الیکشن ٹریبیونلز کے فیصلوں کے نتیجے میں کئی نشستیں کھونے کے بعد بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی عددی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے اور اس نے صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت بھی کھو دی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرفراز بگٹی کی مخلوط حکومت کو فی الوقت تو کوئی خطرہ نہیں لیکن مستقبل میں اس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔8 فروری 2024کے عام انتخابات میں بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔
آزاد امیدواروں کی شمولیت کے ساتھ 65 رکنی ایوان میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 18 ہوگئی تھی۔ 17 نشستوں کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر تھی۔ تاہم الیکشن ٹریبیونلز اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے اپنی چار نشستیں کھو دی ہیں اور اس کی نشستوں کی مجموعی تعداد 18 سے کم ہو کر 14 تک آگئی ہے۔پیپلز پارٹی نے ابتدا میں پی بی 9 کوہلو سے نصیب اللہ مری کی نشست کا نقصان اٹھایا۔حالیہ دنوں میں الیکشن ٹریبیونل نے کوئٹہ سے پیپلز پارٹی کے دو ارکان علی مدد جتک اور عبیداللہ گورگیج کو ڈی نوٹیفائی کیا جبکہ پی پی پی کو چوتھی نشست کا نقصان پی بی 8 سبی کی نشست پر کامیاب ہونے والے سرفراز ڈومکی کے انتقال کی صورت میں اُٹھانا پڑا۔اس دوران پی بی 9 کی نشست کے سات پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخاب میں مسلم لیگ ن کے نواب چنگیز مری کامیاب ہوگئے اور ن لیگ کی نشستوں کی تعداد 18 ہوگئی۔ اس طرح مسلم لیگ ن کو اس وقت صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 21 حب بھی عام انتخابات کے بعد سے تاحال خالی ہے۔ اس سیٹ کے نتیجے پر پیپلز پارٹی کے علی حسن زہری اور بی اے پی کے سردار صالح بھوتانی کے درمیان تنازع ہے اور معاملہ عدالت میں زیرِالتوا ہے۔مخلوط حکومت میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی میر ضیا اللہ لانگو بھی الیکشن ٹریبیونل کے فیصلے کے نتیجے میں اپنی نشست کھو چکے ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر بلوچستان اسمبلی کی اس وقت پانچ نشستیں خالی ہیں۔
وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کو اس وقت بھی اسمبلی میں 38 ارکان کی حمایت حاصل ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
بخت محمد کاکڑ، عبدالصمد گورگیج سمیت پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے کئی دیگر ارکان سے متعلق بھی انتخابی عذرداریاں عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ڈی سیٹ ہونے والوں میں علی مدد جتک کے پاس زراعت اور ضیا اللہ لانگو کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلم دان تھا جبکہ انتقال کرنے والے رکن سردار سرفراز ڈومکی کے پاس بلدیات کی وزارت تھی۔ عبیداللہ گورگیج پارلیمانی سیکریٹری برائے پراسیکیوشن کے عہدے پر کام کر رہے تھے، صوبائی حکومت نے ان محکموں کا قلم دان تاحال کسی دوسرے رکن کو نہیں سونپا جس کی وجہ سے ان وزارتوں کا کام بھی متاثر ہو رہا ہے۔بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت مخلوط حکومت کو اس وقت بھی مسلم لیگ ن، بلوچستان عوامی پارٹی، جماعت اسلامی اور آزاد رکن سمیت مجموعی طور پر 38 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے 33 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان سعید کا کہنا ہے کہ صوبے کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان حکومت سازی کا فارمولہ طے شدہ ہے اس لیے کئی نشستیں کھونے کے باوجود بھی سرفراز بگٹی کی وزارت اعلٰی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اسمبلی کے مطلوبہ ارکان کی اکثریت حاصل ہے لہٰذا اس وقت انہیں اپوزیشن کی جانب سے کسی سخت مخالفت کا بھی سامنا نہیں۔تاہم عرفان احمد سعید سمجھتے ہیں کہ الیکشن ٹریبیونلز کے فیصلوں کے نتیجے میں آہستہ آہستہ نشستیں گنوانے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی عددی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ اب وہ صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہونےکا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ان کا کہنا ہے کہ خالی ہونے والی کم سے کم تین نشستوں پر پیپلز پارٹی کو اپوزیشن جماعت جے یو آئی اور نیشنل پارٹی کے مضبوط امیدواروں کا سامنا ہے۔ ’اگر یہ تینوں نشستیں اپوزیشن نے جیت لیں تو اُس کی پوزیشن مزید مضبوط ہو سکتی ہے جو مستقبل میں حکومت کے لیے کسی خطرے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔‘عرفان سعید کا کہنا ہے کہ جے یو آئی دو نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے، اگر وہ دو سیٹیں جیت جاتی ہے تو اُس کے ارکان کی تعداد 12 سے بڑھ کر 14 ہو جائے گی۔ اس طرح وہ پیپلز پارٹی کے برابر پوزیشن پر آسکتی ہے۔