ہوالدیمیر: پوتن کی ہمنام ’روسی جاسوس‘ وہیل کی موت ’گولی لگنے سے ہوئی‘

بی بی سی اردو  |  Sep 05, 2024

جانوروں کی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے دعویٰ کیا ہےکہ ناروے کے ساحل پر مردہ حالت میں ملنے والے مشتبہ روسی جاسوس وہیل کو گولی ماری گئی تھی۔

’ہوالدیمیر‘ کی عرفیت سے مشہور اس وہیل کو ناروے کے جنوب مشرقی ساحل پر یکم ستمبر کو مردہ حالت میں پایا گیاتھا جس کے بعد اسے تفصیلی جائزے کے لیے نزدیکی بندر گاہ لے جایا گیا تھا۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا تھا وہیل کے جسم پر گولیاں لگنے کے نشان پائے گئے ہیں اور اسے گولی مارنا ایک ’گھناؤنا جرم‘ ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ون وہیل کی بانی رگینا ہوگ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ’ہم ہوالدیمیر کو انصاف دلانے کی کوشش کریں گے‘

ون وہیل نامی تنظیم کا قیام اس بلیوگا وہیل کی نگرانی کے لیے اس وقت ہوا تھا جب پانچ برس قبل اسے ناورے کے سمندروں میں دیکھا گیا اور اسے اس وقت شہرت ملی تھی۔

اس کے ساتھ ایک کیمرہ نصب تھا جس پر ایک مختصر تحریر درج تھی: ’سینٹ پیٹرزبرگ کی ملکیت۔‘ ایسے میں یہ افواہیں پھیل گئی تھیں کہ یہ جانور ایک جاسوس وہیل ہو سکتی ہے اور ماہرین کے مطابق ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ مچھلیوں کو جاسوسی کے مقاصد سے استعمال کیا جا چکا ہے۔ روس کی جانب سے ایسے الزامات پر کبھی موقف نہیں دیا گیا۔

بلیوگا وہیل ’ہوالدیمیر‘ کا نام روسی صدر ولادیمیر پوتن اور نارویجین زبان میں وہیل کے الفاظ پر ہے، نارویجین زبان میں وہیل کو ’ہوال‘ کہا جاتا ہے جبکہ ’لادیمیر‘ روسی صدر لے پہلے نام سے اخذ کیا گیا ہے۔

نوح اور ون وہیل نامی تنظیموں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کے قتل کے متعلق درخواست ناروے کی پولیس کو درج کرواتے ہوئے اس واقعے کی مجرمانہ تحقیقات کرنے کا کہا ہے۔

ون وہیل کی بانی رگینا ہاگ نے بلیوگا وہیل کے مردہ جسم کا معائنہ کرنے کے بعد اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر کہا کہ ’اس کے جسم پر گولیوں کے متعدد زخم تھے۔‘

ون وہیل کی جانب سے سوشل میڈیا پر شائع کردہ تصاویر میں ہوالدیمیر کے جسم پر گولیوں کے نشانات دکھائے گئے ہیں۔

نوح کے ڈائریکٹر سری مارٹنسن کا کہنا تھا کہ ’وہیل کے جسم پر زخم تشویشناک اور اس نوعیت کے تھے کہ کسی مجرمانہ فعل کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پریشان کن ہے۔‘

لیکن میرین مائنڈ نامی تنظیم جسے یہ بلیوگا وہیل مردہ حالت میں ملی تھی کا کہنا ہے کہ ’فوری طور پر اس کی موت کی وجہ کے متعلق کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔‘

میرین مائنڈ کے ڈائریکٹر سباشین سٹراینڈ نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ ’ہم نے زخموں کے نشان دیکھے ہیں لیکن ابھی اس کی موت کی وجہ سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اس بلیوگا وہیل کے پوسٹ مارٹم کے لیے سوموار کو قریبی ویٹرنیری ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اور اس ویٹرنیری ہسپتال کے ترجمان کے مطابق پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اگلے تین ہفتوں میں متوقع ہے۔

پولیس نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ ’وہ اس معاملے کی جانچ کریں گے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس کی مجرمانہ تفتیش کرنے کے لیے کافی وجوہات موجود ہیں یا نہیں۔‘

ماضی میں میرین مائنڈ اور ون وہیل نامی تنظیمیں ہوالدیمیر کو درپیش مشکلات سے نکالنے اور اس کی حفاظت کے معاملے پر اختلاف کرتی رہے ہیں۔

ون وہیل نامی تنظیم کا کہنا تھا کہ اسے ناروے کے شمالی دریا بیرنٹس میں منتقل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ بلیوگا نسل کی وہیل کے لیے زیادہ قدرتی ماحول فراہم کرتا ہے اور وہاں بحری جہازوں سے ٹکرا پر مرنے کا خطرہ بھی کم ہے۔

لیکن میرین مائنڈ اس تجویز کے خلاف تھی اور اس کا ماننا تھا کہ اگر اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کیا گیا تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

روس کی ’جاسوس وہیل‘

ہوالدیمیر کی عمر کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ 15 برس کی تھی۔ بیلوگا وہیل کی اوسط عمر کے حساب سے یہ زیادہ عمر نہیں کیوں کہ ان کی عمر 60 برس تک پہنچ سکتی ہے۔

2019 میں پہلی بار یہ مچھلی ناروے کی کشتیوں کے قریب اس مقام پر دکھائی دی تھی جہاں سے روس کا مرمانسک نامی بحری اڈہ تقریباً 415 کلومیٹر دور ہے۔

یہ اس لیے حیران کن تھا کیوں کہ اس قسم کی وہیل جنوب میں اتنے زیادہ فاصلے پر کم ہی نظر آتی ہیں۔

اس دریافت کے بعد ناروے کی خفیہ ایجنسی نے باقاعدہ طور پر تفتیش کرنے کے بعد کہا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ وہیل روسی تربیت یافتہ ہے کیوں کہ یہ انسانوں سے بہت مانوس ہے۔

ناورے میں ہی اس وہیل کو ’ہوالدیمیر‘ کا نام دیا گیا جو مقامی زبان میں ہوال یعنی ’وہیل‘ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے نام کو جوڑ کر طنزیہ طور پر بنایا گیا۔

واضح رہے کہ روس نے ڈولفن مچھلیوں کو عسکری مقاصد کے لیے ماضی میں استعمال کیا ہے اور بارینٹس آبزورو ویب سائٹ نے مرمانسک بحری اڈے کے شمال مغربی علاقے میں وہیل مچھلیوں کے لیے مخصوص مقامات کی تعمیر کی شناخت کی تھی۔

Getty Imagesروس نے ڈولفن مچھلیوں کو عسکری مقاصد کے لیے ماضی میں استعمال کیا ہے

تاہم روس نے آج تک ان دعوؤں کے بارے میں کوئی موقف نہیں دیا ہے کہ ہوالدیمیر کو روسی فوج نے جاسوسی کی تربیت دی ہے۔ ماضی میں بھی روس کی جانب سے جانوروں کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے دعووں کی تردید کی ہے۔

سرد جنگ کے دوران جب پاکستانی فضائی اڈہ امریکہ کے زیراستعمال ہونے کا راز کھلاروس کی ہتھیاروں سے لیس ’جنگجو ڈولفن‘ کیا حقیقت میں وجود رکھتی ہیں؟جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روسی لڑاکا طیارہ مگ-21 چرایاجب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایاروس کی ’جنگجو ڈولفن‘

میڈیا میں اکثر ایسی لڑاکا ڈولفن کا ذکر ہوتا ہے جنھیں مبینہ طور پر روس سیواسٹاپول بے نامی بحری اڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اندرے ریزینکو عسکری امور کے ماہر ہیں جن کا بچپن سیواسٹاپول میں گزرا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈولفن قدرتی ریڈار کی حامل ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہ پانی کے نیچے لوگوں اور اشیا کی موجودگی کافی فاصلے سے ہی شناخت کر سکتی ہیں۔

اندرے ریزینکو کے مطابق چند تربیت یافتہ ڈولفن روسی بحریہ کے سپرد کر دی گئیں اور 1975 سے ان کو روسی بحری اڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان کا دعوی ہے کہ یہ ڈولفن ایک ہتھیار سے لیس ہوتی ہیں اور کسی کو ہلاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں خصوصا ایسے غوطہ خور ڈائیورز کو جو روسی بحری جہازوں کو تباہ کرنے کے ارادے سے زیر سمندر آ سکتے ہوں۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ان ڈولفن پر ایک نیزہ نصب کیا جاتا ہے اور انھیں تربیت دی جاتی ہے کہ کیسے زیر سمندر کسی غوطہ خور کے سینے میں اسے گھونپا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 1980 میں سیواسٹاپول کے بحری سکول میں انھوں نے یہ آلہ دیکھا تھا۔ تاہم حقیقت میں اب تک ان ڈولفن کی جانب سے کسی کے خلاف کارروائی کے شواہد نہیں ہیں۔

مغربی خفیہ ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ 2014 سے روس نے عسکری مقاصد کے لیے ڈولفن کا دوبارہ استعمال شروع کیا۔

2022 میں سیٹلائیٹ تصاویر کی مدد سے دیکھا گیا کہ روس نے سیواسٹاپول بندرگاہ کے باہر ڈولفن کے پنجرے رکھے ہوئے تھے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی کی جانب سے تازہ ترین تصاویر میں نئی پنجرے بھی دیکھے گئے ہیں۔

اگرچہ اب تک ڈولفن کے کامیاب عسکری استعمال کے ٹھوس شواہد دستیاب نہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال ممکن ہے۔

جب امریکہ نے جاسوسی کے لیے کبوتر استعمال کیےپاکستان میں خفیہ اداروں کو شہریوں کی کالز اور پیغامات تک کیسے رسائی ملتی ہے؟’کار سپیکر میں چھپا ٹرانسمیٹر۔۔۔‘ وہ خفیہ مقام جہاں برطانوی جاسوسوں کے لیے خصوصی آلات بنتے ہیںآپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیاسمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟ہنی ٹریپ: ماتا ہری سے جُڑی فوجی افسران کی جاسوسی کی روایت جس نے انڈیا کو ’پریشان‘ کیا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More