Getty Images
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ شب ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اب تک 39 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ حملے بلوچستان کے دس سے زائد اضلاع میں کیے گئے جن میں سب سے زیادہ، 22 ہلاکتیں ضلع موسیٰ خیل میں ہوئیں۔ سرکاری حکام نے اب تک قلات سے 11 افراد اور ضلع کچھی کے علاقے بولان میں چھ کے قتل کی تصدیق کی ہے۔
کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے ان حملوں کے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے حملوں کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کارروائی میں اب تک 12 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسند اور ان کے سہولت کار عبرتناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔
یہ حملے بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے اور اس آپریشن کو کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے ’آپریشن ھیروف‘ کا نام دیا گیا ہے۔
BBCگذشتہ شب ہونے والے بڑے حملے
گذشتہ رات ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں سب سے زیادہ نقصان موسیٰ خیل، لسبیلہ، قلات اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں ہوا ہے۔
اب تک ہونے والے حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان موسیٰ خیل میں ہوا جہاں مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی متعدد گاڑیوں کو روک ان سے لوگوں کو اتار کر شناخت کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
موسیٰ خیل میں پولیس کے سربراہ محمد ایوب اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’راڑہ ہاشم علاقے میں ہونے والے اس حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے اس علاقے میں 18 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا جن میں مسافر بس، ٹرک اور دیگر گاڑیاں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گاڑیوں پر فائرنگ کے علاوہ بعض کو نذرآتش بھی کیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟پنجابی مزدور، پنجابی دانشورآپریشن مرگ بر سرمچار: پاکستان کو فوری ردعمل دینے پر کس بات نے مجبور کیا اور یہ معاملہ کہاں جا کر رُکے گا؟’شدت پسندی سے 19 فیصد زیادہ اموات‘ کیا پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟
اسسٹنٹ کمشنر موسیٰ خیل نجیب اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان چلنے والی مختلف گاڑیوں میں سفر کرنے والے افراد کے شناختی کارڈز دیکھنے کے بعد متعدد افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق فائرنگ سے پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ انھیں طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے ڈیرہ غازی خان منتقل کیا گیا ہے۔
موسیٰ خیل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے شمال مشرق میں اندازاً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر پنجاب کے قریب واقع ہے۔
اس علاقے کی آبادی کی غالب اکثریت پشتونوں کے موسیٰ خیل قبیلے پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے شورش سے متاثرہ اضلاع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی بھی اس ضلع کے قریب واقع ہیں۔
Getty Imagesقلات میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد کی ہلاکت
گذشتہ شب قلات شہر کے قریب ایک ہوٹل اور گھر پر حملے کے علاوہ مسلح افراد نے لیویز فورس کے ایک تھانے پر بھی حملے کیا۔
گذشتہ شب قلات کے ایس ایس پی دوستین دشتی نے ان حملوں میں اسسٹنٹ کمشنر قلات آفتاب لاسی کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
قلات میں مہلبی میں لیویز فورس کے تھانے پر حملے کے علاوہ ایک قبائلی شخصیت زبرمحمد حسنی کے گھر اور ہوٹل پر بھی حملے کیے گئے۔ قلات ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ شب ہونے والے حملوں کے حوالے سے مجموعی طور پر 11 افراد کی لاشیں ہسپتال لائی گئیں جن میں سے لیویز فورس کے چار اور پولیس کے ایک اہلکار کی لاش شامل ہے۔
ان حملوں میں چھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اُدھر قلات سے متصل ضلع مستونگ میں کھڈکوچہ میں بھی لیویز فورس کے تھانے پر حملہ کیا گیا۔ مستونگ میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
قلات اور مستونگ میں کوئٹہ اور کراچی ہائی وے پر مسلح افراد کی موجودگی اور ان حملوں کی وجہ سے ٹریفک کئی گھنٹوں تک معطل رہی۔
تاہم سرکاری حکام کے کہنا ہے کہ آج صبح دس بجے ہائی وے پر ٹریفک بحال ہو گئی ہے۔
مستونگ کوئٹہ سے 50 کلومیٹر جبکہ قلات 150 کلومیٹر پر جنوب میں واقع ہیں۔ ان دونوں علاقوں کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔
’بولان کے علاقے سے چھ افراد کی لاشیں برآمد کی گئیں‘
ضلع کچھی کے علاقے بولان سے چھ افراد کی لاشیں برآمد کی گئیں۔
کچھی پولیس کے سربراہ دوست محمد بگٹی نے فون پر بتایا کہ اس علاقے میں نامعلوم افراد نے ریلوے کے ایک پل کو دھماکہ خیزمواد سے تباہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ان افراد کی لاشیں اسی متاثرہ پل کے قریب تھیں جن میں سے دو ابھی تک پل کے ملبے میں پھنسی ہوئی ہیں جبکہ چار لاشوں کو نکال کر شناخت کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ مارے جانے والے یہ چھ لوگ سویلین تھے۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ اس علاقے میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی حملہ ہوا جس میں نقصان بھی ہوا ہے تاہم سرکاری حکام نے سکیورٹی فورسز پر حملے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
BBCلسبیلہ اور دیگر علاقوں میں حملے
گذشتہ شب ضلع لسبیلہ میں بھی ایف سی کے ایک کیمپ پر حملہ ہوا ہے۔
سرکاری حکام نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رات گئے تک سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا لیکن تا حال سرکاری سطح پر کسی نقصان کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
تاہم سرکاری حکام نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں حملہ آور مارے گئے۔
ادھر ضلع گوادر میں جیونی کے علاقے میں سنٹ سر پولیس سٹیشن پر بھی گذشتہ شب مسلح افراد نے حملہ کیا۔
مکران پولیس کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آوروں نے تھانے کے باہر تین گاڑیوں کو نذرآتش کیا جن میں سے دو پولیس کی تھیں جبکہ تیسری گاڑی ایک مقدمے کے حوالے سے تحویل میں لی گئی تھی۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ حملہ آور تھانے سےپولیس اہلکاروں کا اسلحہ بھی لے گئے ہیں۔
ان حملوں کے علاوہ کوئٹہ، مستونگ، سبی، پنجگور، تربت اور بعض دیگر شہروں میں بم دھماکوں کے واقعات بھی پیش آئے۔
’ملک میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی قطعاً قبول نہیں‘
وزیراعظم شہباز شریف نے موسی خیل واقعے کی مذمت کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعے کی فوری تحقیقات کی ہدایت کر دی ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی قطعاً قبول نہیں۔‘ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے بھی موسیٰ خیل واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعلیٰ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پنجگور کی ہلاکت: ’بندوق اتنی طاقتور تھی کہ گولیاں گاڑی کا شیشہ اور سیٹ چیرتی ہوئی ذاکر بلوچ کو لگیں‘’اگر میرا بھائی بی ایل اے کے کیمپ میں ہوتا تو ہم اس گرمی میں احتجاج کیوں کرتے؟‘کاہان: بلوچستان کا امن اور نمائندگی سے محروم دور دراز علاقہ جہاں 180 سال قبل برطانوی فوج کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا تھاگوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟