کولکتہ میں ریپ اور قتل کی گئی ڈاکٹر کے والد: ’میری ایک بیٹی چلی گئی، لیکن اب میرے کروڑوں بیٹے، بیٹیاں ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 19, 2024

Getty Imagesکولکتہ میں منعقدہ احتجاج میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی

’میری ایک بیٹی چلی گئی، لیکن اب میرے کروڑوں بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ یہ کروڑوں لڑکے اور لڑکیاں میری بیٹی کے لیے لڑ رہے ہیں جو اب نہیں رہی۔ وہ سب اس کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔‘

یہ الفاظ انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج میں ریپ اور قتل کی جانے والی نوجوان ڈاکٹر کے والد کے ہیں جو انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہے۔

تقریباً دس روز قبل کولکتہ کے ایک ہسپتال میں نوجوان خاتون ڈاکٹر کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد مغربی بنگال سمیت انڈیا بھر میں ڈاکٹروں اور سول سوسائٹی کا احتجاج جاری ہے۔

دارالحکومت دہلی، ممبئی، کولکتہ اور دیگر شہروں میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ریپ اور قتل کے مقدمے کی تحقیقات مکمل ہونے تک کام پر واپس نہیں آئیں گے۔

کولکتہ کی انوشنا داس نے کہا کہ ’بہت ہو گيا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ احتجاج میں اٹھیں، کیونکہ یہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔‘

پورے ملک میں احتجاج کی لہر دیکھی جا رہی ہے اور اس معاملے کی تفصیلی اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کام کی جگہ پر ہیلتھ ورکرز بالخصوص خواتین کی حفاظت کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

BBCبنگال کے اس واقعے پر پورے ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے’یہاں کوئی بھی داخل ہو سکتا ہے‘

بی بی سی کے نامہ نگاروں نے انڈیا کے چند معروف سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کیا تاکہ وہاں رات کی شفٹوں میں کام کرنے والی خواتین نرسوں اور ڈاکٹروں سے ہسپتال میں سیکورٹی کی صورتحال اور ان کے خدشات کے متعلق جانا جا سکے۔

بی بی سی نے دہلی کے تین بڑے سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کیا جن میں لوک نایک ہسپتال، جی بی پنت ہسپتال اور لیڈی ہارڈنگ کالج وہسپتال شامل ہیں۔ ان کے مطابق لوک نایک ہسپتال کے داخلی دروازے پر میٹل ڈیٹیکٹر تو نصب ہیں لیکن وہ کام نہیں کرتے ہیں۔

رات کی ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر نے شکایت کی کہ ’یہاں کوئی بھی آزادانہ طور پر داخل ہو سکتا ہے۔‘ اگرچہتینوں ہسپتالوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں تاہم ڈاکٹرز مزید کیمرے چاہتے ہیں۔

لوک نایک ہسپتال کے ایک سینیئر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ’ان کیمروں کی نگرانی کوئی نہیں کرتا۔‘

اسی ہسپتال میں کام کرنے والی ایک نرس کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹروں اور نرسوں کو مریضوں کے اہل خانہ کی طرف سے دھمکیوں کا خدشہ رہتا ہے۔

’ہمیں اکثر رات کو نشے میں دھت ہو کر آنے والے افراد سے نمٹنا پڑتا ہے۔‘

میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ایک طالبہ نے بتایا کہ ’ہسپتال کے کچھ حصوں میں روشنی نہیں ہے۔ مریضوں کے ساتھ آنے والے لوگ ہسپتال کے احاطے میں فرش پر سوتے ہیں۔‘

BBCرات کے وقت دہلی کے لوک نایک ہسپتال کی تصویر’ہمیں بہتر سیکورٹی کے ساتھ ساتھ باؤنسرز کی ضرورت ہے‘

بی بی سی نے دہلی کے جن ہسپتالوں کا دورہ کیا وہاں رات کے وقت سکیورٹی بہت کم ہوتی ہے۔

بی بی سی ہندی کے نامہ نگار امنگ پودار بتاتے ہیں کہ ’جب میں ہسپتال کے اندر گیا تو کسی نے مجھے چیک نہیں کیا۔ گائناکولوجی ایمرجنسی وارڈز میں موجود دو خواتین گارڈز نے وہاں آنے کا مقصد تو پوچھا لیکن کوئی اور سوال نہیں کیا۔‘

دہلی کے جی بی پنت ہسپتال میں کام کرنے والی ایک نرس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں مریضوں کے ساتھ آنے والے لوگوں سے نمٹنے کے لیے بہتر سکیورٹی کے ساتھشاید باؤنسر کی ضرورت ہے۔‘

دو خواتین ڈاکٹروں نے بتایا کہ لوک نایک ہسپتال میں 24 گھنٹے کینٹین کی سہولت موجود ہے لیکن انھیں وہاں جانا غیر محفوظ لگتا ہے۔ ایک سینیئر خاتون ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ دوران ڈیوٹی اکثر کھانا آن لائن آرڈر کرتیں ہیں۔

لیڈی ہارڈنگ کالج کی بھی ایک سینیئرخاتون ڈاکٹر نے کہا کہ رات کے وقت میڈیکل چیک اپ کا مطلب کیمپس میں کافی دور واقع لیبارٹریوں میں جانا ہے۔

لیڈی ہارڈنگ کالج کی ایک انٹرن نے بتایا کہ ’بعض اوقات ایک خاتون ڈاکٹر کو ایسے وارڈ میں مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے جہاں زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹروں نے رات کی شفٹوں میں کام کرنے والوں کے لیے گندے اور غیر محفوظ ریسٹ رومز کی بھی شکایت کی۔

جبکہ لیڈی ہارڈنگ کالج کی ایک انٹرن نے بتایا کہ کچھ شعبہ جات میں مرد اور خواتین ڈاکٹروں کے لیے مشترکہ کمرے ہیں۔

’ہم نے اس معاملے پر انتظامیہ سے بات کی ہے اور ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

طبی جریدے لانسیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2007 اور 2019 کے درمیان انڈیا میں صحت کے کارکنوں کے خلاف پرتشدد حملوں کے 153 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ جبکہسنہ 2020 میں 225 اور 2021 میں 110 تشدد کے واقعات سامنے آئے جن میں نچلی سطح کے عملے سے لے کر ہسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹروں کے خلاف تشدد کے واقعات بھی شامل ہیں۔‘

کولکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد ہزاروں خواتین سڑکوں پر: ’ہماری اوقات گائے، بکریوں سے بھی کم ہے‘کولکتہ ہائی کورٹ کا لڑکیوں کو جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کا مشورہ قطعی غلط ہے: انڈین سپریم کورٹڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں سے بدتمیزی کے واقعات Getty Imagesڈاکٹر کی پریشانیوں کی علامتی تصویر

بی بی سی ہندی کے نامہ نگار سید معزز امام نے لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی (کے جی ایم یو) کا دورۂ کیا اور وہاں کی سیکورٹی صورتحال پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال کے مرکزیدروازے پر گارڈز تو موجود تھے لیکن آنے جانے والوں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔

ہسپتال کی سینیئر ڈاکٹر نیتا نے شکایت کی کہ مریضوں کے ساتھ آنے والے لوگ بعض اوقات ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کے ساتھبدتمیزی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان حالات میں ہم سکیورٹی والے کو بلاتے ہیں جو شاذ و نادر ہی کچھ کرتے ہیں۔ بالآخر ہمیں حالات سے خود نمٹنا پڑتا ہے۔‘

جبکہ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں روشنی کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے اور کئی جگہ اندھیرا رہتا ہے۔

ڈاکٹر ہرشیتا اور ڈاکٹر نیتو ایم بی بی ایس کے آخری سال کے طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اکثر ہاسٹل میں اجنبیوں اور غیر متعلقہ افراد کو گھومتے اور سخت تبصرے کرتے دیکھا ہیں لہذا انتظامیہ کو چاہیے کہ داخلی و خارجی راستوں پر سختی زیادہ کرے۔

ڈاکٹر ہرشیتا کہتی ہیں کہ ’گذشتہ چند مہینوں میں سکیورٹی گشت میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے کیمپس تھوڑا محفوظ لگتا ہے۔‘

ڈاکٹروں نے بتایا کہ گرلز ہاسٹل کے بالکل سامنے ٹراما سینٹر کے باہر خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ڈاکٹر آکانکشا کا مطالبہ ہے کہ کیمپس میں زیادہ گارڈز، زیادہ روشنی اور سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں۔

کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر سدھیر سنگھکا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس کیمپس، ہاسٹلوں اور وارڈوں میں سکیورٹی کا مربوط نظام ہے، ہمارے پاس یونیورسٹی کیمپس ہاسٹلاور وارڈوں میں سکیورٹی گارڈز ہیں۔ ہم نے کیمپس میں کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔ ابھی تک کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی، اہم مقامات پر سی سی ٹی وی نصب کر دیے گئے ہیں اور ان کی باقاعدگی سے نگرانی کی جا رہی ہے۔‘

’رات کی شفٹ میں آرام کے لیے ایک کرسی اور میز‘

بی بی سی تمل سروس کی نامہ نگار شاردا وی نے رات ساڑھے نو بجے چینئی کے اوماندورار گورنمنٹ میڈیکل کالج کا دورہ کیا۔

ان کے مطابق مریضوں کے لواحقین ایڈمشن بلاک کے باہر مدھم روشنی میں کھلی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔ ایمرجنسی کے دروازے پر دو پولیس اہلکار کھڑے تھے۔

رات کی شفٹ میں کام کرنے والی انٹرن ابرنا نے بتایا کہ کولکتہ ریپ واقعے کے بعد عملے کی خواتین ارکان میں خوف ہے اور ہسپتال انتظامیہ نے سکیورٹی کے معاملے پر اجلاس طلب کیا تھا۔

ابرنا کے مطابق اجلاس کے بعد انٹرنز کو بھی سٹاف روم استعمال کرنے اور کمرے کو لاک کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ تمام خواتین عملے کو سٹی پولیس کی سیکورٹی ایپ کے استعمال کا مشورہ دیا گیا تاکہ ہنگامی الارم بھیجا جاسکے کیونکہ 'کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے'۔

BBCحیدرآباد میں ڈاکٹروں کا مظاہرہ

رات 10 بجے کام کرنے والی ایک سٹاف نرس نے شکایت کی کہ آرام کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ رات کی شفٹوں میں کام کرنے والوں کو ایک کرسی اور ایک میز ملتی ہے۔

ہسپتال کے ڈین ڈاکٹر اے اروند نے کہا کہ کیمپس میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ کیمپس میں رات کی شفٹ میں 20 سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسسٹنٹ ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسرز 24 گھنٹے کیمپس میں موجود رہتے ہیں۔

'معلوم نہیں تھا کہ شوہر کا زبردستی سیکس کرنا میریٹل ریپ کہلاتا ہے‘کولکتہ میں ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بعد ہزاروں خواتین سڑکوں پر: ’ہماری اوقات گائے، بکریوں سے بھی کم ہے‘کولکتہ ہائی کورٹ کا لڑکیوں کو جنسی خواہشات پر قابو رکھنے کا مشورہ قطعی غلط ہے: انڈین سپریم کورٹسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘انڈیا: دو بہنوں کا ریپ اور قتل، لاشیں درخت سے لٹکتی ہوئی ملیں’سات مردوں نے میرا ریپ کیا‘: انڈیا میں غیرملکی سیاح خاتون کے مبینہ اجتماعی ریپ کے مقدمے میں چار افراد گرفتار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More