Getty Images
’بہن بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے وہ پانچ پانچ گھنٹے تک پیج ریفریش کرتے رہتے ہیں کہ اپوائنٹمنٹ ملے گی لیکن دو ماہ ہو گئے ہیں ابھی تک اپوائنٹمنٹ نہیں ملی۔‘
یہ کہنا تھا اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے 27 برس کے ابوبکر ممتاز کا جنھیں اٹلی میں ایک یونیورسٹی کے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ تو ملا ہوا ہے اور ان کے ویزا کے تمام دستاویزات بھی مکمل ہیں تاہم انھیں اپنی ویزا درخواست جمع کروانے کے لیے اپوائنٹمنٹ ہی نہیں مل رہی۔
ابوبکر جیسے کئی لوگ ہیں جنھیں اپنی ویزے کی درخواست جمع کروانے کے لیے اپوائنٹمنٹ نہیں مل رہی اور اس میں صرف سٹوڈنٹ ویزا کے درخواست گزار ہی نہیں بلکہ ’ورک پرمٹ‘ یعنی اٹلی جا کر نوکری کرنے والے اور ویزٹ ویزا کے درخواست گزار بھی شامل ہیں۔
درخواست گزاروں کو اٹلی ایمبسی سے منسلک ’بی ایل ایس انٹرنیشنل‘ نامی نجی سہولت کار کمپنی کے ذریعے ویزے کی درخواست جمع کروانی ہوتی ہے تاہم اس کام کے لیے بی ایل ایس کی ویب سائٹ پر آن لائن اپوائنٹمنٹ لینی پڑتی ہے۔
ابوبکر نے بی بی سی کو بتایا کہ اپوائنٹمنٹس ایک مخصوص مدت کے لیے کھولی جاتی ہیں تاہم درخواست گزاروں کو کوئی اطلاع نہیں آتی کہ اپوائنٹمنٹ کھل گئی ہیں اور اس وجہ سے انھیں بار بار ویب سائٹ پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔
گزشتہ ہفتے لاہور اور اسلام آباد میں واقع بی ایل ایس کے دفاتر کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا تاکہ ان مسائل کا کوئی حل نکل آئے۔
بی بی سی نے اس سلسلے میں بی ایل ایس سے فون اور ای میل پر رابطہ کیا تو فون پر بتایا گیا کہ بی ایل ایس میں کوئی ایسا شخص نہیں جس سے براہ راست اس سلسلے میں گفتگو کی جا سکے اور جو بھی معلومات چاہیے وہ ویب سائٹ سے مل جائیں گی۔
بی بی سی کی جانب سے بی ایل ایس کو ای میل کیے گئے سوالات کا یہ جواب آیا کہ ’اپوائنٹمنٹس یا ویزا کی درخواست جمع کروانے کے لیے سفارت خانے سے وقتاً فوقتاً سلاٹس دیے جاتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ براہ راست سفارت خانے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‘
بی ایل ایس سے جواب موصول ہونے کے بعد بی بی سی نے پاکستان میں واقع اٹلی کے سفارت خانے کو بھی سوالات بھیجے تاہم ابھی تک جواب موصول نہیں ہوا۔
’ایجنٹس لوگوں کے خوابوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں‘
پاکستان کے بیورو آف امیگریشن کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 12 لاکھ کے قریب نوجوان روزگار کے بہتر مواقعوں کے لیے باہر چلے گئے جبکہ پچھلے پانچ سال میں یہ تعداد 26 لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
اٹلی کے 2022 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایک لاکھ 44 ہزار سے زیادہ پاکستانی رہتے ہیں۔
ابوبکر کے مطابق لوگ اٹلی اس لیے بھی جانا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں تعلیم قدرے سستی اور یونیورسٹی میں داخلہ اور ویزا حاصل کرنے کے لیے دیگر ممالک کی طرح سختیاں بھی نہیں۔
ابوبکر بتاتے ہیں کہ انھیں اٹلی جا کر تعلیم حاصل کرنے کا آئیڈیا یوٹیوب سے ملا جب انھوں نے وہاں مکین پاکستانی فیضان علی قریشی کے ’نالج سٹیشن‘ نامی چینل پر اٹلی میں مواقع سے متعلق ویڈیوز دیکھیں۔
ابوبکر نے اس سلسلے میں فیضان علی سے بات کی۔ فیضان علی کووڈ سے پہلے اٹلی گئے تھے اور اس وقت اپنی گریجویشن مکمل کرنے والے ہیں تاہم جس وقت وہ اٹلی گئے اس وقت یہ مسائل نہیں تھے۔
فیضان علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ مسئلہ کووڈ کے بعد شروع ہوا۔ اس وقت اٹلی پڑھنے جانے کے لیے ’جیریز‘ نامی نجی سہولت کار کمپنی کے ذریعے ویزے کی درخواست جمع کر وانی ہوتی تھی جبکہ جیریز میں بھی یہ مسئلہ شروع ہو گیا تھا۔ لوگوں کو اپوائنٹمنٹس نہیں مل رہی تھیں۔ پھر میں نے اور میرے کچھ ساتھیوں نے اٹلی میں واقع پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے منعقد کی جانے والی آن لائن کھلی کچہری میں حصہ لیا جس میں ہم نے یہ مسئلہ پیش کیا۔‘
’اس کے بعد ہم نے سفارتخانے کو کئی خطوط لکھے۔ اس بات کو برسوں گزر گئے تاہم اس سال مارچ میں سفارت خانے کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی کہ اب پاکستان میں اٹلی کی ویزا سروسز ’جیریز‘ کی بجائے بی ایل ایس انٹرنیشنل مہیا کرے گی۔‘
تاہم فیضان علی نے بتایا کہ ’جب ویزا سروسز بی ایل ایس انٹرنیشنل منتقل ہوئیں تو معاملات میں بہتری آئی اور لوگوں کو اپوائنٹمنٹس ملنا شروع ہو گئیں تاہم کچھ ٹائم بعد معاملات واپس اسی طرح ہو گئے اور لوگوں کے اٹلی جانے کے خوابوں پر ایجنٹس سانپ بن کر بیٹھ گئے۔‘
یہ بھی پڑھیےدنیا کا چوتھا ’بدترین‘ پاسپورٹ ہونے کے باوجود آپ پاکستانی پاسپورٹ کا بہتر استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟ آسٹریلیا کا سٹڈی ویزہ: نئے قوانین کیا ہیں؟کیا متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے 24 شہروں کے لوگوں کو ’ویزا نہ دینے کی پالیسی‘ اپنائی ہے؟Getty Images(فائل فوٹو)اپوائنٹمنٹ کے لیے 1.6 لاکھ سے 10 لاکھ روپے کا مطالبہ
فیضان علی نے ایسے بے شمار کیسز کے بارے میں بتایا جہاں اٹلی جانے کے لیے ویزا کنسلٹنٹس لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ با آسانی اپوائنٹمنٹس لے دیں گے لیکن وہ ایک اپوائنٹمنٹ کے عوض 1.6 لاکھ روپے سے لے کر دس لاکھ روپے مانگ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے لاہور اور اسلام آباد میں بی ایل ایس کے دفاتر کے باہر ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے بھی سوال اٹھایا کہ ویزا لگوانے والے ’ایجنٹس‘ کے پاس اپوائنٹمنٹس کہاں سے آ رہی ہیں کیونکہ عام عوام کے لیے ویب سائٹ پر تمام اپوائنٹمنٹس ختم ہو چکی ہیں؟
انھوں نے مزید کہا کہ بی ایل ایس کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ دن میں دو سے تین اپوائنٹمنٹس کھلتی ہیں اور لوگ ’بوٹس‘ کا استعمال کر کے یہ اپوائنٹمنٹس تیزی سے بُک کر لیتے ہیں۔
بوٹ دراصل ایک خودکار کمپیوٹر پروگرام ہے جو انسانوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔ بلیک مارکیٹ میں کام کرنے والے ایجنٹس ان بوٹس کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپائنٹمنٹ بک کر لیتے ہیں۔
تاہم ویزا درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ بی ایل ایس کے دفتر پر درجنوں درخواست گزار موجود ہوتے ہیں۔ اگر روزانہ صرف دو یا تین اپوائنٹمنٹس ملتی ہیں تو وہاں موجود درخواست گزار لوگوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہیے؟
ایجنٹ کیسے اپوائنٹمنٹس بک کرتے ہیں؟
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسلام آباد کی ایک ٹریول ایجنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹریول ایجنٹس ایمبسی سے لائسنس حاصل کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ درخواست گزاروں کی مدد کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ جب ایک رجسٹرڈ ویزا کنسلٹنٹ کی جانب سے ایمبیسی کو ویزے کی درخواست موصول ہوتی ہے تو اس میں ایجنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس بات یو یقینی بنائے کہ دستاویزات تصدیق شدہ اور مکمل ہو۔
’کیونکہ ایمبیسی کو پتا ہوتا ہے کہ درخواست ان کے اپنے ایجنٹ کے ذریعے آئی ہے تو ایپلیکیشن کی تصدیق کا عمل جلد مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایجنٹس کی ایمبیسی میں جان پہچان بھی ہوتی ہے۔ اگر کسی کا ویزا جلدی لگوانا ہو تو جلدی اپوائنٹمنٹس کی گزارش بھی کی جا سکتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ درخواست گزاروں کو چاہیے کہ وہ جس بھی ٹریول ایجنٹ سے بات کریں تو ان سے ان کے لائسنس کی کاپی مانگیں۔
’اگر ایجنٹ مخلص ہے تو انھیں اپنے لائسنس کی کاپی دینے سے ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔ اس لائسنس پر کیو آر کوڈ اور لائسنس نمبر دونوں درج ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کو اپنے لائسنس کی تفصیلات نہ دے تو سمجھ جائیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ایجنٹس کا ایک مافیا بن چکا ہے۔ اگر کوئی ایجنٹ 50 کیس لے رہا ہے تو اس میں سے وہ 40 درخواست گزاروں کا کام آرام سے کر دے گا لیکن ہو سکتا ہے کہ باقی دس کیس میں وہ کسی پوائنٹ پر آ کر آپ سے کہہ دے کہ فلاں دستاویز چاہیے یا اپوائنٹمنٹ نہیں مل رہی تو آپ مجھے مزید کچھ رقم دے دیں۔ میں یہ کام کروا دوں گا۔‘
’اگر ایجنٹ کے بقول آپ کی ویزا کی درخواست میں کچھ کمی بیشی آ رہی ہے تو آپ ایجنٹ سے کہیں کہ وہ آپ کو اس کا دستاویزی ثبوت دے تاکہ آپ اپنے طور پر بھی یونیورسٹی یا ایمبیسی سے پتہ کر سکیں کہ آیا یہ مسئلہ ہے بھی یا نہیں۔ ایجنٹ سے تفصیلات مانگنا آپ کا حق ہے۔‘
ٹریول ایجنٹ نے بتایا کہ اٹلی کے سٹوڈنٹ ویزا لگوانے کے لیے کنسلٹنٹ کے پاس ای این آئی ٹی (ENIT) لائسنس موجود ہونا چاہیے۔
’اس لائسنس کو حاصل کرنے کے لیے ایمبیسی کی مطلوبہ شرائد پوری کرنی ہوتی ہیں۔ پھر ہی آپ کو یہ لائسنس مل سکتا ہے۔ بنیادی طور پر آپ کو ویزا عمل کے بارے میں ساری معلومات ہونی چاہیے ہیں۔‘
دوسری جانب فیضان علی کا کہنا ہے کہ اٹلی کا ویزا لگوانے کے لیے آن لائن اپوائنٹمنٹس کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ جو شخص اپنی ویزا ایپلیکشن کے لیے اپوائنٹمنٹ لے رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ درخواست گزار خود ہو۔
انھوں نے کہا کہ آن لائن اپوائنٹمنٹس لینے کا سلسلہ ختم کرنے کے علاوہ اٹلی ایمبیسی کو چاہیے کہ بی ایل ایس کے پاکستان میں موجود پورے چھ دفاتر کو فعال کیا جائے اور اتنا عملہ رکھا جائے کہ دن میں 15 سے 20 اپوائنٹمنٹس دی جا سکیں جس سے درخواست گزاروں کی تعداد سے جلد نمٹنے میں آسانی ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بی ایل ایس کو چاہیے کہ اپنی ویب سائٹ کو اتنا مضبوظ بنائے کہ اس پر بوٹس کا استعمال نہ کیا جا سکے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ابوبکر نے کہا کہ وہ اٹلی میں ڈیٹا سائنس پڑھنے جانا چاہتے ہیں اور ان کی یہی کوشش ہو گی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس وطن لوٹیں۔
’میں اپنے وطن سے محبت کرتا ہوں اور یہیں اپنے قدم جمانا چاہتا ہوں لیکن باہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی ایجنٹ کو اپنے والدین کی محنت کی کمائی دینا مجھے گوارا نہیں۔‘
’میں چاہتا ہوں کہ یہ ایجنٹ مافیا ختم ہو جائے، اس لیے میں کھلے عام احتجاج کر رہا ہوں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ مجھے ویزا نہیں ملے گا؟ وہ تو ابھی بھی نہیں مل رہا۔‘
’شینگن ویزا‘ کا حصول کس طرح ’بلیک مارکیٹ‘ میں پیسہ کمانے کا ذریعہ بن رہا ہےکینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے اور اس کے لیے کن شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے؟اسلام آباد میں اٹلی کے سفارتخانے سے ’ایک ہزار شینگن ویزا سٹِیکرز‘ چوری، پاکستانی ایئرپورٹس کو الرٹ جاری