Getty Imagesفرانس سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ کوہ پیما بینجمن ویڈرینز نے صرف دس گھنٹے 59 منٹ اور 59 سیکنڈ میں کے ٹو کی چوٹی پر پہنچ کر دنیا کو چونکا دیا
’میں ’کے ٹو‘ کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے بلا رہی ہے، پکار رہی ہے، سو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کے ٹو پر جانا ہے۔‘
فرانس سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ کوہ پیما بینجمن ویڈرینز نے جب اس ’بلاوے‘ پر لبیک کہا اور دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ ’کے ٹو‘ کی چوٹی پر پہنچنے کا عزم کیا تو شاید وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اس کوشش کے دوران جہاں وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہوں گے وہیں وہ یہ کام اتنی تیزی سے کر لیں گے کہ ایک نیا ریکارڈ بن جائے گا۔
بینجمن نے کے ٹو کو صرف دس گھنٹے 59 منٹ اور 59 سیکنڈ میں سر کرکے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ ان سے پہلے دنیا کے خطرناک ترین چوٹیوں میں سے ایک کو سب سے کم وقت میں سر کرنے کا اعزاز بینجمن کے ہی ہم وطن بیویٹ چوموکس کے پاس تھا جنھوں نے 38 برس قبل 1986 میں 23 گھنٹوں میں یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری کہتے ہیں کہ کے ٹو کو 23 گھنٹے میں سر کرنے کا ریکارڈ توڑنے میں چار دہائیاں لگیں۔ ’توقع تو یہ تھی کہ شاید کچھ منٹ کا فرق آجائے یا زیادہ سے زیادہ ایک، دو گھنٹے کے فرق سے ریکارڈ ٹوٹے گا مگر یہاں پر تو تقریباً 11 گھنٹے کا فرق ہے اور بینجمن ویڈرینز نے تو اپنے ہم وطن کا ریکارڈ آدھے سے بھی کم وقت میں توڑ دیا ہے۔‘
کرار حیدری کے مطابق ویڈرینر نے تیز رفتاری کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس کا بظاہر مستقبل میں ٹوٹنا مشکل ہی لگتا ہے۔
بینجمن ویڈرینر خود کو ’الپینسٹ‘ کہلواتے ہیں یعنی وہ کوہ پیما جو گلیشیئرز والے پہاڑ سر کرتے ہیں۔ ویڈرینز نے اپنے کوہ پیمائی کے کریئر میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند صرف دو پہاڑ ہی سر کیے ہیں لیکن تیز رفتاری سے ایسے پہاڑوں پر چڑھنے کے شوقین یہ مہم جو دونوں جگہ ریکارڈ قائم کر نے میں کامیاب رہے ہیں۔
وہ دو مرتبہ براڈ پیک سر کر چکے ہیں اور اب دوسری کوشش میں کے ٹو کی چوٹی پر پہنچے ہیں۔ انھوں نے دو برس قبل دنیا کی 12ویں بلند ترین چوٹی براڈ پیک کو صرف سات گھنٹے 28 منٹ میں سر کر کے ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ریکارڈ بھی بینجمن نے ساڑھے سات گھنٹے کے بڑے فرق سے توڑا تھا۔ ان سے پہلے یہ اعزاز سویڈش کوہ پیما سویڈن گوران کروپ نے 1994 میں 15 گھنٹے میں چوٹی پر پہنچ کر بنایا تھا۔
Getty Imagesکے ٹو کی ادھوری مہم سے بینجمن فرانس واپس تو آ گئے لیکن انھیں لگتا تھا کہ ہمالیہ اور قراقرم انھیں بلا رہے ہیں
بینجمن ویڈرینز کے لیے پہاڑوں کے عشق کا یہ سفر آسان تھا نہ اس میں کامیابی آسانی سے ملی۔ کے ٹو پر اپنی پہلی مہم کے دوران وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں بھی مبتلا رہے۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’مجھے بچپن ہی سے پہاڑوں سے عشق تھا۔ میں ہمیشہ سے ہی کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ جب ہوش سنھالا تو کوہ پیمائی کی تربیت حاصل کی اور ماؤنٹین گائیڈ بن گیا۔ پھر میری دلچسپی الپینسٹ میں ہو گئی سو کئی گلیشیئر والے پہاڑ سر کیے۔
’ہمالیہ اور قراقرم مجھے ہمیشہ ہی سے اپنی طرف بلاتے تھے۔ میں دو سال پہلے براڈ پیک سر کرنے کے لیے گلگت بلتستان پہنچا۔ یہ نہیں تھا کہ میں کوئی ریکارڈ بنانا چاہتا تھا یا میری یہ خواہش تھی کہ میں ریکارڈ بناؤں۔ بس میں مختلف کرنا چاہتا تھا سو میں نے اپنا پورا زور لگایا۔ اپنے اپ کو فوکس رکھا اور پھر میں نے براڈ پیک پر تیز رفتاری کا ریکارڈ توڑ دیا۔ براڈ پیک کی چوٹی پر پہنچ کر میں نے وہاں سے پیرا گلائیڈنگ بھی کی تھی۔‘
بینجمن کا کہنا تھا کہ ’ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ براڈ پیک سر کرنے کے چند دن بعد میں کے ٹو کو دیکھنے گیا تو اسے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے بلا رہی ہے، پکار رہی ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے کےٹو پر جانا ہے۔‘
Getty Imagesکے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہورحصہ تقریباً آٹھ ہزار میٹر سے شروع ہوتا ہے’شکر ہے کہ زندہ واپس آ گیا‘
بینجمن کو 2022 میں براڈ پیک کی سر کیے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ وہ کے ٹو کی مہم پر روانہ ہو گئے۔
’میں تھکا ہوا تھا، میرا جسم تیار نہیں تھا اور شاید میں دماغی طور پر بھی تیار نہیں تھا۔ میرے پاس کوئی مناسب معلومات نہیں تھیں، نہ میں نے کوئی ماہرانہ رائے لی تھی مگر مجھے اس وقت لگا تھا کہ کے ٹو مجھے بلا رہا ہے۔ اس کی شان نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔‘
کے ٹو جہاں بلند چوٹیوں کو تسخیر کرنے والے کوہ پیماؤں کے دلوں میں ’ایڈونچر‘ یا مہم جوئی کے جذبات جگاتی ہے وہیں یہ چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ سے بھی زیادہ خوفناک سمجھی جاتی ہے۔ اس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کے ٹو پر اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس ایورسٹ پر یہی شرح چار فیصد ہے۔
فرانسیسی کوہ پیما کے مطابق بیس کیمپ سے لے کر کیمپ فور تک ان کا سفر ٹھیک رہا لیکن ’بوٹل نیک‘ پر ان کی طبیعت بگڑ گئی۔
سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور علاقہ تقریباً آٹھ ہزار میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے۔ یہاں کوہ پیماؤں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔
ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔
بینجمن کا کہنا تھا ’سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر جب بوٹل نیک پر پہنچا تو بیمار ہو گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔‘
وہ خاتون جو سردیوں میں بغیر آکسیجن ’کے ٹو‘ سر کرنا چاہتی ہیںنیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کر دی، کے ٹو کو موسم سرما میں پہلی بار سر کر لیا گیا’خوش قسمتی ہے کہ K2 نے ہمیں خود کو سر کرنے کی مہلت دی، یہ بڑی بات ہے‘
ان کے مطابق ’اس وقت بس ایک سوچ تھی کہ اب جب چند سو میٹر دور ہوں تو مجھے اوپر جانا چاہیے مگر میرا جسم اور دماغ ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ میرے دماغ کو آکسیجن بھی نہیں مل رہی تھی۔ وہ لمحے خطرناک تھے۔ بہت ہی زیادہ خطرناک تھے۔ مگر میں دماغی طور پر بہت مضبوط تھا اور میرا جذبہ بھی جوان تھا۔‘
’اس موقع پر کچھ دوست کام آئے جنھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے بوٹیل نیک سے اوپر نہیں جانا چاہیے۔ ان ہی دوستوں نے ہی نیچے اترنے میں مدد دی۔ پہلے مجھے کیمپ فور پر لے کر آئے جہاں پر میرے جسم کو گرم کیا گیا اور اس کے بعد کیمپ تھری، ٹو اور بیس کیمپ پر لائے جہاں پہنچ کر میری طبعیت بہتر ہونا شروع ہوئی۔‘
بینجمن کے مطابق ان کے ساتھ جو کچھ بوٹیل نیک پر ہوا وہ بہت ہی خطرناک تھا اور وہ شکر اداکرتے ہیں کہ زندہ واپس آ سکے۔
بینجمن کو جس تاریخ کو کے ٹو سر کرنے کی مہم ادھوری چھوڑنی پڑی وہ جولائی کی 28 تاریخ تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تاریخ میرے دل و دماغ میں پیوست ہو گئی تھی‘ اور دو برس بعد انھوں نے اسی تاریخ کو کے ٹو کو سب سے کم وقت میں سر کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
’دوست کی خاطر نانگا پربت سر نہیں کی‘
کے ٹو کی ادھوری مہم سے بینجمن فرانس واپس تو آ گئے لیکن ان کے بقول ’مجھے لگتا تھا کہ ہمالیہ اور قراقرم مجھے بلا رہے ہیں، مجھے کے ٹو سے عشق ہو گیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس موقع پر مجھے مشورہ دیا گیا اور میں نے خود بھی سوچا کہ ابھی کے ٹو پر تو نہیں مگر مجھے ہمالیہ اور قراقرم تو جانا ہی تھا۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ 8,126 میٹر بلند دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کا رخ کروں۔
’اسے سر کرنے کا اس لیے بھی سوچا کہ مجھے کے ٹو کو تیز رفتاری سے سر کرنا تھا اور وہاں بہرحال تیاری کے بغیر جانا خطرناک تھا۔ ایک سال پہلے کا حادثہ ابھی بھی تازہ تھا جس کے لیے نانگا پربت کی مہم جوئی مددگار ثابت ہو سکتی تھی۔‘
بینجمن کے مطابق نانگا پربت کی مہم جوئی الپائن سٹائل مہم جوئی تھی جس میں کوہ پیما کے پاس زیادہ سازوسامان، آکسیجن اور خوراک وغیرہ نہیں ہوتی اور وہ رسی کی مدد بھی نہیں لیتے یا بہت کم استعمال کرتے ہیں۔
’نانگا پربت پر سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ میں سات ہزار میٹر سے اوپر پہنچا تو وہاں پر میرا ایک ساتھی کوہ پیما بہت تھک گیا تھا۔ اس کی حالت خراب ہوچکی تھی اور اس کے لیے مزید اوپر جانا ممکن نہیں رہا تھا۔‘
بینجمن کے مطابق اگرچہ وہ خود نانگا پربت کی چوٹی پر پہنچ سکتے تھے لیکن اپنے ساتھی کی جان خطرے میں دیکھ کر انھوں نے اپنی وہ مہم وہیں ترک کی اور ساتھی کوہ پیما کو لے کر نیچے اتر آئے۔
’مجھے لگ رہا تھا کہ میری منزل قریب ہے مگر میں خود غرض نہیں ہو سکتا تھا۔ میرے ساتھی اور دوست کی زندگی خطرے میں تھی۔ بس اس موقع پر فیصلہ کیا کہ یہ مہم ابھی نہیں بلکہ پھر ہو گی ویسے بھی یہ مہم تو کے ٹو کی تیاری کے لیے تھی۔ مجھے لگا کہ میں کے ٹو کے لیے تیار ہوں اور اس وقت دوست کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے۔‘
Getty Imagesفرانسیسی کوہ پیما کے مطابق براڈ پیک پر ریکارڈ بنانے اور کے ٹو کی ناکام مہم کے بعد سے ہی انھوں نے دوبارہ دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ پر مہم کی تیاری شروع کر دی تھی’کے ٹو کو دیکھا تو کہا میں آ گیا ہوں‘
فرانسیسی کوہ پیما کے مطابق براڈ پیک پر ریکارڈ بنانے اور کے ٹو کی ناکام مہم کے بعد سے ہی انھوں نے دوبارہ دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ پر مہم کی تیاری شروع کر دی تھی۔ ’میں نے اپنے جسم کو تیار کرنے کے لیے جسمانی اور دماغی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ کوہ پیمائی اور بالخصوص کے ٹو جیسے پہاڑ کے لیے اور پھر اسے تیز رفتاری سے سر کرنے کے لیے جہاں پر یہ ضروری ہے کہ آپ جسمانی طو رپرمضبوط ہوں وہاں پر دماغی طور پر مضبوط ہونا بھی لازم تھا۔
’میں ہفتے میں 20 سے 22 گھنٹے جسمانی اور دماغی تربیت لیتا تھا۔ نانگا پربت سے واپسی پر بھی یہی تربیت لیتا رہا تھا اور پھر ایک سال بعد وہ وقت آ گیا کہ میں دوبارہ کے ٹو پہنچ گیا۔ اسے دیکھا تو میں نے کہا کہ میں آگیا ہوں۔مجھے یہ لگا کہ کے ٹو کہہ رہی ہو کہ آؤ میں تمھارا انتطار کر رہی ہوں۔‘
کے ٹو کے اس سفر کے بارے میں بینجمن بتاتے ہیں کہ جب وہ کے ٹو پر پہنچے تو اس وقت بہت مسائل تھے۔ ’بہت تیز ہوا چل رہی تھی، موسم بار بار خراب ہو رہا تھا۔ بہت سے کوہ پیما اپنی مہم کو کچھ وقت کے لیے ملتوی کر رہے تھے۔‘
ان کوہ پیماؤں کے برعکس بینجمن نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ’میں نے آدھی رات کو سفر شروع کیا۔ میرے ساتھ کوئی پورٹر، ساتھی یا مدد گار نہیں تھا۔ میں اکیلا رات میں سفید برف پر چل رہا تھا۔ اس وقت کوئی اور کوہ پیما بھی نہیں تھا۔ اس وقت میرا جذبہ عروج پر تھا اور میری ہمت جوان تھی اور سب نظریں مجھ پر تھیں کیونکہ سب جانتے تھے کہ میں تیز رفتاری سے یہ مہم سر کرنا چاہتا ہوں۔‘
فرانسیسی کوہ پیما کے مطابق انھوں نے پہاڑ سر کرنے کے لیے روایتی راستہ اور وہاں پہلے سے نصب رسیوں سے مدد لی۔
’کیمپ ون پر بالکل نہیں رکا۔ کیمپ ٹو پر شاید چند سیکنڈ۔ کیمپ تھری پر کچھ وقت رکا اور کیمپ فور پر زیادہ وقت گزارا۔ اس دوران پینے کے لیے گرم پانی استعمال کر رہا تھا۔‘
خیال رہے کہ کے ٹو کا کیمپ ون 6000 میٹر، کیمپ ٹو 6760، کیمپ تھری 7350 جبکہ کیمپ فور 8000 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
بینجمن کا کہنا ہے کہ ’اس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ میں کتنا وقت لگا رہا ہوں اور کتنا وقت لگنا چاہیے، بس میں تیز رفتاری سے سفر کر رہا تھا۔‘
ان کے مطابق کیمپ فور پر کچھ وقت گزار کر جب وہ آگے بڑھے تو ان کا سامنا ’بوٹیل نیک‘ سے ہوا۔
’میں آگے بڑھا اور بوٹیل نیک سے گزرتے ہوئے یہ بھول گیا کہ دو سال پہلے اسی مقام پر میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا، بس اتنا یاد تھا کہ کے ٹو مجھے بلا رہا ہے اور میں اس کے پاس پہنچ گیا ہوں۔‘
کے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟کوہ پیماؤں کے چوٹی سر کرنے کے دعوے کی تصدیق کیسے ہوتی ہے؟حسن شگری: کے ٹو کی ’موت کی گھاٹی‘ سے نکالی گئی لاش جسے نکالنے کا ’فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے ہوا‘