جب انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے دوران تشدد کی آگ ہوشیار پور پہنچی تو اقبال بی بی کو نہ صرف ان کے سکھ پڑوسیوں نے آنے والے خطرے سے خبردار کیا بلکہ فسادات سے بچنے کے لیے انھیں 17 کلومیٹر دور مہندی پور چھوڑ دیا۔
سنہ 1947 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان پیش آنے والے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فہد نحوی کہتے ہیں کہ جب اقبال بی بی گذشتہ دنوں ان کی ٹیم سے پاکستان میں ملیں تو انھوں نے یہ سارا واقعہ اپنی زبانی بیان کیا۔
فہد نحوی ’1947 پارٹیشن آرکائیو‘ کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ ایک تنظیم ہے جسے امریکہ میں مقیم گنیتا سنگھ بھلا نے شروع کیا تھا۔
گنیتا سنگھ بھلا کی تنظیم نے انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے دوران تشدد اور نقل مکانی کی ایسی 11,500 سے زیادہ کہانیاں جمع کی ہیں۔
15 اگست 1947 کو جب ہندوستان برطانوی راج سے آزاد ہوا تو یہ ایک ملک دو ملکوں انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہوگیا۔
ہندوؤں اور سکھوں کے لیے انڈیا اور مسلمانوں کے لیے پاکستان، اس تقسیم کے دوران ہونے والی ہجرت کے دوران فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔
پنجابی لوگ تقسیم کے اس دور کو ہالے کہتے ہیں۔ جس کے دوران ڈیڑھ کروڑ لوگ بے گھر ہوئے اور 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔
اس تقسیم کے دوران مسلمانوں کو انڈیا سے پاکستان جانا پڑا اور ہندو سکھوں کو انڈیا کی طرف آنا پڑا۔
’جو گزر چکے ہیں ان کے دعوے کو جھٹلایا نہیں جا سکتا‘
پیشے سے ماہر بشریات گنیتا سنگھ بھلا اپنی دادی ہربھجن کور بھلا سے تقسیم کے دوران ہونے والے قتل عام کی کہانیاں اکثر سنتی تھیں۔
ایک بار جب وہ 2008 میں جاپان میں اپنی تعلیم کے دوران ہیروشیما پیس میموریل گئیں تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں ایٹم بم کے متاثرین کی یادیں کس طرح محفوظ ہیں۔
یہ دیکھ کر انھوں نے پاکستان انڈیا تقسیم کے متاثرین اور گواہوں کو ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔
گنیتا سنگھ بھلا کہتی ہیں ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کی کہانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا جو نہیں رہے۔ تب میں نے محسوس کیا کہ ہمیں بھی تقسیم کی یادوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایسا ہی کرنا ہے۔ اگر ہم چیزوں کو ریکارڈ کریں تو ان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘
گنیتا سنگھ بھلا کے والد کا خاندان لاہور میں رہتا تھا لیکن تقسیم کے دوران انہیں ہندوستان آنا پڑا۔
گنیتا کے والد انڈین فوج میں تھے اس لیے وہ لدھیانہ، جموں و کشمیر اور چندی گڑھ جیسی جگہوں پر رہتے تھے لیکن جب وہ 10 سال کی تھیں تو خاندان کے ساتھ امریکہ چلی گئیں۔
17 ممالک سے 11 ہزار سے زائد کہانیاں کیسے اکٹھی کیں؟
گنیتا سنگھ بھلا کی ٹیم نے انڈیا پاکستان، امریکہ، کینیڈا اور بنگلہ دیش سمیت 17 ممالک سے ویڈیو اور آڈیو کی شکل میں 11,500 کہانیاں اکٹھی کی ہیں۔
گنیتا کہتی ہیں’کوئی بھی ہمارے ساتھ یادیں شیئر کر سکتا ہے۔ پہلے ہم لوگوں کو مفت ورکشاپس دیتے ہیں۔ اس دوران ہم زبانی تاریخ کے لیے انٹرویو لینے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔‘
1947 پارٹیشن آرکائیو کے لیے زیادہ تر نوجوان مرد اور عورتیں اپنے علاقوں میں تقسیم کو دیکھنے والوں کو تلاش کرنے اور انٹرویو کرنے کے لیے مفت کام کرتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں ’ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ٹریننگ لیں اور بیٹھ کر ان کی اپنی زبان میں اور اپنی کمیونٹی میں ریکارڈ کریں۔ اس طرح انٹرویو لوگوں کے انداز میں آرام دہ ماحول میں کیا جاتا ہے۔‘
BBCگرمیت سنگھ 2019 سے اس آرکائیو کے لیے تقسیم کی کہانیاں جمع کر رہے ہیں گرمیت سنگھ جنھوں نے تین سو سے زیادہ کہانیاں جمع کیں
بھٹنڈہ ضلع کے گاؤں بالیاں والی کے گرمیت سنگھ 2019 سے اس آرکائیو کے لیے تقسیم کی کہانیاں جمع کر رہے ہیں۔
گرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور چندی گڑھ سے اب تک 300 سے زیادہ لوگوں کے انٹرویو کر چکے ہیں۔
پیسے کی کمی کی وجہ سے وہ اکثر گاؤں کے گوردواروں میں رکتے ہیں اور اپنی موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں۔
گرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’میرا دل مطمئن ہے کہ میں صحیح کام کر رہا ہوں۔ میں آنے والی نسلوں کے لیے ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہوں جو ان کے لیے مفید ہو گا۔‘
گرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ اس بار ان کی ملاقات بٹھنڈہ میں ایک معمر شخص سے ہوئی جنھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس مذہب میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’1947 میں ایک بچے کو ٹوکری میں ڈال کر چھوڑ دیا گیا اور آج تک انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ سکھ ہے، ہندو ہے یا مسلمان۔‘
’انھوں نے مجھے روتے ہوئے اپنی کہانی سنائی۔ اس واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں ان کے خاندان کو تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔`
ایک فون کال جس نے جواہر لعل نہرو کی خوشیوں پر پانی پھیر دیاسیاچن: خطرناک ترین میدانِ جنگ جہاں لڑنا تو دور سانس لینا بھی اپنے آپ میں بڑا کارنامہ ہےBBCروپڑ میں رہنے والے اجگر سنگھ کی عمر تقریباً 100 سال ہے جب اجگر سنگھ نے مسلمان خاندان کو بچایا
یہ پانچ اگست کی صبح تھی جب گرمیت سنگھ گاؤں برماجرا کے گردوارہ صاحب میں اجگر سنگھ کا انٹرویو کرنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔
گرمیت سنگھ نے بھٹنڈہ سے روپڑ کے اس گاؤں تک 200 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر اپنی موٹر سائیکل پر کیا تھا۔
وہ اجگر سنگھ اور ان کی بیوی کی کہانی ریکارڈ کرنے اس گاؤں آئے تھے ۔ اجگر سنگھ برطانوی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور ان کی عمر 100 سال ہے۔
اجگر سنگھ کا کہنا ہے کہ 1947 کے تشدد کے دوران ان کے گاؤں کا ایک مسلمان خاندان کمند (گنے کے کھیت) میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھپا ہوا تھا جسے انھوں نے فسادیوں سے بچایا۔
اجگر سنگھ کے مطابق ’میں نے ان سے کہا کہ میں کھڑا ہوں اگر کوئی تمہیں مارے گا تو میں سب سے پہلے مروں گا۔ جب ہم گاؤں کی طرف چل پڑے تو تقریباً 12 لڑکے نیزے لیے کھڑے تھے۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ میں تمہیں ان کی طرف انگلی نہیں اٹھانے دوں گا پھر وہ راضی ہو کر واپس چلے گئے لیکن ہم دونوں آدمی رات بھر جاگتے رہے تاکہ اس خاندان کی حفاظت کر سکیں۔‘
وہ کہانیاں جو کبھی ختم نہیں ہوتیں
گنیتا سنگھ بھلا کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم کو بٹالہ کے بھیم سین شرما نے ایک کہانی سنائی جو انھیں پاکستان کے نارووال ضلع سے تعلق رکھنے والے کیلیفورنیا کے ایک خاندان نے سنائی تھی۔
گنیتا بتاتی ہیں ’تین پگڑیاں پہنے خواتین ہاتھوں میں ہتھیار لیے گھوڑوں پر آئیں اور لوگوں کے کاررواں کو فسادیوں سے بچایا۔ یہاں تک کہ انھیں بے گھر ہونے والے لوگوں کی جان بچانے کے لیے بہت سے لوگوں کو مارنا پڑا۔‘
پنجاب کے ضلع ملیر کوٹلا کے گاؤں خان پور کے جگجیت سنگھ 1947 کی انڈیا پاکستان تقسیم کے دوران ہونے والے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ’بہت مشکلوں کے بعد آباد ہوئے۔‘
جگجیت سنگھ اب 89 سال کے ہیں اور تقسیم کے وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔
وہ لائل پور پاکستان میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن چک 277 میں گزرا لیکن انھیں اپنی زمینیں چھوڑ کر انڈیا آنا پڑا۔
جگجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’مسلمانوں کا لیڈر ہاتھ میں بندوق لیے گھوڑے پر آرہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک سنکھانی (سکھ عورت) لینی ہے اور باقی تم لوٹ لو۔ لیکن جب وہ آیا۔ دروازے پر گاؤں کے ایک سپاہی نے گھوڑے کی گردن پر نیزہ پھینکا اور اس آدمی کو نیچے پھینک دیا اور اس کی بندوق لے کر گولی چلانے لگے۔۔۔ پھر وہ سب بھاگ گئے۔‘
Getty Images1947-48 میں ایک ریلیف کیمپ میں بیٹھے سکھ پناہ گزینعالمی تاریخ میں تقسیم کا ریکارڈ
مورخ اروشی بٹالیا نے تقسیم پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’خاموشی کا دوسرا پہلو‘۔ انھوں نے تقسیم کے دوران خواتین، بچوں اور دلتوں کے بارے میں ایسی بہت سی کہانیاں منظر عام پر لائیں جو پہلے برطانوی میڈیا کا حصہ نہیں تھیں۔
بٹالیا کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم کی تاریخ کا ایک ایسا صفحہ ہے جسے بند نہیں کیا جا سکتا۔
اروشی بٹالیا کے مطابق ’1947 پارٹیشن آرکائیو‘ نے جو کام کیا ہے وہ کافی اچھی کوشش ہے لیکن یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس طرح کا کام بڑے پیمانے پر ہونا چاہیے۔
تاہم گنیتا سنگھ بھلا کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ 1947 کا سانحہ عالمی تاریخ شامل ہو جس کے لیے پہلے اسے دستاویزی شکل دینا ہوگی۔
گنیتا سنگھ بھلا کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ ایک بڑا واقعہ ہے لیکن حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ میں بڑے پیمانے پر نہیں آیا۔‘
’ہم چاہتے ہیں کہ اسے دنیا بھر کے نصاب کا حصہ بنایا جائے لیکن اس کے لیے پہلے دستاویزات کا کام کرنا ہوگا، جس پر ہم کام کر رہے ہیں۔‘
تقسیمِ ہند میں بچھڑ جانے والی خاتون 73 برس بعد اپنوں سے کیسے ملی؟محمد علی جناح کو ’انڈیا‘ کے نام پر کیا اعتراض تھا اور انھوں نے اسے ’گمراہ کُن‘ کیوں قرار دیا؟تقسیم ہند: بچھڑنے، ملنے اور موہن سنگھ کے عبد الخالق بننے کی کہانیمسلم ہندو یاری بٹوارے پر بھاری