کراچی میں کارساز روڈ پر گذشتہ ماہ ہونے والے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی جانب سے معاف کیے جانے کا حلف نامہ جمع کروانے کے بعد عدالت نے ملزمہ نتاشہ کی اقدامِ قتل کے مقدمے میں ضمانت منظور کر لی ہے۔
عدالت میں جمع کروائے گئے حلف نامے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فریقین میں معاملات طے پا گئے ہیں۔
اس مقدمے کے مدعی اور حادثے میں ہلاک ہونے والے عمران عارف کے بھائی امتیاز عارف نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ لواحقین نے ملزمہ نتاشہ کو ’فی سبیل اللہ معاف کیا ہے‘ اور ایسا بغیر کسی معاوضے کہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل نتاشہ کی فیملی بھابھی کے پاس آئی تھی اور تعزیت کی تھی اور معذرت طلب کی تھی۔ میری بھابھی کا دل بڑا ہے انھوں نے انھیں معاف کر دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لواحقین کے پاس تین آپشن تھے، قصاص، دیت اور فی سبیل اللہ، جس میں سے انھوں نے تیسرا آپشن منتخب کیا اور بغیر کسی معاوضے کی معافی دے دی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کی حمایت کے شکر گزار ہیں ’لیکن فیصلہ فیملی نے ہی لینا تھا۔‘
نتاشہ کے وکیل عامر وڑائچ نے عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نتاشہ کی ضمانت ایک لاکھ روپے جبکہ ان کے شوہر دانش اقبال کی ضمانت پچاس ہزار کے مچلکوں کے عوض منظور کی گئی ہے۔‘
خیال رہے کہ یہ حادثہ 19 اگست کو اس وقت ہوا جب موٹر سائیکل پر سوار عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کو عقب سے آنے والی ایک گاڑی نے ٹکر ماری جس کے نیتجے میں دونوں باپ بیٹی ہلاک ہو گئے۔
کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشہ کی وائرل تصویر کی حقیقت کیا ہے؟کارساز حادثے میں ہلاک ہونے والے باپ بیٹی: ’آمنہ خوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد اسے ترقی مل جاتی‘سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کے خلاف ’ہٹ اینڈ رن‘ کیس: ملزمہ کی دو برس بعد عدالت میں پیشی اور ضمانت کیسے ممکن ہوئی؟کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں چھ افراد کی ہلاکت: کیا ایسے بچوں اور ان کے والدین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟
اس حادثے کے بعد منظر عام پر آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سروس روڈ پر ایک تیز رفتار گاڑی موٹر سائیکل سواروں کو کچل رہی ہے۔ اس گاڑی نے موٹرسائیکل سواروں کو کچلنے کے بعد آگے جا کر ایک اور گاڑی کو بھی ٹکر ماری تھی اور چار مزید افراد کو بھی زخمی کیا تھا۔
اس واقعے کا مقدمہ پروفیسر امتیاز عارف کی ہی درخواست پر درج کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 19 اگست کو شام چھ بج کر45 منٹ پر انھیں حادثے کی اطلاع ملی تو وہ ہسپتال پہنچے جہاں علم ہوا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کی ڈرائیور ایک خاتون تھیں۔
اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں جن میں دیکھا گیا کہ مشتعل لوگ ایک خاتون کو گھیرے ہوئے ہیں جبکہ بعد میں انھیں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
یاد رہے کہ 31 اگست کو ملزمہ نتاشہ دانش پر ریاست کی مدعیت میں منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس پر جمعے کو دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو پیر نو ستمبر کو سنایا جائے گا۔
’ریاست مدعی کیوں نہ بنی‘
حادثے کے فوراً بعد ملزمہ کے وکلا نے ان کی ذہنی حالت خراب ہونے کا دعویٰکیا اور بعد میں آئی جی سندھ کی جانب سے مقامی اخبار ڈان کو اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ملزمہ کہ خون کے نمونے میں آئس کی موجودگی ثابت ہوئی ہے۔ اس کے بعد ملزمہ کے خلاف ریاست کی مدعیت میں منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم ساتھ ہی سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا دور بھی چلا جس میں ملزمہ نتاشہ کی ایک ایسے تصویر وائرل ہوئی جو دراصل مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی تھی۔
تاہم آج جب سے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی جانب سے ملزمہ کو ’معاف کرنے‘ کی خبر سامنے آئی ہے تو ایک مرتبہ پھر سے صارفین کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایک صارف کی جانب سے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’یہ متوقع تھا کیونکہ ورثا کا خاندان ملزمہ کے خاندان کے ساتھ ہم پلہ ہو کر مقدمہ نہیں لڑ سکتا تھا۔‘
صارف شاہد صدیقی نے کہا کہ ’اس ناانصافی کے نظام اور معاشی بدحال کے درمیان، ہمارے پاس انھیں روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ ریاست کے لیے کتنی شرمندگی کی بات ہے۔ خاندان کو مدعی کے طور پر کیوں لیا گیا، ریاست مدعی کیوں نہ بنی۔‘
ہلاک ہونے والے عمران عارف اور آمنہ عارف کون ہیں؟
حادثے میں ہلاک ہونے عمران عارف کے والد شہزاد منظر روزنامہ مساوات کے اسٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اخبار کو پیپلز پارٹی سے قربت کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ قلمی نام تبسم سے جنگ اور اخبار جہاں میں بھی لکھتے رہے۔
پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے میں ہلاک ہونے والے ان کے بڑے بھائی عمران عارف موٹر سائیکل پر بچوں کے چپس اور پاپڑ سپلائی کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ آمنہ عارف تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ آمنہ نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال قبل نوکری شروع کی تھی اور اقرا یونیورسٹی کی بزنس ڈگری بھی پوری ہونے کے قریب تھی۔
’وہ اپنی یونیورسٹی کے اخراجات خود پورا کرتی تھی۔ بیچلر کے بعد اس نے اپنے والد سے ذاتی اخراجات کے لیے پیسے نہیں لیے بلکہ اپنی تنخواہ گھر پر خرچ کرتی تھی۔ اس نے ہی گھر کا رنگ و روغن کروایا، پردے تبدیل کروائے۔‘
آمنہ عارف کے ساتھ کام کرنے والے ایک سنیئر ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’آمنہ عارف بہت محنتی اور لائق تھیں۔‘
’اس نے بہت کم عرصے میں کام پر عبور حاصل کر لیا تھا اور ہر پراجیکٹ میں بہت اچھے نتائج دیئے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں سیکھنے کی بہت صلاحیت تھی۔‘
آمنہ عارف کے سینیئر ساتھی کا کہنا تھا کہ انھوں نے حال ہی میں ایک پراجیکٹ مکمل کیا تھا اور وہ ایک دوسرے پراجیکٹ پر کام شروع کر چکی تھیں۔ ’حادثے والے دن بھی وہ اسی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھیں۔‘
کارساز حادثے میں ہلاک ہونے والے باپ بیٹی: ’آمنہ خوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد اسے ترقی مل جاتی‘کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشہ کی وائرل تصویر کی حقیقت کیا ہے؟سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کے خلاف ’ہٹ اینڈ رن‘ کیس: ملزمہ کی دو برس بعد عدالت میں پیشی اور ضمانت کیسے ممکن ہوئی؟15 سال کوما میں گزارنے کے بعد وفات پانے والی فاخرہ احمد: ’ایسا لگتا تھا وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے‘کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں چھ افراد کی ہلاکت: کیا ایسے بچوں اور ان کے والدین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟گاڑی سے دو افراد کو ہلاک کرنے والا ’نابالغ ملزم‘ جسے حادثے پر مضمون لکھنے کی شرط پر ضمانت مل گئی