبات اتوار کو جرگے کے انعقاد کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اس جرگے میں باجوڑ، وزیرستان، کوئٹہ، ڈی آئی خان، ژوب سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کے ساتھ ساتھ قبائلی اور سیاسی رہنماؤں اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی شرکت کی۔

اگرچہ وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک اس جرگے کے مطالبات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ’قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے وہ اِن تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش کریں گے اور جو مطالبات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں ہیں اُن کو متعلقہ وفاقی حکام کے سامنے اُٹھایا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ اس جرگے کے انعقاد سے قبل پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ تنظیم ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہے۔

تاہم بعد میں خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق اس شرط پر جرگے کی اجازت دی گئی تھی کہ ’پورے اجتماع میں ریاست پاکستان کے خلاف، پاکستان کے آئین اور پاکستانی فوج کے خلاف کوئی نعرے بازی یا کوئی تقریر نہیں ہو گی اور جرگے میں کسی اور تنظیم کا جھنڈا نہیں بلکہ صرف پاکستان کا جھنڈا لانے کی اجازت ہو گی اور امن کے قیام اور پشتونوں کو درپیش مسائل پر بات چیت ہو گی۔‘

اس تحریر میں پشتون قومی جرگے کے بعد سامنے آنے والے مطالبات سمیت خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ردعمل کا احاطہ کیا گیا ہے۔

پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟منظور پشتین کون ہیں؟قبائلی نوجوان کی ہلاکت سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ کیا اپنی مقبولیت کھو رہی ہے؟BBC’مفت بجلی اور فوج کی بے دخلی‘

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں قومی جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ پی ٹی ایم نے تقریباً تین ماہ قبل کیا تھا اور جرگے کے اختتام پر مختلف تجاویز کو نکات کی شکل دی گئی اور تمام شرکا کے سامنے پیش کرنے کے بعد متفقہ طور پر ان کی منظوری دی گئی۔

ان مطالبات میں سے سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ فوج اور دہشت گرد تنظیموں کو دو مہینوں کا وقت دیا گیا کہ وہ علاقے کو خالی کر دیں۔ اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ علاقہ کون سا ہے۔

تاہم ساتھ ہی ساتھ ان مطالبات میں کہا گیا ہے کہ ’اگر دو مہینے میں ایسا نہ ہوا تو پھر جرگہ فیصلہ کرے گا کہ اب کیا کرنا ہے اور علاقے کو کیسے خالی کروانا ہے۔‘ ان نکات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’موجودہ آئین پاکستان کے تحت فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔‘

ان مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ’قبائلی علاقوں کو مفت بجلی فراہم کی جائے جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بجلی کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ ہو۔‘ یاد رہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جا چکا ہے اور انھیں اضلاع کا درجہ دیا گیا ہے۔

جرگے نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ڈیورنڈ لائن یعنی پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع تمام تجارتی راستوں کو پرانے قوانین کے مطابق بحال کیا جائے۔

جرگے کی جانب سے سامنے آنے والے دیگر نکات میں یہ شامل ہے کہ صوبے میں موجود وسائل کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا، قبیلوں کے درمیان تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے امن کمیٹی قائم کی جائے گی اور تمام آئی ڈی پیز کی جرگے کے ذریعے اپنے علاقوں میں واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔

جرگے کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ’بجلی، قدرتی گیس اور پانی صوبہ خیبر پختونخوا کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں، بلاک شدہ شناختی کارڈ بحال کیے جائیں گے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔‘

جرگے میں شامل افراد کی جانب سے صوبائی وزیراعلی سے خصوصی طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان تمام مطالبات کے لیے اسمبلی سے بل پاس کروائیں اور جرگہ کے مقام پر ہونے والے تصادم اور ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

جرگے کے مطابق ’اگر کسی نے اس جرگے کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی کی تو جرگے کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔‘

جرگے کے اختتام پر نکات پیش کرنے سے قبل کہا گیا کہ یہ ’تمام پشتون قوم کا جرگہ‘ تھا۔

جرگے کے مطالبات کس حد تک قابل عمل ہیں؟

جرگے کے اختتام پر وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے کہا گیا کہ ’تمام مشران اور تمام پارٹیوں کے نمائندوں نے جرگے میں مشاورت کی اور میں بحثیت وزیراعلیٰ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اِن تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش کروں گا۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’جو مطالبات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں ہیں اُن کو متعلقہ وفاقی حُکام کے سامنے اُٹھایا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وفاق اور دیگر حکام کے ساتھ بیٹھ کر اِن مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور حکومت اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوامی اُمنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسائل کو حل کر کے اُن کو مطمئن کریں۔‘

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ ’چونکہ پوری اسمبلی کو کمیٹی کادرجہ دے کر مجھے اِس کا سربراہ بنایا گیا ہے، چنانچہ تمام حکومتی اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کی جائے گی اور اُن کی تجاویز کو زیرِ غور لایا جائے گا۔‘

اس جرگے کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات پر تجزیہ کاروں نے مختلف آرا ظاہر کی ہیں۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ موجودہ حالات میں یہ تجاویز قابل عمل نہیں ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے رہنما سلیم شاہ ہوتی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جرگے کے 22 نکات میں سے بیشتر قابل عمل نہیں ہیں۔ انھیں اس بات پر بھی حیرانی ہوئی ہے کہ جرگے کے قائدین نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کی مذمت نہیں کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کیونکہ ’فوج اور دہشت گردوں کو ایک پلڑے میں ڈالنا زیادتی ہے۔‘

سلیم ہوتی کو خدشہ ہے کہ اس سے ’عوام میں سکیورٹی اداروں کے بارے منفی سوچ کو مزید تقویت ملے گی۔‘

مثلاً وہ فوج کے انخلا سے متعلق مطالبے پر سوال کرتے ہیں کہ ’اگر فوج اس خراب صورتحال میں واپس چلی جائے گی تو بارڈر اور دہشتگردی سے متاثرہ علاقے کس کے حوالہ کیے جائیں گے؟ اور کیا ان علاقوں کو مستقل طور پر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟‘

سینیئر تجزیہ کار عبدالسید کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں سے سکیورٹی فورسز سمیت عسکریت پسندوں کے انخلا کا مطالبہ دراصل اس جرگے کے انعقاد اور پی ٹی ایم کے قیام کے اساسی مقصد یعنی پشتون علاقوں میں امن کے قیام سے جڑا ہوا ہے۔

انھیں ان مطالبات کر عملدرآمد کے حوالے سے زیادہ امید نہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ واضح ہے کہ پی ٹی ایم پاکستان کی سیاست میں ’پشتون قوم کی نمائندگی کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن گئی ہے‘ اور جرگے کے ذریعے اس دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ یہ ایک ’علیحدگی پسند تحریک‘ ہے۔

دریں اثنا سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اس جرگے کے انعقاد سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ ریاست کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جس طرح موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی اور ایک ہفتے تک پشاور سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں راستے بند کیے گئے اس کی وجہ سے جن لوگوں کا پشتون تحفظ موومنٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے رہے اور اس سے متاثر ہوئے۔ ان کی ہمدردیاں بھی پی ٹی ایم کو حاصل ہوئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کا ایک فائدہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی حاصل ہوا ہے کیونکہ انھیں اتنے بڑے جلسوں سے خطاب کا موقع ملا ہے۔ ان میں اے این پی، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوا ہے۔

مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’اس جرگے کی شکل میں وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کو یہ موقع میسر ہوا ہے کہ وہ اپنا موقف پیش کر سکیں کہ ان کی جماعت یا صوبائی حکومت لوگوں کے خلاف نہیں ہے۔‘

پی ٹی ایم کے دو روزہ جرگے میں ہوا کیا؟

پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام سنیچر کے روز شروع ہونے والے اس جرگے میں باجوڑ، وزیرستان کوئٹہ، ڈی آئی خان، ژوب سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

جرگے کے مقام پر سکیورٹی انتظامات پی ٹی ایم نے خود سنبھال رکھے تھے تاہم حکومت کی جانب سے بھی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔

ضلع جمرود کی انتظامیہ کی جانب سے پینے کے لیے پانی فراہم کیا گیا جبکہ پانی کے ٹینکر، ایمبولینس، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی جانب سے ہی جرگہ کے مقام پر ایک میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا تھا۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے جرگے کے پہلے روز شرکا سے خطاب کے دوران بتایا کہا کہ یہ ایسا موقع ہے کہ تمام پشتون لیڈر شپ بیٹھ کر ایک ہی فیصلہ کریں۔

جرگے کے مرکزی مقام پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے خطاب میں ڈیٹا بھی شیئر کیا اور ایک ویڈیو کے ذریعے متاثرہ افراد کی تکالیف بتائی گئیں۔

اسی بارے میںپشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟منظور پشتین کون ہیں؟’منظور پشتین نے ہمارا خوف ختم کر دیا ‘’پی ٹی ایم کی وجہ سے کئی گھروں میں خوشیاں لوٹ آئیں‘’اپنا بچہ‘ فوج کی نظر میں دشمن قوتوں کا آلۂ کار کیوں بن گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More