Getty Imagesدنیا بھر میں اس کے ٹیکے لگائے گئے اور عالمی برادری نے اس میں تعاون کیا
افریقہ میں ایم پوکس (پہلے منکی پوکس کے نام سے جانا جاتا تھا) کے پھیلنے کی وجہ سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے بین الاقوامی سطح پر صحت کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ہم نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کیا ماضی میں کسی مرض کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جا سکا ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب ہاں ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ یہ واحد مرض ہے جس کا کامیابی کے ساتھ خاتمہ کیا جا سکا ہے۔
یہ مرض کوئی اور نہیں بلکہ چیچک یا ’سمال پاکس‘ ہے۔ اس کے خاتمے سے قبل یہ دنیا کی سب سے زیادہ خوفناک بیماریوں میں سے ایک تھا اور ایک اندازے کے مطابق صرف 20ویں صدی میں اس مرض سے تقریباً 50 کروڑاموات ہوئیں۔
چیچک انتہائی متعدی انفیکشن تھا جو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا تھا اور بنیادی طور پر متاثرہ شخص کی ناک یا منھ سے خارج ہونے والے آبی بخارات کے ذریعے پھیلتا تھا۔
اس کی علامات میں پہلے بخار آتا اور تھکاوٹ محسوس ہوتی اور اس بیماری کی وجہ سے چہرے اور جسم پر آبلے آ جاتے جن میں خارش ہوتی اور یہ پھوٹ کر بہہ نکلتے۔ اس کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں کے چہرے اور بدن پر ایسے نشانات بن جاتے کہ ان کی شکل ہی بدل جاتی۔ اور یہ نشان انمٹ ہوتے تھے۔
جن لوگوں کے آنکھوں میں کارنیا پر انفیکشن ہو جاتا یا آبلہ رِس کر پہنچ جاتا وہ اس کی وجہ سے اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے۔
Getty Imagesپاکستان میں ایک خاتون کو ٹیکہ لگایا جا رہا ہے (یہ تصویر سنہ 1967 کی ہے)مہلک ترین امراض میں سے ایک
یہ اس قدر مہلک مرض تھا کہ اس مرض میں مبتلا 30 فیصد افراد ہلاک ہو جاتے تھے۔
لیکن دنیا میں چیچک کے انفیکشن کے کم از کم 3000 سال تک موجود رہنے کے بعد گذشتہ صدی میں سنہ 1980 میں عالمی ادارہ صحت نے چیچک کے دنیا سے باضابطہ طور پر ختم ہونے کا اعلان کیا۔
اس طرح یہ واحد انسانی بیماری بن گئی جس کا کامیابی سے خاتمہ کیا گیا اور ماہرین کے نزدیک یہ عالمی صحت عامہ کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں متعدی امراض کے ماہر پروفیسر پال فائن نے بی بی سی منڈو کو بتایا ’یہ ایک زبردست کامیابی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’صحت عامہ کے شعبے میں بہت بڑی کامیابیاں ملی ہیں، جیسے کہ صاف پانی کی فراہمی، اینٹی بایوٹک اور دیگر بہت سی چیزیں لیکن یہ بلاشبہ ایک زبردست فتح تھی۔‘
Getty Imagesبنگلہ دیش میں 1975 میں تین سالہ رحیمہ بانو میں اس مرض کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ اس کی آخری مریضہ تھیںانسانوں کو ہونے والی واحد بیماری جس کا خاتمہ ہوا
یہ خاتمہ کیسے ممکن ہوا اور صحت عامہ کا یہ عالمی سنگ میل پھر کیوں نہیں دہرایا جا سکا؟
امریکہ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ سکول آف میڈیسن کے انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن وائرولوجی کے پروفیسر ہوزے ایسپرزا نے اس بابت بی بی سی منڈو کو بتایا: ’سب سے پہلے، یہ واضح کر دینا چاہیے کہ بیماریوں پر قابو پانے کے چار درجے ہیں۔‘
’پہلی سطح کنٹرول ہے، جس میں بیماری آبادی میں رہتی ہے لیکن بعض اقدامات اسے کم سطح پر رکھتے ہیں جو اسے قابل کنٹرول بناتے ہیں۔ پھر اخراج ہوتا ہے، جس میں بیماری دنیا کے ایک حصے سے غائب ہو جاتی ہے لیکن دوسرے حصوں میں جاری رہتی ہے۔ پھر خاتمہ آتا ہے، جب بیماری دنیا بھر کے نقشے سے مٹا دی جاتی ہے۔‘
پروفیسر ایسپرزا نے بتایا کہ ’اس کے بعد اس کی ایک اعلیٰ سطح ہے جسے معدومیت کہا جاتا ہے۔ اس میں بیماری پھیلانے والے ایجنٹ یا وائرس نہ تو روئے زمین پر اور نہ ہی لیبارٹری میں موجود ہوتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’لہٰذا چیچک واحد انسانی بیماری جسے ختم کیا گیا ہے۔‘
ایک دوسری بیماری بھی ہے جس کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن یہ جانوروں کی بیماری ہے اور اسے رنڈرپیسٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
وہ ہندوستانی رانی جس نے چیچک کے پہلے حفاظتی ٹیکے کے لیے ’ماڈلنگ‘ کیویکسینیشن یا حفاظتی ٹیکوں کی مختصر تاریخوہ پانچ وبائیں جنھوں نے دنیا بدل کر رکھ دیGetty Imagesامریکہ جیسے امیر ممالک میں چیچک کو ختم کرنے کی مہم 19ویں صدی سے ہی جاری تھیچیچک کے خاتمے کی مہم
چیچک کے مرض کی آخری تشخیص صومالیہ میں سنہ 1977 میں ہوئی تھی۔
اس کے بعد برطانیہ میں سنہ 1978 میں ایک لیبارٹری میں انفیکشن کی وجہ سے ایک معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد آج تک اس بیماری کے کسی نئے انفیکشن کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
لیکن چیچک کے خاتمے کی ابتدا 200 سال پہلے اس وقت شروع ہو چکی تھی جب برطانوی سائنسدان ایڈورڈ جینر کی مشہور دریافت ہوئی اور جو سنہ 1796 میں چیچک کی ویکسین تیار کرنے کا باعث بنی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پہلی انسانی ویکسین تھی۔
چیچک کا ویکسین یا ٹیکہ لگانا 19 ویں صدی کے دوران بہت سے ممالک میں معمول کی بات بن گئی اور 20 ویں صدی کے وسط تک دنیا کے ہر ملک میں اس پر عمل کیا گیا۔
ڈبلیو ایچ او کی چیچک کے خاتمے کی مہم کا حصہ رہنے والے پال فائن نے بتایا کہ ’چیچک کا تعلق بہت زیادہ اموات سے تھا اور یہ ایک بہت خوفناک بیماری تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’1950 کی دہائی تک دنیا کے تمام امیر ممالک اس بیماری سے نجات پانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ڈبلیو ایچ او کی تشکیل ہوئی تو اس نے چیچک کے خاتمے کو اپنے بڑے مقاصد میں سے ایک قرار دیا۔‘
1967 میں ڈبلیو ایچ او نے ایک دہائی کے اندر اس مرض کے خاتمے کا ہدف مقرر کیا اور اسی سال اس مقصد کے حصول کی مہم شروع ہوئی۔
جب اس کے خاتمے کی مہم شروع ہوئی تو دنیا بھر میں چیچک سے 27 لاکھ اموات ریکارڈ کی گئیں۔
پال فائن نے بی بی سی منڈو کو بتایا ’ختم کرنے کا ہدف بالآخر 1978 میں حاصل کر لیا گیا اور تب تک دنیا نے ویکسین کے عالمی اور موثر استعمال کے نتیجے میں چیچک کو تیزی سے ختم ہوتے دیکھا۔‘
درحقیقت، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چیچک کا خاتمہ اس لیے ہوا کہ دنیا میں اس بیماری کے خلاف ایک انتہائی موثر ویکسین موجود تھی۔
لیکن دیگر عوامل بھی تھے جنھوں نے اس خاتمے میں تعاون کیا۔
لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں متعدی امراض کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ ہیمن انڈیا میں چیچک کے خاتمے کے پروگرام میں شامل تھے۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ چیچک کو ختم کرنا ایک ’آسان ہدف‘ تھا۔
پروفیسر ہیمن نے کہا ’سب سے پہلی بات کہ چیچک کا انفیکشن نظر آتا تھا۔ مریضوں میں بیماری کی واضح جسمانی علامات تھیں۔‘
’لہذا اسے ختم کرنا آسان تھا کیونکہ آپ مریضوں کو ڈھونڈ سکتے تھے اور انہیں الگ کر سکتے تھے۔ پھر آپ ان لوگوں کو ڈھونڈیں گے جو ان سے رابطے میں تھے اور انھیں ویکسین لگوائیں گے۔ اور اس طرح اس مخصوص علاقے میں پھر کوئی کیس نہیں ہوا۔‘
پروفیسر ہیمن نے وضاحت کی یہ وہ حکمت عملی تھی جسے ’تلاش اور روک تھام‘ کہا جاتا ہے۔
Getty Imagesچیچک کا وائرسحالات
ماہرِ وائرولوجسٹ ہوزے ایسپرزا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد چیچک کے وائرس کے خاتمے کے لیے مثالی حالات تھے۔
’اس کی کئی شرطیں ہیں ایک یہ کہ کوئی غیر علامتی کیسز نہیں ہیں۔ اس میں کوئی بھی ایسے افراد نہیں تھے جو یہ نہ جانتے ہوں کہ وہ متاثر ہیں اور وائرس منتقل کر رہے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ دائمی مرض نہیں کہ جس مریض کو ہو گیا وہ اسے زندگی بھر پال رہا ہے۔‘
ماہر وائرولوجسٹ نے مزید کہا کہ ’اس کے ساتھ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ یہ جانوروں میں نہیں ہوتا تھا کیونکہ انسانوں میں انفیکشن کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن انفیکشن جانوروں میں ہوتا تو پھر اسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ ایک اور بات یہ تھی کہ اس وائرس کی اینٹی جینک قسمیں نہیں ہوتیں اور یہ وائرس کی ایک قسم تھی۔‘
ایسپرزا نے بی بی سی منڈو کو بتایا ’لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وائرس کے خلاف ایک موثر ویکسین موجود تھی۔ چیچک کے معاملے میں، یہ تمام شرائط تقریباً پوری طرح پوری ہوتی تھیں۔‘
لیکن خاتمے کے لیے ایسے ’تقریباً کامل‘ حالات دیگر بیماریوں میں نہیں دیکھے گئے، باوجود اس کے کہ ان کو ختم کرنے کی بے پناہ کوششیں کی گئی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے پاس اس وقت پولیو، ملیریا، خسرہ اور روبیلا جیسی بیماریوں کے خاتمے کے اہداف ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی خاتمے کے لیے ضروری شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
پال فائن نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’چیچک بہت سی دوسری بیماریوں کے مقابلے میں ایک آسان ہدف تھا جسے ہم اب کنٹرول کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
’اور ہر کوئی چیچک کے مریض کو پہچان سکتا ہے لیکن پولیو جیسے مرض کے ساتھ یہ ہے زیادہ تر انفیکشن طبی طور پر ظاہر نہیں ہوتے اور آپ زیادہ تر انفیکشنز کو پہچان نہیں پاتے اور وہ گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہ پولیو کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘
بہر حال انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن پولیو ویکسین چیچک کی ویکسین کی طرح موثر بھی نہیں ہیں۔‘
Getty Imagesچیچک کے مریض کے ساتھ ان سب کو ٹیکہ دیا جاتا تھا جو ان کے رابطے میں آئے تھے اور انھیں علیحدہ رکھا جاتا تھااس سے ہم کیا سبق لے سکتے ہیں؟
چیچک کے خاتمے سے ایک بات یہ ثابت ہوئی کہ بیماری سے نمٹنے کے لیے صرف سائنسی اقدامات کافی نہیں۔
صحت کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بہت زیادہ سیاسی، معاشی اور سماجی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔
لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چیچک کے خاتمے کا سب سے بڑا سبق بین الاقوامی تعاون کی اہمیت ہے۔
ڈیوڈ ہیمن نے کہا: ’چیچک کا خاتمہ سرد جنگ کے عروج پر ہوا، اور پھر بھی ہم میں سے جو لوگ اس پروگرام میں شامل تھے انھوں نے سوویت یونین سمیت دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔‘
’اگر دنیا مل کر کام کرتی ہے تو انفیکشن سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، چاہے یہ ایک خاتمے کا پروگرام ہو یا وبائی مرض سے نمٹنے کا کوئی پروگرام ہو۔‘
پال فائن نے ہیمن کی بات سے اتفاق کیا۔
انھوں نے کہا کہ جب چیچک کو مٹانے کا پروگرام شروع کیا گیا تو مشرق اور مغرب کے درمیان زبردست تصادم تھا۔ لیکن اس معاملے پر دنیا اکٹھی ہوئی اور مٹانے کے پروگرام کو 100 فیصد حمایت حاصل ہوئی۔
وہ پانچ وبائیں جنھوں نے دنیا بدل کر رکھ دیخواندہ مائیں بچوں کی ویکسینیشن میں مددگار؟وہ ہندوستانی رانی جس نے چیچک کے پہلے حفاظتی ٹیکے کے لیے ’ماڈلنگ‘ کیپُراسرار وائرس جس نے منکی پوکس کی ویکسین بنانے میں مدد کیپاکستان میں ایم پوکس کے نئے مریض کی تصدیق: یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟