ملتان کی ’روڈ‘ پر 556 رنز بنانے والے پاکستانی بلے باز تیسری اننگز میں کیوں لڑکھڑا گئے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 11, 2024

Getty Imagesمحمد رضوان بدقسمت رہے کہ جو باؤنس اس گیند کو درکار تھا، وہ پچ کی نذر ہو گیا

عبداللہ شفیق کو اولی پوپ سے یہ امید نہ تھی۔ ڈیڑھ سو اوورز تک، ملتان کی تپتی دھوپ میں جھلسنے کے بعد انھیں یہ توقع نہ تھی کہ یوں اچانک انگلش کپتان بےمروّتی سے سیشن کے بیچ ہی اننگز ڈکلیئر کر دیں گے اور اس 'ٹرانزیشن' کے لیے چائے کے وقفے کا رسمی انتظار بھی نہ کریں گے۔

یقیناً اگر اولی پوپ یہ ’حرکت‘ کرنے کے لیے چائے کے وقفے تک رُک جاتے تو عبداللہ شفیق کو اپنے اعصاب میں ٹھہراؤ لانے کا کچھ موقع مل جاتا۔ چائے کا کپ بھلے ان کی تھکان دور نہ کرتا مگر دو دن کی جھلستی دھوپ کے ہنگام دس پندرہ منٹ کے لیے ڈریسنگ روم کے ایئرکنڈیشنر سے فیض یاب ہونے کا موقع مل جاتا اور اوسان سنبھل جاتے۔

مگر اولی پوپ نے پاکستانی بیٹنگ کو کوئی سہولت نہ دی۔ جو لائن اپ پچھلے سال بھر اپنی دوسری اننگز میں 200 کا ہندسہ نہ چھو سکا تھا اور جسے ملتان کی دھوپ میں جھلستے 150 اوورز بیت گئے تھے، اسے چوتھی سہ پہر اچانک فیلڈنگ چھوڑ کر بھاگم بھاگ ڈریسنگ روم سے بیٹنگ کے لئے تیار ہو کر آنا پڑا۔

یہ سب کچھ ایسی عجلت میں ہوا کہ کریز پر پہنچنے تک عبداللہ شفیق بھول چکے تھے کہ یہ کیسی پچ ہے اور یہاں کیسے پہلی اننگز میں انھوں نے ہی سنچری کی تھی۔

جونھی وہ دوبارہ میچ میں داخل ہوئے اور نگاہ اٹھائی تو حیرت سے پھیلی ان کی بھنویں یہ سجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ بولنگ اینڈ کی طرف دوڑے آنے والا شخص کون ہے اور ہاتھ میں کوئی سرخ شے اٹھائے ان کی طرف کیوں بھاگا چلا آ رہا ہے۔

Getty Imagesکیا بابر اعظم بیک آف لینتھ گیندوں سے واقف نہیں؟

کرس ووکس کی وہ پہلی گیند لائن اور لینتھ کے اعتبار سے اچھی تھی۔ اسے ہلکی سی سیم موومنٹ بھی میسر تھی جو اتنی ہی تھی جتنی ملتان کی پچ پہ ایک بالکل نئی گیند کو میسر ہو سکتی تھی۔ مگر جس بلے باز نے اپنی پہلی اننگز میں سنچری بنائی تھی، اسی کا بلا اس گیند پہ یوں گھوما جیسے انٹرنیشنل ٹیسٹ کرکٹ نہیں بلکہ ٹیپ بال کے میچ میں کوئی ’ٹرائی‘ بال کھیلی جا رہی ہو۔

یہ عبداللہ شفیق کی شاٹ نہیں تھی۔ یہ اس بلے باز کی شاٹ تھی جس کی ٹیم کو پورے ڈیڑھ سو اوورز تک ہیری بروک اور جو روٹ نے فیلڈ میں تماشہ بنائے رکھا تھا۔

یہ اس ڈریسنگ روم کی شاٹ تھی جو پہلی اننگز میں ایسا خطیر مجموعہ جڑنے کے بعد بھی اپنی بولنگ سے میچ پہ ساری گرفت کھو چکا تھا۔

اور اگرچہ یہ قابلِ فہم ہے کہ ظالم سماج جو بھی کہے، شان مسعود اپنی شاٹ سلیکشن کبھی نہیں بدلیں گے مگر یہاں تو خود شان کے لیے بھی شان کی شاٹ سلیکشن ناقابلِ فہم تھی۔ وہ گویا کسی ضد پہ اڑے تھے کہ جتنے بھی مواقع مل رہیں، وہ تو آؤٹ ہو کر ہی دم لیں گے۔

صائم ایوب سے اوپننگ کا تجربہ اگرچہ ابھی تک اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے مگر یہاں خود صائم نے بھی یقینی بنایا کہ یہ ناکام ہی رہے۔ جبکہ بابر اعظم نے اپنی وکٹ دیتے ہوئے ناظرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ملتان میں نہیں، پرتھ میں کھیل رہے تھے۔

وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟شیریٹن ہوٹل دھماکہ: جب راشد لطیف کو شعیب اختر کے کمرے کا دروازہ توڑنا پڑاپاکستان 500 رنز بنا کر بھی اننگز سے ٹیسٹ میچ ہارنے والی دنیا کی پہلی کرکٹ ٹیم بن گئیملتان میں کمنٹیٹرز کی چھتریوں والی تصویر انڈیا اور پاکستان میں کیوں وائرل ہے؟

محمد رضوان واقعی بدقسمت رہے کہ جس گیند پہ ان کا نام لکھا تھا، وہ اس کی لینتھ اور لائن تو بھانپ گئے مگر جو باؤنس اس گیند کو درکار تھا، وہ پچ کی نذر ہو گیا اور گیند رضوان کے مدافعتی حصار کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی۔

مگر سوال یہ ہے کہ اس بیٹنگ آرڈر کو اچانک ایسا کیا ہو گیا۔

کیا سعود شکیل سپن سے نمٹنا نہیں جانتے؟ کیا بابر اعظم بیک آف لینتھ گیندوں سے واقف نہیں؟ کیا صائم ایوب کا پہلے کبھی شارٹ پچ سے پالا نہیں پڑا؟ کیا عبداللہ شفیق ہلکی سی سیم موومنٹ کے خلاف بھی مزاحمت نہیں کر سکتے؟

ایسا نہیں ہے کہ ان سبھی بلے بازوں میں سے کوئی بھی تکنیکی اعتبار سے پختہ نہ ہو یا انٹرنیشنل لیول پہ کرکٹ کھیلنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ المیہ یہ ہے کہ اہلیت اور استعداد کے باوجود ان پہ ہمیشہ اپنے حریف بیٹنگ آرڈر سے زیادہ پرفارم کرنے کا دباؤ رہتا ہے۔

کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی کے لیے بیس وکٹیں لینے کی جو صلاحیت درکار ہے، وہ نہ تو اس ٹیم کے پیسرز میں ہے اور نہ ہی اس پورے ملک میں کوئی ایک ایسا سپنر دستیاب ہے جو اس دردِ سر کا مداوا کر سکے۔

Getty Imagesخود شان کے لیے بھی شان کی شاٹ سلیکشن ناقابلِ فہم تھی

سو، اب مسابقت کے معیار میں فرق کا یہ عالم ہے کہ جہاں پاکستانی بلے بازوں کو نوآموز برائیڈن کارس کے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے سر پہ لپکتے باؤنسرز سے نمٹنا پڑتا ہے، وہاں حریف بلے بازوں کو شاہین آفریدی 136 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے باؤنسر پھینک رہے ہوتے ہیں جو ان باصلاحیت انگلش بلے بازوں کے لئے ڈنر کے بعد کی 'ڈیزرٹ' سے کم نہیں۔

مسابقت میں اس سے بھی بڑا فرق یہ ہے کہ ایک جانب یہ برق رفتار باؤنسرز مڈل سٹمپ لائن سے خوفناک انداز میں پاکستانی بلے بازوں کی گردن پہ لپکتے ہیں تو دوسری جانب حریف ٹیم کو کریز پہ وہی ٹھنڈے میٹھے دیسی ساختہ باؤنسرز بھی گمراہ میزائلوں کی طرح چھٹے سٹمپ کی لائن پہ بھٹکتے ملتے ہیں جنہیں 'پُل' یا 'ہُک' کرنا بچوں کا کھیل دکھائی دیتا ہے۔

سو، اس سارے منظرنامے میں پاکستانی بلے باز قدرے قابلِ رحم دکھائی دیتے ہیں کہ جو مجموعہ کسی نارمل ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں قابلِ قدر کہلاتا، وہ بنانے پہ بھی ایک اننگز سے بڑی شکست ان کا مقدر ٹھہری کیونکہ ان کے بولرز بیس وکٹیں لینے سے قاصر ہیں۔

شیریٹن ہوٹل دھماکہ: جب راشد لطیف کو شعیب اختر کے کمرے کا دروازہ توڑنا پڑاکرکٹ کی تاریخ پر پی سی بی کی ویڈیو سے عمران خان غائب: ’کیا آپ کھیل کو بھی منقسم کرنا چاہتے ہیں؟‘وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟جب آئرلینڈ سے اپ سیٹ شکست کے بعد باب وولمر کی پُراسرار موت پاکستان پر بجلی بن کر گریپاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار یا عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں چاہیے؟بلے بازوں کو آپریشن تھیٹر پہنچا دینے والے بے رحم ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More