Getty Images
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جہاں اور بہت سے موضوعات اور تنازعات پر بات ہوئی وہیں ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے روایتی حریف پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے آئے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر دہشتگردی، انتخابات میں دھاندلی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے الزامات عائد کیے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ’پاکستان انڈیا کی کسی بھی قسم کی جارحیت کا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور اور فیصلہ کن جواب دے گا۔‘
اگلے ہی روز سنیچر کو انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ پاکستان کی سرحد پار دہشت گردی کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔
اس سے قبل اقوام متحدہ میں انڈیا کی فرسٹ سیکریٹری بھاویکا منگلانندن نے شہباز شریف کی تقریر پر جواب دینے کا حق استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک ایسا ملک جہاں فوج نظام چلا رہی ہے اور جس کی تاریخ انتخابی دھاندلی سے بھری پڑی ہے وہ اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو سکھائے گی کہ انتخابات میں شفافیت کیا ہوتی ہے۔‘
یہ جاننے سے قبل کہ دونوں ممالک کے ماہرین اس پر کیا کہتے ہیں، پہلے مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں انڈیا کے بارے میں کیا کہا ہے اور پھر انڈیا نے اس پر کیا ردعمل دیا۔
Getty Imagesانڈین وزیر خارجہ جے شنکر کا پاکستان کے خلاف سخت موقف
جے شنکر نے اپنی تقریر کے دوران پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی معیشت کے بارے میں کہا کہ یہ ان کے 'کرتوتوں کا پھل' ہے۔
وزیر خارجہ نے پاکستان پر اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’بہت سے ممالک بے قابو حالات کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، لیکن کچھ ممالک جان بوجھ کر ایسے فیصلے کرتے ہیں جس کے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال ہمارا پڑوسی ملک پاکستان ہے۔ بدقسمتی سے ان کے گناہ دوسروں کو متاثر کرتے ہیں خاص طور پر ان کے پڑوسیوں کو۔'
انھوں نے کہا کہ 'اس (پاکستان) کی جی ڈی پی کو صرف بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی شکل میں اس کی برآمدات کے لحاظ سے ماپا جا سکتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جو برائیاں دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی وہ ان کے اپنے معاشرے کو کھا رہی ہیں۔
’اس کے لیے دنیا کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ صرف کرما ہے۔ ایک بیکار قوم جو دوسرے لوگوں کی زمینوں پر نظر رکھتی ہے اس کے بارے میں لوگوں کو پتا ہونا چاہیے اور اس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔'
شہباز شریف کی تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایس جے شنکر نے کہا: ’ہم نے کل اسی پلیٹ فارم سے کچھ عجیب باتیں سنی تھیں۔ میں انڈیا کا موقف بالکل واضح کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرحد پار دہشت گردی کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ اور اس سلسلے میں اسے کسی سزا سے استثنیٰ کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس، ہر عمل کے نتائج ضرور ہوں گے۔'
انھوں نے مزید کہا: 'ہمارے درمیان جو حل طلب مسائل ہیں وہ یہ ہیں کہ پاکستان غیر قانونی طور پر قبضہ کی جانے والی انڈین سرزمین کو خالی کر دے اور پاکستان دہشت گردی سے اپنے دیرینہ تعلق کو ترک کر دے۔'
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر کے جواب میں اقوام متحدہ میں انڈین سفارتکار بھاویکا منگلانندن نے کہا کہ ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر بزدلانہ حملہ کیا گیا ہے۔‘
بھاویکا نے شہباز شریف کی تقریر کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’فوج کی نگرانی میں چلنے والے ملک جو دہشت گردی، منشیات کی تجارت اور بین الاقوامی جرائم کے لیے عالمی سطح پر بدنام ہے نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر حملہ کرنے کی جرات کی ہے۔‘
انڈین سفارتکار نے کہا کہ ’جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے سرحد پار دہشت گردی کو اپنے پڑوسیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔‘
انڈیا کی سفارتکار نے کہ ’اس نے ہماری پارلیمنٹ، ہمارے مالیاتی دارالحکومت ممبئی، بازاروں اور مقدس مقامات پر حملہ کیا ہے۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے اور اس طرح کے ملک کے لیے کہیں بھی تشدد کے خلاف بات کرنا سب سے بڑی منافقت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک ایسے ملک کے لیے اور بھی عجیب ہے جس کے انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ ہے اور وہ سیاسی آپشنز کی بات کر رہے ہیں۔‘
بھاویکا نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ’اب یہ ملک دہشتگردی کے خلاف بات کر رہا ہے۔‘
پاکستانی وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں وہ خطاب جس پر انڈیا برہم ہوا
جمعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کسی بھی انڈین جارحیت کا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور اور فیصلہ کن جواب دے گا۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین کے عوام کی طرح جموں و کشمیر کے لوگ بھی اپنی آزادی اور حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے ایک صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’امن کی طرف بڑھنے کے بجائے انڈیا جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے وعدوں سے گریزاں ہے۔ یہ قراردادیں جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے بنیادی حقِ خود ارادیت کا استعمال کرنے کے حامل استصواب رائے کا اختیار دیتی ہیں۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’پانچ اگست 2019 کے بعد سے انڈیا نے جموں و کشمیر کے لیے بدقسمتی سے ان کے رہنماؤں کے بقول ’حتمی حل‘ کو مسلط کرنے کے لیے یکطرفہ غیر قانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔
’نو لاکھ انڈین فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں نوجوان کشمیریوں کے اغوا جیسے خوفناک اقدامات سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک آبادکار نوآبادیاتی منصوبے کے تحت انڈیا کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر رہا ہے اور باہر کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کر رہا ہے تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے، یہ دقیانوسی حربہ تمام قابض طاقتوں نے استعمال کیا لیکن یہ ہمیشہ ناکام رہا، جموں و کشمیر میں بھی یہ ناکام ہو گا۔‘
سکردو کا محاصرہ: وہ شہر جس پر قبضے کے لیے انڈیا اور پاکستان نے چھ ماہ تک جنگ لڑی’پاکستان کو چوڑیاں پہنانے والے‘ نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے سے پاکستان انڈیا تعلقات میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین فوج اور پولیس کے درمیان تصادم کی وجوہات کیا ہیں؟انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابی مہم سے پاکستان کا تذکرہ غائب کیوں ہوا؟
وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ انڈیا اپنی عسکری صلاحیتوں میں بڑے پیمانے پر توسیع میں مصروف عمل ہے جو درحقیقت پاکستان کے خلاف صف آرائی ہے۔
’اس کے جنگی نظریے، ایک اچانک حملے اور ’جوہری پھیلاؤ کے تحت محدود جنگ‘ کے تصور کے حامل ہیں۔ انڈیا نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان کی ایک باہمی ’سٹریٹجک ریسٹرینٹ رجیم‘ کی تجاویز کو ٹھکرا دیا ہے، اس کی قیادت نے اکثر لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر ’قبضہ‘ کرنے کی دھمکی دی ہے۔‘
Getty Images’دونوں ممالک کے درمیان محض مذاکرات ہی مسئلے کا حل نہیں‘
جنوبی ایشیا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر رشید احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان اور انڈیا کا یہ جارحانہ انداز سمجھ میں آتا ہے اور دونوں ہی حالیہ عام انتخابات سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت دونوں ہی ممالک کے رہنماؤں کو غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے۔‘
ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف پر الزام ہے کہ ان کا مینڈیٹ جعلی ہے اور کافی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ جائز طور پر منتخب نہیں ہوئے ہیں تو پھر ایسے میں حکومت کو ’لیجٹیمسی کرائسز‘ کا سامنا ہے۔ دوسری طرف انڈیا میں بھی عام انتخابات میں حکمران جماعت بی جے پی کو کافی ’سیٹ بیک‘ ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق رام مندر کی تعمیر کے باوجود ایودھیا میں بھی شکست انڈین حکومت کے لیے کافی ہزیمت کا باعث بنی۔
ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ ’76 برس میں پہلی بار انڈیا اور پاکستان میں مذاکرات میں طویل تعطل اور تناؤ کی یہ سطح دیکھی ہے۔‘
تاہم ان کے مطابق دونوں ممالک یہ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر سکتے اور انھیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنا ہی ہو گی اور اس سے ہی کوئی راستہ نکل سکے گا۔
ان کے مطابق پاکستان اور انڈیا میں ایسی رائے والے لوگ موجود ہیں کہ جو کسی صورت بات چیت کے قائل نہیں ہیں مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہو گا اور مذاکرات کی میز بچھانی ہو گی۔
Getty Images
انڈیا کے پاکستان میں فوج کی حکمرانی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ بات غلط تو نہیں ہے۔
ڈاکٹر رشید نے کہا کہ جب تک سول حکمران پالیسی پر کنٹرول نہیں حاصل کر سکیں گے تو پھر امن کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔
نئی دہلی میں انسٹیٹیوٹ آف کانفلیکٹ مینجمنٹ اینڈ ساؤتھ ایشیا پورٹل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اجے ساہنی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’اقوام متحدہ میں پاکستان اور انڈیا نے جو بھی کیا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک اپنی پرانی پوزیشن پر کھڑے نظر آئے۔
اجے ساہنی کے مطابق انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات سے پہلے کچھ شرائط پر متفق ہونا ہو گا کیونکہ مذاکرات کسی بھی چیز کا ’آؤٹ کم‘ ہو سکتے ہیں مگر حل نہیں۔
ان کی رائے میں ماضی میں کچھ شرائط پر راضی ہوئے بغیر جب دونوں ممالک نے مذاکرات کیے تو اس کے بعد پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے، جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ محض مذاکرات کی رٹ بھی کافی نہیں ہے۔
انھوں نے یہ تجویز دی ہے کہ ’پہلے دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت دیگر متنازع امور پر اپنی پوزیشن پر پیچھے ہٹیں اور پھر مذاکرات کا راستہ اختیار کریں تو ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
’ان کی رائے میں جہاں تک بات چیت اور انگیجیمنٹ کی بات ہے تو وہ دونوں ممالک مختلف سطحوں پر ایک دوسرے سے ’انگیج‘ تو ہیں مگر اصل انگیجمنٹ سیاسی سطح کی ہو گی اور اس کے لیے دونوں ممالک کو سمجھوتہ کرنا ہو گا۔‘
اردوغان کی اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر خاموشی کے پیچھے وجہ کیا ہے؟انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کیسے بنی اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئی’اب ووٹ نیا پتھر ہے‘: کشمیر میں 10 سالہ گورنر راج کے بعد اسمبلی انتخابات میں نیا کیا ہے؟جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاوہ کشمیری قبیلہ جو موسیقی کے ذریعے انڈیا اور پاکستان کی سرحد پھلانگ رہا ہے