Getty Imagesمحمد زاہد نے ڈیبیو پر 11 وکٹیں حاصل کر کے پُراعتماد کیویز کو چکرا کر رکھ دیا تھا
28 نومبر 1996 کی خنک صبح جب کیوی بلے باز راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں اترے تو انھیں اندازہ نہ تھا کہ ان کا پالا کس سے پڑنے والا تھا۔ ان کا اعتماد پہلے ٹیسٹ میچ میں وقار یونس اور مشتاق احمد کی تباہ کن بولنگ اور محمد وسیم کی شاندار ڈیبیو سینچری کے باوجود ایک سنسنی خیز فتح کے بعد ساتویں آسمان پر تھا۔
راولپنڈی کے اس میچ میں پاکستانی ٹیم کو وسیم اکرم کے بعد اب وقار یونس کی بھی انجری کا سامنا تھا اور دو میچوں کی سیریز میں پاکستان کی امید گگو منڈی کا ایک 'دبلا پتلا فاسٹ بولر' محمد زاہد تھا جس نے ڈیبیو پر 11 وکٹیں حاصل کر کے پُراعتماد کیویز کو چکرا کر رکھ دیا۔
پی سی بی گیند مہیا کرنا ہی بھول گیا
’کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہو گا کہ ہم سب میدان میں تھے، فیلڈنگ سیٹ ہو گئی، بیٹسمین آ گئے، امپائر بھی آ گئے مگر کھیل 20 منٹ رکا رہا (کیونکہ) بورڈ والوں نے انھیں گیند ہی نہیں دی تھی۔ پھر ایک مقامی دکان سے گیند منگوائی گئی۔‘ کرک انفو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، محمد زاہد مسکراتے ہوئے اس واقعے کو اپنی خوش قسمتی سے جوڑتے ہیں۔
’مجھے مقامی گیند سے بولنگ کا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے سائیڈ میچ میں، میں نے ان کے بہت آؤٹ کیے تھے، میں نے دیکھ لیا تھا کہ ان (کیوی بلے بازوں) کی ٹانگ ہی نہیں نکل رہی تھی۔‘
شیخ ظفر علی سٹیڈیم ساہیوال میں کھیلے گئے اس سائیڈ میچ میں محمد زاہد نے 54 رنز دے کر چھ کیوی بلے بازوں کو آؤٹ کیا تھا جس کی بدولت وہ چیف سلیکٹر ظہیر عباس کی نظروں میں آئے۔
’وقار بھائی بھی انجرڈ ہو گئے تو انھوں (ظہیر عباس) نے مجھے کہا، تم پنڈی ٹیسٹ کھیل رہے ہو۔ اور پھر میں پنڈی کی فلائٹ پر تھا۔‘
نئے اور پرانے گیند کے ساتھ یکساں کاٹ
کئی پاکستانی انٹرنیشنل کرکٹرز کی گرومنگ اور ڈومیسٹک کرکٹ میں شعیب اختر و محمد زاہد، دونوں کی کوچنگ کرنے والے صبیح اظہر کا بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ محمد زاہد نئے اور پرانے گیند کے ساتھ یکساں موثر تھے۔
’زاہد اس وقت آنے والے سارے بولرز سے آگے تھا، تیز بولنگ کرتا تھا اور ذہین تھا۔ اس کی آرم سپیڈ بہت اچھی تھی۔ پیس کے ساتھ گیند سوئنگ کرتا تھا۔ ویسے پیس شعیب اختر کی بھی بہت تھی لیکن اس کی سوئنگ اتنی نہیں تھی جتنی زاہد کرتا تھا۔ میری کوچنگ میں تو وہ تب آیا جب پاکستان (کے لیے) کھیل چکا تھا۔‘
صبیح اظہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جینوئن فاسٹ بولر پیدائشی ہوتے ہیں، کوئی کوچ انھیں نہیں بنا سکتا۔ زاہد بھی ایسا ہی نیچرل ٹیلنٹ تھا مگر لمبا چلنے کے لیے اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
AFPبرائن لارا آج بھی یہی کہتے ہیں کہ اپنے کریئر میں انھوں نے محمد زاہد سے تیز بولر کا سامنا نہیں کیابرائن لارا کے کرئیر کا تیز ترین بولر
نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے بعد پاکستان نے آسٹریلیا میں ٹرائی اینگولر سیریز کھیلی جہاں تیسری ٹیم ویسٹ انڈیز تھی اور یہاں کرکٹ کے ’پرنس‘ برائن چارلس لارا کا پالا محمد زاہد سے پڑا۔
برائن لارا اور محمد زاہد کا مقابلہ اگرچہ زیادہ طویل نہ ہو پایا مگر اس مختصر ’ملاقات‘نے ہی لیجنڈری ویسٹ انڈین پیسر مائیکل ہولڈنگ کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز یاد دلا دیے۔
برسوں بعد بھی برائن لارا کے ذہن میں اس مقابلے کی یاد تازہ ہے اور وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ اپنے کریئر میں انھوں نے محمد زاہد سے تیز بولر کا سامنا نہیں کیا۔ گو، اس دور میں ٹیکنالوجی کی کمی اور سپیڈ گن کی کمیابی کے سبب اس دعوے کی حتمی توثیق نہیں کی جا سکتی مگر عہد ساز برائن لارا کی گواہی بجائے خود کسی توثیق سے کم نہیں۔
مائیکل ہولڈنگ، میلکم مارشل اور وسیم اکرم کا امتزاج
اپنی بے پناہ پیس سے ساؤتھیمپٹن میں برائن لارا کو زخمی کر دینے والے شعیب اختر بھی لارا کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ محمد زاہد کے ہمراہ ڈاکٹر نعمان نیاز کو دیے گئے یو ٹیوب انٹرویو میں شعیب کا کہنا تھا کہ جب زاہد نے ڈیبیو پر 11 وکٹیں لیں تو ’ہم سب پیسرز نے کہا، بھئی! اگلے دس سال یہی کھیلے گا۔ ہمارا کوئی چانس نہیں۔‘
شعیب اختر کے مطابق ’میں ہمیشہ مانتا تھا کہ زاہد مجھ سے بہتر ایتھلیٹ تھا۔ مجھ سے تیز تھا، دنیا میں اگر کوئی ردھم کے اعتبار سے درست ترین فاسٹ بولر تھا تو وہ زاہد تھا کہ اس میں مائیکل ہولڈنگ جیسا رن اپ، میلکم مارشل کی طرح ہوا میں پیس اور وسیم اکرم جیسی چالاکی تھی۔‘
ڈومیسٹک کرکٹ میں زاہد کے ہمراہ پی آئی اے کے بولنگ اٹیک کی قیادت کرنے والے شعیب اختر کے خیال میں اگر زاہد کا ڈیبیو چار سال پہلے ہو جاتا تو شاید ان کا کرئیر مختلف ہوتا۔ شعیب اختر کی اس بات میں وزن نظر آتا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں 1994 کا سیزن زاہد کے لیے بہترین سال تھا جب وہ بھرپور ردھم اور پیس کے ساتھ بولنگ کر رہے تھے۔
لیکن یہ الگ حقیقت ہے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے فاسٹ بولرز کے فارم میں ہوتے ہوئے، کسی بھی نئے بولر کے لیے پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانا ناممکن تھا۔
Getty Imagesمحمد زاہد نئے اور پرانے گیند کے ساتھ یکساں موثر تھے ’تیز بولنگ کرو گے تو پاکستان کے لیے کھیلو گے‘
’میں نے بچپن سے یہی سنا تھا کہ اگر تیز بولنگ کرو گے تو پاکستان کے لیے کھیل سکو گے۔‘ زاہد کے کان پڑی یہ بات پنجاب کے اس خطے کے فاسٹ بولنگ کلچر کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔
زاہد سے پہلے دنیائے کرکٹ پر اپنی رفتار سے دہشت جمانے والے وقار یونس بوریوالہ ایکسپریس کے نام سے پہچانے گئے۔ وقار یونس کے بوریوالہ سے محض بیس منٹ کی ڈرائیو پہ واقع گگو منڈی زاہد کا آبائی شہر ہے جو بہت زرخیز کرکٹ کلچر رکھتا ہے۔
گگو منڈی ہی وہ شہر ہے جہاں سے بعد میں محمد عرفان جیسے طویل قامت فاسٹ بولر آئے۔ وقار یونس اور زاہد کے علاوہ محمد شبیر اور راؤ افتخار انجم بھی اسی ریجن سے تعلق رکھتے تھے۔
وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟نسیم شاہ: ’والد نے کہا انگریز والا کھیل مت کھیلو‘میلکم مارشل: وہ فاسٹ بولر جو ’صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری جان لیتے‘جونٹی رہوڈز بننے کا جنون اور انجری
’ڈومیسٹک کرکٹ میں ہم پہ دباؤ ہوتا تھا کہ کون لمبے سپیل کر سکتا ہے۔ میں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی بیس، بائیس اوورز کے سپیل پھینکے۔ تب میری فٹنس کا یہ (عالم) تھا کہ صبح گیند پکڑی تو چائے کے وقفے تک مسلسل بولنگ کرتا چلا گیا۔‘
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جہاں دبلے پتلے جسم کے ساتھ اس قدر تیز اور متواتر بولنگ کبھی بھی محمد زاہد کی انجری کا باعث نہ بنی وہیں فیلڈنگ پریکٹس کا ایک سیشن ان پہ ایسا بھاری پڑا کہ کمر ہی ٹوٹ گئی۔
’ہم لوگ سری لنکا میں تھے۔ ان دنوں جونٹی رہوڈز کی فیلڈنگ کا بہت کریز تھا اور ہم لوگ شارٹ سنگل روکنے کی ڈائیونگ پریکٹس کر رہے تھے۔ سری لنکا کے گراؤنڈز ریتلے ہوتے ہیں، میری چیسٹ ریت میں دھنس گئی، ٹانگیں فولڈ ہو کر کمر پر آ گئیں اور سانس ہی رک گئی۔
’اگلے دن ٹیسٹ میچ تھا۔ کوچ جاوید بھائی (جاوید میانداد) تھے، انھوں نے سکواڈ ہی 14 کی بجائے 12 کھلاڑیوں کا رکھا تھا اور وسیم بھائی بھی انجرڈ ہو گئے۔ رمیز بھائی کپتان تھے، انھوں نے مجھے ٹیم میں ڈال دیا۔ میں انھیں کہتا رہا، مڈ آف پر سلیم بھائی (سلیم ملک) کھڑے تھے، انھیں بھی بتاتا رہا کہ مجھے درد ہو رہا ہے مگر وہ مجھ سے لمبے سپیل کرواتے گئے۔‘
زاہد اب تاسف سے یاد کرتے ہیں کہ میچ کے بعد جب وہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے انھیں بتایا کہ اگر وہ اتنے درد میں میچ نہ کھیلتے تو یہ چوٹ قدرتی طور پہ ٹھیک ہو سکتی تھی ’مگر تب تک سرجری ضروری ہو چکی تھی۔‘
Getty Imagesجہاں دبلے پتلے جسم کے ساتھ اس قدر تیز اور متواتر بولنگ کبھی بھی محمد زاہد کی انجری کا باعث نہ بنی وہیں فیلڈنگ پریکٹس کا ایک سیشن ان پہ ایسا بھاری پڑا کہ کمر ہی ٹوٹ گئیجب ڈریوڈ، گنگولی اور تندولکر بوکھلا گئے
لیکن اس سنگین چوٹ اور سرجری کے باوجود زاہد کی رفتار اور کاٹ میں زیادہ فرق نہیں آیا اور چھ ہی ماہ بعد جب کینیڈا میں صحارا کپ کے دوران ایک نہایت مضبوط انڈین بیٹنگ لائن سامنے آئی تو زاہد کا جادو پھر سر چڑھ کر بولا۔
وہ انڈین بیٹنگ آرڈر اظہر الدین، راہول ڈریوڈ، سچن تندولکر اور سارو گنگولی جیسے بلے بازوں پر مشتمل تھا مگر زاہد کی بےپناہ پیس اور سوئنگ کے سامنے ان سب گھاگ بلے بازوں کے قدم ڈولتے نظر آئے۔
صبیح اظہر کہتے ہیں کہ جب کوئی بولر اتنی زیادہ رفتار سے گیند کو سوئنگ کرنے لگتا ہے تو اچھے اچھے بلے باز کے لیے بھی سنبھلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ’اس کی نیچرل ان سوئنگ تھی اور رفتار تو بہت زیادہ تھی۔‘
’بورڈ کو میری شکل پسند نہیں تھی‘
پہلے ہی میچ میں 11 وکٹیں لینے والے محمد زاہد کے پہلے میچ میں جس طرح راولپنڈی کے شائقین نے ان کی ہر گیند پر داد دی، اس سے یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ اس شاندار کرکٹر کا سات سالہ انٹرنیشنل کرئیر فقط پانچ ٹیسٹ میچوں تک ہی محدود رہ جائے گا۔
کئی برس پہلے ڈان کے ساتھ ایک انٹرویو میں زاہد نے شکوہ کیا تھا کہ بورڈ کو ان کی شکل پسند نہیں تھی، ’میں ڈومیسٹک کرکٹ میں جان مارتا رہا، مگر مجھے دوبارہ موقع نہیں دیا گیا۔‘
حالانکہ کمر کی سرجری کے باوجود زاہد کا عزم نہیں ڈولا تھا اور انھوں نے بہترین کم بیک کیا مگر پھر ایک وارم اپ سیشن میں فٹبال کھیلتے ہوئے، ان کا گھٹنا ٹوٹ گیا۔ ’ڈیڑھ سال تو میں گھر پر پڑا رہا، کسی نے پوچھا تک نہیں، یہاں (پاکستان میں) اس کا علاج تھا نہیں، میری والدہ مالش کرتی رہیں کہ اسی سے ٹھیک ہو جائے گا۔‘
زاہد کے شکوے اپنی جگہ لیکن کوچ صبیح اظہر کے خیال میں فاسٹ بولرز کو انجری سے بحالی کے بعد کم بیک کرنے کے لیے جتنی محنت درکار ہوتی ہے، شاید وہ اُتنی محنت نہیں کر پائے۔
’اس کا ایکشن کا مسئلہ تھا۔ فرنٹ فٹ لینڈنگ اور بیک فٹ لینڈنگ ایک لائن میں نہیں تھی۔ اس کا فرنٹ فٹ باہر نکل جاتا تھا۔ اس ایکشن پہ کام کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں ہو پایا۔‘
محمد زاہد کے ہمعصر پیسر اور پاکستان کے سابق بولنگ کوچ محمد اکرم بھی صبیح اظہر کے اس مؤقف کی تائید کر چکے ہیں۔ ’اس کا ایکشن بہت سٹریس فُل تھا۔ ایسے ایکشن کے ساتھ انتہائی رفتار پہ بولنگ کرنے سے انجری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
لیکن آج کل لیور پول میں مقیم اور مقامی کرکٹ اکیڈمی میں نوجوان فاسٹ بولرز کی رہنمائی کرتے ہوئے، محمد زاہد، مسکرا کر اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ ’میری دونوں بڑی چوٹیں تب لگیں جب میں بولنگ نہیں کر رہا تھا۔ خیر، اب ان باتوں کا کیا فائدہ، یہ سب قسمت کی بات ہے، جو ہو گیا، سو ہو گیا۔‘
زاہد کی یہ بات بھی دلیل سے عاری نہیں اور فاسٹ بولرز کی دیکھ بھال میں پی سی بی کا ٹریک ریکارڈ بھی کوئی ایسا درخشاں نہیں کہ یہ بحث مکمل طور پہ سمٹ سکے۔ سو، یہ سوال پھر تشنۂ جواب رہ جاتا ہے کہ اگر دنیا کے تیز ترین بولر کی دیکھ بھال ذرا بہتر طریقے سے کر لی جاتی تو کیا اس کریئر کی اٹھان کچھ الگ ہو سکتی تھی؟
بلے بازوں کو آپریشن تھیٹر پہنچا دینے والے بے رحم ویسٹ انڈین فاسٹ بولرزریورس سوئنگ: دنیائے کرکٹ کا ’کالا جادو‘میلکم مارشل: وہ فاسٹ بولر جو ’صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری جان لیتے‘’ویوین رچرڈز نے کہا تمہارے آنے سے بھی فرق نہیں پڑا، سکور صفر ہی ہے‘