گرودت کے خوابوں کا وہ بنگلہ جو کبھی گھر نہ بن سکا

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2024

فلمساز سکرین پر خواب دکھاتے ہیں لیکن اکثر ان کا اپنا بھی کوئی خواب ہوتا ہے۔

گھر کی خواہش ایسی چیز ہے جو سبھی کے دل میں موجود ہوتی ہے کہ ان کا اپنا ’ایک منفردبنگلہ ہونا چاہیے۔‘

ممبئی میں پالی ہل کا بنگلہ نمبر 48 دیکھنے والے اس کی شان و شوکت کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہ اپنے زمانے کے معروف فلم ساز اور اداکار گرو دت کے خوابوں کا گھر تھا۔ گرو دت اور گیتا دت نے مل کر یہ پرتعیش بنگلہ تعمیر کیا تھا جس کا نام بنگلہ نمبر 48 تھا۔

لیکن یہ بنگلہ 'گھر' نہ بن سکا۔ اور پھر جس چاہ سے گرو دت نے یہ بنگلہ بنوایا تھا، اسی جذبے سے مغلوب ہو کر انھوں نے ایک دوپہر اسے گرا دیا۔

گرو دت پر اپنی کتاب لکھتے ہوئے ان کی لاجواب فلموں کے ساتھ ان کی زندگی کے اس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ سوچنے پر مجبور کیا۔ ان کے بنگلے کی کہانی بھی گرو دت کی زندگی کی کہانی کی ہی طرح ہے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں ممبئی (اس وقت بمبئی) کے باندرہ (ویسٹ) میں پالی ہل ایک گھنے سایہ دار درختوں والا علاقہ تھا۔

ایک ڈھلوان پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو پالی ہل کا نام دیا گیا۔ اس دور میں پالی ہل کے زیادہ تر لوگ کاٹیجیز یا بنگلوں میں رہتے تھے۔

ان بنگلوں کے مالک شروع میں برطانوی، پارسی اور مسیحی لوگ تھے۔ بعد میں دلیپ کمار، دیو آنند اور مینا کماری جیسے فلم سٹارز وہاں رہنے لگے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پالی ہل ایک بااثر لوگوں کے مہنگے علاقے میں ترقی کرتا گیا۔

ان سب سے بہت دور سنہ 1925 میں بنگلور کے قریب پنمبر میں پیدا ہونے والے وسنت کمار شو شنکر پاڈوکون یعنی گرو دت نے اپنا بچپن سخت معاشی تنگی میں گزارا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے مسائل کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔

ان کی چھوٹی بہن للیتا لاجمی نے مجھے بتایا: بچپن میں ہمارے پاس کوئی مناسب گھر نہیں تھا۔ ہمارا بڑا سا خاندان وسائل کی کمی کی وجہ سے مسلسل مشکل حالات میں رہا۔۔۔ وہ زندگی مالی لحاظ سے بہت مشکل تھی۔

Getty Imagesدیوآنند اور گرو دت دوست تھے اور ایک دوسرے سے وعدہ کر رکھا تھا جو نبھایا بھیدیو آنند کا گھر اور گرو دت کا خواب

اس وقت گرو دت کے لیے گھر کے بارے میں سوچنا بھی دور کا خواب تھا۔ اپنے ابتدائی سال کلکتہ، الموڑہ اور پونہ میں گزارنے کے بعد قسمت انھیں ممبئی لے آئی۔

یہاں گرو دت نے اپنے دوست اداکار دیو آنند سے ملاقات کی۔ ان کی دوستی کچھ سال پہلے پونے کے پربھات سٹوڈیو میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب دیوانند بھی فلموں میں کام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

دیو آنند نے اپنی سوانح عمری 'رومانسنگ ود لائف' میں لکھا: 'ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ جس دن میں پروڈیوسر بنوں گا، میں گرو کو بطور ہدایت کار لوں گا اور جس دن وہ کوئی فلم ڈائریکٹ کریں گے، وہ مجھے ہیرو کے طور پر کاسٹ کریں گے۔'

دیو آنند کو اپنا وعدہ یاد رہا اور انھوں نے یہ خطرہ مول لیا اور اپنی فلم 'بازی' کی ہدایت کاری انھیں سونپ دی۔ یہ گرو دت کی پہلی فلم تھی۔

بھوت بنگلہ جو سپر سٹار راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کا در ثابت ہواشاہ رخ اور امیتابھ سمیت بالی وڈ کے وہ معروف اداکار جو ماضی میں شدید مالی مشکلات کا شکار ہوئےشاہ رخ کی ’منت‘ اور راجیش کھنہ کا ’آشیرواد‘: بالی وڈ ستاروں کے وہ گھر جو ان کے لیے ’خوش قسمتی‘ کا سبب بنےامبانی کے بیٹے کی شادی: ’پاکستان سے آئے‘ مہمان پولارڈ کی شرکت پر بعض فینز ناراض

فلمسٹار دیو آنند کا خوبصورت گھر پالی ہل میں تھا۔ فلم کی تیاری کے دوران گرو دت دیوانند کے پالی ہل والے بنگلے پر اکثروبیشتر جانے لگے۔

گرو دت پر اپنی کتاب 'گرو دت این انفنشڈ سٹوری' یعنی 'گرودت ایک نامکمل کہانی' کے لیے تحقیق کے دوران گرو دت کی بہن اور مشہور فنکار للیتا لاجمی نے مجھے بتایا: 'وہ بار بار دیو آنند کے بنگلے کی تعریف کرتے۔ ہم بیٹھ کر ان کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتے۔ وہ کہتے کہ گھر تو ویسا ہی ہونا چاہیے اور اپنے گھر کی خواہش ہم سب کے اندر تھی کیونکہ ہمارے پاس کبھی گھر نہیں تھا۔'

دیو آنند کے گھر آتے جاتے وقت گرودت نے اپنے دل میں یہ منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر زندگی نے انھیں موقع دیا تو وہ پالی ہل میں اپنا بنگلہ بنائیں گے اور وہ ان کے خوابوں کا گھر ہو گا۔

’میں تمہارے بھائی سے شادی کرنے جا رہی ہوں، ہم مل کر اپنا گھر بنائیں گے‘

فلم بازی کی ہدایتکاری کے دوران ان کے دل میں بنگلے کی خواہش پیدا ہوئی اور اس فلم کی تیاری کے دوران محبت نے بھی ان کے دل پر دستک دی۔

ابھرتے ہوئے ہدایت کار گرو دت اور اس وقت کی سٹار پلے بیک گلوکارہ گیتا رائے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ گرو دت کے اہل خانہ نے بھی گیتا کو بہت پسند کیا۔

گرو دت کی بہن للیتا لاجمی نے بتایا: 'گیتا ایک سٹار تھیں۔ لیکن سادگی پسند تھیں اسی لیے ہم دوست بن گئے۔ وہ میرے بہت قریب تھیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ 'امیا کٹیر' (ہماری جھونپڑی) نامی بنگلے میں رہتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات اپنے بنگلے کی بالکونی میں کھڑی گیتا نے مجھ سے کہا، 'میں تمہارے بھائی سے شادی کرنے جا رہی ہوں۔ ہم مل کر اپنا گھر بنائیں گے۔'

دونوں کی شادی 26 مئی 1953 کو ہوئی۔ شادی کے وقت بھی گیتا رائے گرو دت سے زیادہ مقبول تھیں۔

گیتا رائے نے اپنا نام بدل کر گیتا دت رکھ لیا۔ تاہم جیسے جیسے زندگی آگے بڑھی انھیں احساس ہونے لگا کہ تبدیلی صرف ان کے نام میں نہیں آئی ہے بلکہ ان کی زندگی میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔

گرو دت چاہتے تھے کہ گیتا صرف ان کی فلموں میں گلوکاری کریں۔ گرو کا کریئر بھی بہت تیزی سے آگے بڑھنے لگا تھا۔

'آر پار'، 'مسٹر اینڈ مسز 55' اور پھر 'پیاسا' کی کامیابی سے چند ہی سالوں میں ان کا شمار ہندی سنیما کے کامیاب ترین فلمسازوں میں ہونے لگا۔

جبکہ گیتا کا کریئر شادی کے بعد رک سا گیا۔

للیتا لاجمی نے مجھے بتایا تھا کہ گیتا اپنے کریئر پر زیادہ توجہ دینا چاہتی تھیں لیکن گرو چاہتے تھے کہ وہ گھر، خاندان اور بچوں کا خیال رکھیں اور صرف ان کی فلموں میں گانے گائیں۔

گیتا کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس بات پر دونوں کے درمیان جھگڑے ہوتے تھے اور شروع میں دونوں انھیں حل کر لیتے تھے۔

جب خواب حقیقت بن گیا

پھر ایک دن گرو دت نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا کہ پالی ہل میں ایک پرانا بنگلہ فروخت ہو رہا ہے۔

انھوں نے اسے ایک لاکھ روپے میں خرید لیا جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی۔ اس کا پتا تھا: بنگلہ نمبر 48، پالی ہل۔یہ گرو دت کے خواب کا پتہ تھا جو اب حقیقت بن چکا تھا۔

دیو آنند کے بنگلے سے بھی بڑا یہ بنگلہ تقریباً تین بیگھہ اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ گھنے درختوں اور باغات سے گھرا ہوا تھا۔

گرو دت اور گیتا دت نے اسے گھر بنانے کے لیے کافی وقت اور پیسہ خرچ کیا۔ کشمیر سے لکڑی، لندن سے قالین اور غسل خانوں کے لیے خالص اطالوی ماربل منگوائے۔

گرو دت کی والدہ وسنتی نے اپنی کتاب 'مائی سن گرو دت' میں لکھا: 'پالی ہل پر واقع بنگلہ ایک خوبصورت گھر میں تبدیل ہو گیا تھا جس کے سامنے ایک بڑا باغتھا۔ سیڑھیوں سے مغرب کی طرف سے سمندر اور غروب آفتاب نظر آتا تھا۔ اس نے ہر قسم کے کتے، خوبصورت پرندے، ایک سیامی بلی اور ایک بندر بھی پال رکھا تھا۔ وہ پولٹری فارم بھی شروع کرنا چاہتا تھا۔'

دوسرے بیٹے ارون کی پیدائش کے بعد گرو دت اور ان کا خاندان اپنے کھاروالے فلیٹ سے پالی ہل کے بنگلے نمبر 48 میں منتقل ہو گئے۔

خوشیوں سے بھرے اس خاندان میں گرو اور گیتا کے دو بچے تھے اور انھیں کامیابی اور خوشگوار زندگی کی آرزو تھی۔

ابتدائی سالوں میں یہ بنگلہ سینکڑوں کہانیوں، فلمی مباحثوں، پارٹیوں اور موسیقی کی شاموں کا گہوراہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن انھی سالوں میں گرو دت اور گیتا کے درمیان تعلقات خراب ہوتے گئے۔

اب گرو دت سٹار تھے اور گیتا پیچھے رہ گئی تھیں

گرو دت اب ایک سٹار ڈائریکٹر تھے جبکہ گیتا کا سٹارڈم ان چند سالوں میں تیزی سے کم ہوا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے نے پلے بیک سنگنگ میں تیزی سے ابھرنا اور قدم جمانا شروع کر دیے تھے۔ گیتا اس دوڑ میں پیچھے رہ گئیں، انھیں ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ پرانے زمانے کی گلوکارہ بن گئی ہوں۔

گرو دت کام میں مگن رہتے۔ اب ان کا اپنا سٹوڈیو تھا اور وہ مسلسل فلمیں پروڈیوس کر رہے تھے۔

ان کے پاس گیتا کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا۔ اداکاراؤں کے ساتھ ان کے تعلقات کے بھی فلمی حلقوں میں بہت چرچے ہونے لگے۔

میری کتاب 'گرو دت این انفنشڈ سٹوری' کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں للیتا لاجمی نے بتایا: 'گیتا شکی قسم کی تھیں اور حسد کا شکار ہو گئیں۔ ایک فلمساز یا اداکار کئی اداکاراؤں کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن گیتا کے لیے یہ قبول کرنا مشکل تھا۔

'لڑائیاں بڑھتی گئیں۔ تنہائی سے زیادہ سٹارڈم کھونے کے احساس نے بھی گیتا کو گھیر لیا۔ ذاتی اور پیشہ ورانہ مایوسیوں سے نمٹنے سے قاصر، گرو دت نے شراب نوشی میں سکون تلاش کیا۔'

گرو دت کی والدہ وسنتی نے اپنی کتاب 'مائی سن گرو دت' میں لکھا: 'انھوں نے ایک گھر بنایا لیکن مصروفیت کی وجہ سے گرو دت اپنے گھر پر توجہ نہیں دے سکے۔'

اب وہ اس گھر میں سو بھی نہیں سکتے تھے جو کہ بمبئی کے پرائم ریئل سٹیٹ کے خوبصورت ترین بنگلوں میں سے ایک تھا۔

گرو دت کے دوست مصنف بمل مترا اپنی کتاب 'بینیدرا' میں لکھتے ہیں کہ گرو دت نے ایک بار ان سے کہا تھا: 'میں ہمیشہ اپنے گھر میں خوش رہنا چاہتا تھا۔ میرا گھر پالی ہل کی تمام عمارتوں میں سب سے خوبصورت ہے۔ اس گھر میں بیٹھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ آپ بمبئی میں ہیں۔ مجھے وہ باغ، وہ ماحول اور کہاں ملے گا؟ اس کے باوجود میں اس میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔'

اکثر وہ صبح سویرے نیم غنودگی کے عالم میں اپنے سٹوڈیو پہنچ جاتے۔ یہاں وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں خاموشی سے لیٹ جاتے اور یہیں سو جاتے تھے۔

کبھی کبھی سکون کی تلاش میں وہ بمبئی سے بھاگ کر لونا والا میں اپنے فارم ہاؤس چلے جاتے اور وہاں کئی دنوں تک کھیتی باڑی کرتے رہتے۔

بنگلے میں ایک بھوت رہتا ہے!

گرو دت اور گیتا دت کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہدایت کار گرو دت نے گیتا کے ساتھ بطور ہیروئن ایک بڑی فلم 'گوری' شروع کی۔

لیکن شوٹنگ کے دوران ہی دونوں کے درمیان لڑائی اتنی بڑھ گئی کہ 'گوری' کو گرو دت نے ابتدائی شوٹنگ کے بعد ہی ترک کر دیا۔ یہ ان کے تعلقات میں ایک بڑا جھٹکا تھا۔

گیتا تیزی توہم پرست ہونے لگیں۔ انھوں نے اپنے بگڑتے تعلقات کا ذمہ دار بنگلے کو ٹھہرانا شروع کر دیا۔

انھیں یقین ہو چلا تھا کہ جب سے وہ پالی ہل کے اس بنگلے میں شفٹ ہوئے ہیں تب سے ان کے گرو کے ساتھ تعلقات میں ایک ناقابل تلافی دراڑ پیدا ہو گئی ہے۔

وہ یہ ماننے لگیں کہ بنگلہ نمبر 48 ان کی شادی شدہ زندگی میں نحوست کی وجہ ہے۔

للیتا لاجمی گرو اور گیتا کے رشتے کی ان کی ابتدائی ملاقات سے لے کر آخر تک گواہ رہیں۔۔ انھوں نے بتایا: 'گیتا نے یہ ماننا شروع کر دیا تھا کہ بنگلے پر سایہ ہے۔ گھر کے لان میں ایک خاص قسم کا درخت تھا اور وہ کہتی تھی کہ اس درخت پر کوئی بھوت رہتا ہے جو ان کی شادی برباد کر رہا ہے۔ اس کے بڑے ڈرائنگ روم میں مہاتما بدھ کا مجسمہ بھی تھا جس پر انھیں کچھ اعتراضات بھی تھے۔ دونوں کے درمیان بہت لڑائی ہوتی تھی۔ اس نے بار بار گرو سے بنگلہ چھوڑ کر کہیں اور رہنے کو کہا۔'

یہ بات ہی گرو دت کے لیے دل شکن تھی۔ یہ ان کے خوابوں کا گھر تھا۔ لیکن گرو دت اس کڑوے سچ کو جان گئے کہ یہ وہ گھر نہیں جو وہ چاہتے تھے۔

للیتا لاجمی نے اپنے انٹرویو کے دوران بتایا: 'گرودت آخر کار بنگلہ چھوڑنے پر راضی ہو گئے جیسا کہ گیتا چاہتی تھی۔ لیکن ان کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ صرف گیتا پر الزام لگاتے تھے۔'

کشیدگی اس قدر بڑھی کہ گرو دت نے اسی بنگلے میں رہتے ہوئے دو بار خودکشی کی کوشش کی جہاں انھوں نے انڈین سنیما کی یادگار فلمیں بنائی تھیں۔

للیتا لاجمی بتاتی ہیں کہ کہ گرو دت کی جان دونوں بار بڑی مشکل سے بچائی جا سکی۔ انھوں نے بتایا: ’کئی بار جب گیتا سے لڑائی ہوتی تھی تو وہ مجھے فون کرتے تھے۔ میں آدھی رات کو ان کے پاس بھاگی آتی۔ لیکن وہ خاموش بیٹھے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن وہ خاموش بیٹھے رہتے۔ کبھی کچھ نہیں کہا۔ کبھی نہیں۔'

جس شخص نے دو بار خودکشی کی کوشش کی اس نے کبھی اپنے گھر والوں سے اس بارے میں بات بھی نہیں کی۔ پھر 1963 میں اپنی سالگرہ کے موقع پر گرو دت نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔

’بنگلہ گرا دیا جائے‘

ایک دوپہر گیتا اسی بنگلے میں سو رہی تھی جب انھیں کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے دیکھا کہ کچھ مزدور بنگلے کی دیوار توڑ رہے ہیں۔ انھوں نے فوراً گرو دت کو سٹوڈیو میں فون کیا۔

گرو دت نے گیتا سے کہا: انھیں توڑنے دو گیتا۔ میں نے ہی انھیں کہا ہے۔ ہم کچھ دن ہوٹل میں رہیں گے۔ میں نے پہلے ہی ایک کمرہ بک کر رکھا ہے۔

گیتا اور ان کے بچوں نے سوچا کہ گرو شاید کوئی تعمیراتی کام کروا رہے ہیں اور جیسے ہی یہ مکمل ہو جائے گا وہ سب اس بنگلے میں واپس آ جائیں گے۔

گرو دت نے یہ سب کچھ ایسی لاپرواہی سے کہا جیسے کسی فلم کا سیٹ شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد گرایا جا رہا ہو۔ لیکن اس بار یہ سیٹ فلمی نہیں تھا۔

جس بنگلے کو انھوں نے اپنا 'گھر' بنانے کا خواب دیکھا تھا اسے منہدم کیا جا رہا تھا۔ چند ہی دنوں میں بنگلہ نمبر 48 زمین بوس ہو گیا۔ بنگلے کے ملبے میں کمروں کی دیواریں، ٹوٹے ہوئے نیلے سنگ مرمر، بکھری لکڑیاں اور پلاسٹر کے ٹکڑے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ایک خواب کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بھی تھے۔

گرو دت کی بہن للیتا لاجمی بتاتی ہیں: 'مجھے یاد ہے کہ اس دن ان کی سالگرہ تھی، وہ اس بنگلے سے محبت کرتے تھے اور جب اسے گرایا گیا تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کے دل پر کیا گزری ہو گی۔'

کتاب 'بینیدرا' میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے دوست اور 'صاحب بی بی اور غلام' کے مصنف بمل مترا سے کہا تھا کہ میں نے اپنی بیوی گیتا کی وجہ سے بنگلہ گرا دیا ہے۔

بنگلہ نمبر 48 کے گرنے کے بعد گرو دت کی زندگی اور ان کے خاندان کی خوشیاں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ جیسے کم ہونے لگیں۔

بنگلہ چھوڑنے کے بعد گرو دت اپنی اہلیہ گیتا اور بچوں کے ساتھ پالی ہل میں دلیپ کمار کے بنگلے کے سامنے آشیش نامی عمارت میں شفٹ ہو گئے۔ لیکن ان کے اور گیتا کے تعلقات میں بہتری نہیں آئی۔

کچھ عرصے بعد گیتا اپنے بچوں کے ساتھ باندرہ میں ایک اور کرائے کے مکان میں چلی گئیں۔

اپنے عظیم الشان بنگلے کی یادوں کو پیچھے چھوڑ کر گرو دت بمبئی کے پیڈر روڈ پر واقع آرچ رائل اپارٹمنٹ میں اکیلے رہنے لگے۔

'مائی سن گرو دت' میں گرو دت کی ماں نے لکھا ہے: 'گرو کے ستارے آسمان پر تھے۔ اس نے اپنا خوبصورت بنگلہ تباہ کر دیا۔ جب سے بنگلہ منہدم ہوا گرو کی خاندانی زندگی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔'

تقریباً ایک سال بعد 10 اکتوبر کی صبح گرو دت اسی فلیٹ میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے للیتا لاجمی بتاتی ہیں کہ اگر خوشگوار گھر بنا ہوتا تو ان کا بھائی اتنی جلدی اپنے انجام کو نہ پہنچتا۔

گرو دت اپنی فلموں کے ذریعے امر ہو گئے لیکن اب بنگلہ نمبر 48 کا کوئی نشان نہیں ہے۔

گرو دت نے کہا تھا کہ 'گھر ہونے کا درد گھر نہ ہونے کے درد سے زیادہ ہوتا ہے۔'

بھوت بنگلہ جو سپر سٹار راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کا در ثابت ہواماضی کی سہانی یاد والی پرانی ہٹ فلمیں انڈین سنیما پر پھر سے کیسے دھوم مچا رہی ہیں؟دیو آنند: جنھیں انڈیا سے لاہور لانے کے لیے نواز شریف نے واجپائی سے فرمائش کیوحیدہ رحمان کے لیے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ: ’چودھویں کے چاند کو یہ ایوارڈ دینا حق بجانب ہے‘جب دلیپ کمار فلم ’پیاسا‘ کے لیے گرو دت کو زبان دے کر پھر گئےشعلے فلم کے ’رحیم چاچا‘ جنھوں نے کراچی میں درزیوں کی ہڑتال کروائی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More