عمران خان آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کیوں بننا چاہتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 20, 2024

Getty Imagesپاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں 1972 سے 1975 کے دوران زیر تعلیم رہے ہیں

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے رہنما عمران خان ایک نئے انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں لیکن یہ الیکشن سیاسی عہدے کے لیے نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی کے چانسلر کا ہے۔

اگرچہ ایسی خبریں کافی دیر سے گردش میں تھیں کہ عمران خان آکسفرڈ چانسلر کے انتخاب میں حصہ لینے والے ہیں تاہم باقاعدہ طور پر ان کی جانب سے بطور امیدوار درخواست مقررہ مدت کے آخری دن 18 اگست کو جمع کروائی گئی جس کا اعلان عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا۔

زلفی بخاری کے مطابق ’عمران خان کی ہدایات کے مطابق آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کے لیے ان کی درخواست جمع کروا دی گئی ہے۔ اس تاریخی مہم میں ہمیں آپ کی تائید و حمایت کی ضرورت ہے۔‘

تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے اس فیصلے کے پیچھے کاربند عوامل یا مقصد کی نشان دہی نہیں کی گئی لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر عمران خان منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ اہم پیش رفت ہو گی جس کے سیاسی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

عمران خان کا خود اپنا کیا مقصد ہو سکتا ہے اور ان کے منتخب ہو جانے کی صورت میں کیا سیاسی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ انتخاب کیسے ہوتا ہے۔

آکسفرڈ چانسلر کیسے منتخب ہوتا ہے؟

اس عہدے پر کامیاب امیدوار کی تقرری 10 سال کے لیے ہوگی تاہم یہ ایک ’سیریمونیئل‘ یعنی اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کسی طرح کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔

تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری، اہم تقریبات کی صدارت، فنڈ جمع کرنے اور مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی میں چانسلر کا کردار اہم ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آکسفرڈ چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں شرکت لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔

نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل ’چانسلر الیکشن کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔

عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقۂ انتخاب کو ’کونووکیشن‘ کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔

Getty Imagesآکسفرڈ یونیورسٹی کی مشاہر کی فہرست میں شامل پانچ پاکستانیوں سے ایک عمران خان ہیں

یونیورسٹی کے مطابق اب دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست اکتوبر میں شائع کی جائے گی، اور ووٹنگ کا عمل 28اکتوبر سے شروع ہوگا۔

10 سے کم امیدواروں کی صورت میں انتخاب کا صرف ایک دور ہوگا۔ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں انتخابی عمل کا دوسرا راؤنڈ 18 نومبر کو شروع ہوگا۔

اہم بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں موجودہ طالبعلم، یونیورسٹی ملازمین یا کسی سیاسی عہدے کے امیدوار حصہ نہیں لے سکتے۔ یاد رہے کہ چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ 80 سالہ لارڈ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر رہے اور اس سے قبل برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفرحکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟آکسفرڈ کے مشہور پاکستانی طالب علم

عمران خان نے 1972 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج (Keble College) میں داخلہ لیا اور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔ اس دوران بینظیر بھٹو بھی آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور عمران خان کے مطابق ان کے درمیان دوستی بھی تھی۔

71 سالہ عمران خان پاکستان کی ان پانچ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا ذکر برطانیہ کی اس سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل آکسفرڈ یونیورسٹی نے اپنی ’فیمس اوکسونیئنز‘ کی فہرست میں فخر سے کیا ہے۔

دیگر چار شخصیات پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق احمد لغاری ہیں۔

اس فہرست میں ان مشہور شخصیات کے نام شامل ہیں جنھوں نے یہاں سے گریجویشن کی یا درس دیا، اور کسی نہ کسی شعبے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر کے اپنا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں ثبت کیا۔

ان میں 28 برطانوی وزرائے اعظم، کم سے کم 30 بین الاقوامی لیڈر، 55 نوبیل انعام یافتگان اور 120 اولمپک میڈل جیتنے والے شامل ہیں۔

عمران خان دسمبر 2005 سے نومبر 2014 تک برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈفرڈ کے چانسلر رہے ہیں۔

یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی آٹھ سالہ چانسلر شِپ کے دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نئے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر تھیراپیوٹِکس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد سے اس انسٹی ٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے درمیان قریبی رابطے رہے ہیں۔

عمران خان جب اس عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر برائن کینٹر، نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا: ’وہ یونیورسٹی کے لیے ایک ممتاز سفیر اور ہمارے طلبہ کے لیے زبردست رول ماڈل رہے ہیں۔‘

عمران خان کے لیے یہ الیکشن کیوں اہم ہے؟

عمران خان کے حامیوں کا خیال ہے کہ سابقہ تجربے، یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے دیرینہ تعلق، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوامی فلاح کے کام اور کرکٹ کی دنیا میں شہرت انھیں چانسلرشِپ کا ایک مضبوط امیدوار بناتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی تنازع پر لکھی جانےوالی کتاب ’پولٹیکل کنفلیکٹ ان پاکستان‘ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ آکسفرڈ چانسلر ایک اعزازی قسم کا عہدہ سمجھا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بہت شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے قبل عمران خان ایک برطانوی یونیورسٹی کے چانسلر رہ بھی چکے ہیں۔

ڈاکٹر وسیم کے مطابق ’عمران خان کے لیے پہلے بھی دو تین بار اس عہدے کے لیے کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان حالات میں اگر عمران خان کو آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی کی چانسلرشپ مل جاتی ہے تو پھر یہ ان کے لیے بہت ہمدردی پیدا ہو گی۔‘

Getty Imagesآکسفرڈ یونیورسٹی کو برطانیہ کی سب سے پرانی جامعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر کسی بھی حکومت کے لیے انھیں روکنا ریاست مخالف اقدام تصور کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وسیم کے مطابق عمران خان کے لیے باعزت طور پر یہ ملک سے نکلنے کا بھی ایک اچھا موقع ہوگا۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی رائے میں ’اگر پاکستانی حکام نے عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد بھی ان کا رستہ روکنے کی کوشش کی اور انھیں باہر نہ جانے دیا تو پھر ایسے میں سفارتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘

تاہم ڈاکٹر وسیم اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان اور برطانیہ کبھی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کو لے کر سفارتی تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔‘

ان کے مطابق ’اس سے قبل امریکہ اور برطانیہ میں عمران خان کی رہائی سے متعلق قراردادیں بھی منظور ہوئیں مگر ان چیزوں کا سفارتی تعلقات پر اثر نہیں پڑا۔‘ تاہم ڈاکٹر وسیم اس بات سے متفق ہیں کہ برطانیہ میں عمران خان کی اچھی شہرت ہے اور وہ اس عہدے کی دوڑ کے لیے ایک اہم امیدوار ضرور تصور کیے جا رہے ہیں۔

عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘عمر فاروق ہلال امتیاز کے لیے نامزد: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کے مرکزی کردار کا نام سرکاری فہرست میں کیسے پہنچا؟عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی!عمران خان سے نواز شریف تک: پاکستانی سیاست میں ’لاڈلے‘ کی اصطلاح کیوں مشہور ہوئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More