لکھنؤ میں کوئلے سے کھانا پکانے پر پابندی، سینکڑوں باربی کیو ریسٹورنٹس متاثر

اردو نیوز  |  Aug 22, 2024

انڈیا کی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کی بلدیہ نے شہر بھر میں کوئلے اور لکڑی سے کھانا پکانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

انڈین اخبار دکن ہیرلڈ کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

لکھنؤ کے میونسپل کمشنر اندرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوئلے اور لکڑی کے کم استعمال  سے ایئر کوالٹی انڈیکس میں بھی کمی آئی ہے اس وجہ سے لوگوں کو کوئلے اور لکڑی کے بجائے گیس کا استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔‘

این ڈی ٹی وی کے مطابق اندرجیت سنگھ نے کہا ہے کہ ’لکھنؤ میں دو ہزار سے زائد تندور ہیں، ہم نے ٹیرا (انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ) کے ساتھ ایک تحقیق میں یہ معلوم کیا ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس میں کمی آرہی ہے اور ہم نان بائیوں سے بھی یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ تندوروں میں کوئلے کے بجائے گیس کا استعمال کریں۔‘

یہ تبدیلی ریستورانوں کے مالکان کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ مالکان کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کو سب کو اپنانا چاہیے۔

تقریبا 120 سال سے قائم شدہ ’تندے کبابی‘ ریستوران کے مالک مہد عثمان کا خیال ہے کہ حکومت کے اس فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک والی بات نہیں ہے کہ کوئلے کی اپنی ایک خصوصیت ہے لیکن اگر حکومت نے اگر اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں بھی اس فیصلے پر عمل در آمد کرنا ہو گا۔‘

’گیس اس طرح سے کبابوں کو اندر سے نہیں پکا سکتی ہے جیسے کوئلے اور لکڑی سے پکتے ہیں‘ (فائل فوٹو: فیس بک، سکرین گریب)دوسری جانب اتر پردیش کے احمد آباد کی 90 سال سے قائم شدہ کباب کی ایک دکان کے مالک کا ماننا ہے کہ گیس اس طرح سے کبابوں کو اندر سے نہیں پکا سکتی ہے جیسے کوئلے اور لکڑی سے پکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’کوئلہ کباب کو پرسکون انداز میں ہلکی آنچ پر پوری طرح سے پکاتا ہے، گیس ایسا نہیں کر سکتی اور کوئلے سے پکے کباب کا ذائقہ بھی بلکل مختلف ہوتا ہے۔‘

ایک مالک کا ماننا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے لکھنؤ کے کباب کی پہچان خراب ہو جائے گی۔

وہ کہتے ہیں ’کلچے اور شیر مال بہت پسند کیے جاتے ہیں، شیر مال گیس پر نہیں پکائی جا سکتی ہیں، اس فیصلے سے لکھنؤ کے کھانوں کی پہچان ختم ہو جائے گی۔‘

گاہکوں کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ فیصلہ کھانوں کے ذائقوں میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگو ں کا یہ خیال بھی ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے اس قسم کے اقدامات ضروری ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More