لائیو: اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل سروس بحال ہونا شروع، اہم شاہراہیں بند

اردو نیوز  |  Oct 06, 2024

پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد میں آج تیسرے روز بھی اہم شاہراہیں بند ہیں تاہم جڑواں شہروں میں موبائل فون سروس بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔

اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری جناح ایونیو اور ڈی چوک پر موجود ہے جبکہ پاک فوج کے دستے بھی ڈی چوک اور اطراف میں تعینات ہیں۔ شہر کے کئی مقامات کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔

راولپنڈی کے مختلف مقامات مریڑ چوک، کمیٹی چوک، وارث خان اور راولپنڈی ڈبل روڈ سے کنٹینرز ہٹا دیے گئے ہیں تاہم اسلام آباد جانے والے راستے بدستور بند ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’ہمارے وزیراعلیٰ کو اغوا کیا گیا‘، خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آجخیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آج اتوار کو دن دو بجے طلب کیا گیا ہے۔ 

صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری نوٹیفیکشن کے مطابق اجلاس میں علی امین گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی اور اسلام آباد میں خیبرپختونخوا ہاؤس میں پیش آنے والے مبینہ واقعے پر بحث کی جائے گی۔

تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارے وزیراعلیٰ کو اغوا کیا گیا، گرفتار کیا گیا، یہ پورے صوبے کی توہین ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت صرف زور اور دباؤ کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانا چاہتی ہے، اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ حملہ ہوا اور بس ختم ہو جائے گا تو یہ غلط فہمی ہے، اس معاملے پر کے پی اسمبلی اجلاس بلا رہے ہیں۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب وزیراعلیٰ کو لاپتہ کرنا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے: بیرسٹر سیفمشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا ہے کہ ’ایک منتخب وزیراعلی کو لاپتہ کرنا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ مریم نواز کے پی ٹی آئی بارے بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔۔پی ٹی آئی فارم 47 دہشت گردی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔‘

بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ دہشت گردی سے زیادہ نقصان فارم 47 حکومت نے ملک کو پہنچایا ہے۔ فارم 47 کی جعلی حکومت نے ملک کو بنانا ریپبلک بنایا ہوا ہے۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

7 اکتوبر کو قلعہ سیف اللہ میں پُرامن احتجاج ہوگا: محمود خان اچکزئیپشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے تحریک انصاف کے احتجاج کو وسیع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم اس پُرامن احتجاج کو اب بلوچستان تک وسعت دیں گے۔ یہ احتجاج 7 اکتوبر کو قلعہ سیف اللہ، بلوچستان میں ہوگا۔‘

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’اس سے پہلے میں نے اپنے جلسوں میں بارہا حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ عمران خان کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری باتوں پر کسی نے سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا۔ اب عوام نے اپنا راستہ خود متعین کرنا شروع کر دیا ہے۔ قلعہ سیف اللہ کا عظیم الشان جلسہ سات اکتوبر کو ہوگا۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب تک کپتان حکم نہیں دیتے، احتجاج جاری رہے گا: پی ٹی آئیپاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کے اعلان تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ ’جب تک کپتان حکم نہیں دیتے، ڈی چوک سمیت ملک بھر میں پُرامن احتجاج طے شدہ طریقۂ کار اور ترتیب سے جاری رہے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کی جبری گمشدگی نہایت شرمناک، اشتعال انگیز، آمرانہ اور وفاقِ پاکستان کے لیے تباہ کن ہے۔ علی امین گنڈا پور کو دن کی روشنی میں پختونخوا ہاؤس پر مسلّح لشکرکشی کرکے 9 مئی کی طرز پر فالس فلیگ آپریشن ٹو کے تحت گرفتار کیا گیا۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولیس اور مطاہرین میں جھڑپیں، اسلام آباد پولیس کا اہلکار دم توڑ گیاسنیچر کو پولیس اور تحریک انصاف کے مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں زخمی ہونے والے اسلام آباد پولیس کے اہلکار کانسٹیبل حمید شاہ دم توڑ گئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد پولیس کے افسر حمید شاہ کنسٹیبل جنہیں گذشتہ روز مظاہرے کے دوران شرپسندوں نے اغوا کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا تھا شہید ہو گئے ہیں۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور کے تمام داخلی و خارجی راستے ٹریفک کے لیے کُھل گئے: سی ٹی اولاہور کے مختلف مقامات سے کنٹینرز ہٹا دیے گئے ہیں جس کے بعد شہر کے تمام داخلی و خارجی راستے ٹریفک کے لیے کُھل گئے ہیں۔

سٹی ٹریفک پولیس آفیسر (سی ٹی او) لاہور عمارہ اطہر نے بتایا کہ شہر کے تمام انٹری ایگزٹ پوائنٹس ٹریفک کے لیے کُھلے ہیں۔ بابوصابو، ٹھوکر نیاز بیگ، شاہدرہ، سگیاں سمیت تمام داخلی و خارجی راستوں پر ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔

موٹروے ایم ون اسلام آباد تا پشاور اور اسلام آباد سے لاہور ایم ٹو موٹروے کو بھی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

لاہور میں جی پی او چوک کے باہر اور کئی دیگر پوائنٹس پر رینجرز اب بھی موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

120 افغان اور خیبر پختونخوا پولیس کے 11 اہلکار گرفتار کر لیے، وزیر داخلہ

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مجموعی طور پر 564 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 120 افغان باشندے بھی شامل ہیں۔‘محسن نقوی نے سنیچر کی رات اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام اور راولپنڈی کو مظاہرین سے کلیئر کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا مقصد تھا کہ یہ 17 اکتوبر تک یہاں ڈی چوک میں بیٹھے رہیں اور احتجاج کرتے رہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ لوگ چاہتے تھے کہ لاشیں گریں لیکن ہم نے ان کی حکمت عملی ناکام بنا دی ہے۔ ان کے جتھے مسلح ہو کر اسلام آباد آئے تھے۔‘وزیر داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’چند ہی گھنٹوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بحال کر دی جائے گی۔‘انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 11 پولیس اہلکار بھی گرفتار کیے گئے۔ مظاہرین میں خیبر پختونخوا کے اہلکاروں کے شامل ہونے کی اعلٰی سطح پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘’اسلام آباد اور پنجاب پولیس اہلکاروں کو جن افراد نے زخمی کیا ان کے خلاف مقدمات درج کر کے کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکیورٹی ذرائع کی علی امین گنڈاپور کی گرفتاری سے متعلق دعوے کی تردیدخیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے مشیر بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ ’کے پی ہاؤس میں اس وقت رینجرز کے اہلکار موجود ہیں لیکن وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔‘ تاہم اعلیٰ سکیورٹی ذرائع نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی گرفتاری یا انہیں حراست میں لیے جانے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

بیرسٹر سیف نے سنیچر کی شام نجی نیوز چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’علی امین گنڈاپور کے ساتھ صبح آٹھ بجے رابطہ ہوا تھا، اس کے بعد جب وہ کے پی ہاؤس پہنچے تو ہم مطمئن ہو گئے تھے۔ پھر رینجرز اہلکار جونہی اندر آئے تو تمام سٹاف کو باہر نکال کر علی امین کو گھیرے میں لے لیا گیا۔‘

بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’پشاور ہائی کورٹ نے علی امین گنڈاپور کی راہداری ضمانت منظور کر رکھی، انہیں گرفتار کرنا توہین عدالت ہو گی۔‘

دوسری جانب سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ ’علی امین گنڈاپور کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی حراست میں لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More