فرانس میں حجاب پہننے پر پابندی نے کئی نوجوان کھلاڑیوں کے خواب توڑ دیے

بی بی سی اردو  |  Jul 28, 2024

Getty Imagesامریکہ میں دھوم مچانے والی باسکٹ بال کھلاڑی دیابا کوناتی کھیلنے کے بجائے گھر بیٹھ کر پیرس اولمپکس دیکھیں گی

دیابا کوناتی کالج باسکٹ بال بگ ویسٹ کانفرنس میں سنہ 24-2023 کے لیے سال کی بہترین دفاعی کھلاڑی قرار پائيں۔ باسکٹ بال ان کا جنون ہے۔

23 سالہ ڈفینڈر (پوائنٹ گارڈ) امریکہ میں تقریباً چھ سال گزارنے کے بعد حال ہی میں فرانس میں اپنے آبائی شہر واپس آئی ہیں۔ وہ پانچ سال کے لیے مکمل سکالرشپ پر ایڈاہو سٹیٹ یونیورسٹی گئی تھیں اور اپنے یونیورسٹی کو سنہ 1995 کے بعد پہلی مرتبہ این سی اے اے میں لانے میں کامیاب ہوئیں۔

کچھ باسکٹ بال شائقین نے انھیں رواں سال کے مقابلوں میں نمایاں سٹار قرار دیا ہے۔

ان سب کے باوجود کوناتی اپنے ملک کی قومی ٹیم کے لیے باسکٹ بال نہیں کھیل سکتیں اور وہ پیرس اولمپکس کے دوران فرانسیسی قومی ٹیم کا حصہ بھی نہیں ہو سکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں۔

اسی طرح فرانس کی 400 میٹر ریلے ریس کی ایتھلیٹ سونکمبا سائیلا ہیں جو فرانس کی قومی ٹیم میں شامل ہیں۔ انھوں نے سوموار کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لکھا کہ ان کا حجاب (جو بہت سی مسلم خواتین پہنتی ہیں) انھیں دریائے سین کے کنارے افتتاحی تقریب میں جانے سے روکے گا۔

لیکن پھر فرانس کی اولمپکس کمیٹی نے اس پر غور کیا اور انھیں سر پر ٹوپی پہننے کی اجازت دے کر افتتاحی تقریب میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا۔

اگرچہ اولمپکس نے حجاب کے مباحثے کو ختم کر دیا ہے لیکن فرانس اپنے 'سیکولر کلچر' کے نام پر اس پر پابندی عائد کیے ہوئے ہے جس کے لیے اسے سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔

بی بی سی سپورٹس کی سینیئر نامہ نگار ریا چوہان نے کوناتی سے ملاقات کی جنھوں نے کہا کہ گذشتہ سال ایک ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے موسم گرما کی چھٹیوں میں وہ فرانس آئیں تو انھیں پتا چلا کہ انھیں کورٹ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔

Getty Imagesسوکامبا سائیلا فرانس کی 400X400 ریلے ٹیم میں شامل ہیں'شروع میں لگا کہ یہ کوئی مذاق ہے'

یہ سنہ 2022 میں فرانسیسی باسکٹ بال فیڈریشن (ایف ایف بی بی) کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایک اصولی تبدیلی کی وجہ سے تھا جس کے تحت کسی بھی 'مذہبی یا سیاسی مفہوم والی' کٹ پر واضح طور پر پابندی لگائی گئی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ شروع میں انھوں نے سوچا کہ 'یہ کوئی مذاق ہے۔۔۔ یہ میرے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ میں نے سوچا کہ ہم فیملی ہیں۔ جیسے یہ لوگ ہیں ویسی ہی میں ہوں، ہم ایک ساتھ کھیلتے رہے ہیں، میں سب کا حصہ ہوں۔ میں اب بھی وہی شخص ہوں، کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔'

لیکن 'اس چیز نے واقعی میرا دل توڑ دیا۔'

امریکہ میں کووڈ وبائی مرض کے دوران کوناتی نے حجاب پہننا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں: 'پچھلے تین سالوں سے یہ واقعی میری پہچان رہی ہے ایک ایسی چیز ہے جو میرا حصہ ہے۔

'میں ایک مشکل وقت سے گزری اور مجھے کسی ایسی چیز کی ضرورت تھی جس سے مجھے امید ملے۔ میں نے اپنے آپ پر اور اپنی شناخت پر غور کیا جب سب کچھ غیر یقینی تھا اور میں تنہا محسوس کر رہی تھی۔ میں مسلمان پیدا ہوئی تھی اس لیے میں اپنے مذہب کے بارے میں مزید جاننا چاہتی تھی اور آخر کار مجھے میرے تمام سوالات کے جوابات مل گئے۔'

وہ کہتی ہیں کہ 'فرانس میں یہ بہت ہی منافقت والی بات ہے کہ وہ خود کو آزادی، انسانی حقوق کا علمبردار ملک کہے، لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمانوں یا ان کے شہریوں کو یہ ظاہر کرنے کی اجازت نہ دے کہ وہ کون ہیں۔'

BBCسلیما سائیلا نے پابندی لگنے سے قبل تین سال تک حجاب پہن کر کھیلا ہےکوناتی جیسی کہانیاں

کوناتی جیسی اور بھی کہانیاں ہیں۔ پیرس کے ایک کمیونٹی باسکٹ بال کورٹ میں سلیماتا سیلا ایک سیشن کی میزبانی کر رہی ہیں، جسے وہ کھیل میں دلچسپی رکھنے والی تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک 'محفوظ جگہ' کہتی ہیں۔ یہ حجاب پہننے اور نہ پہننے والوں سب کے لیے ہے۔

جب سے انھوں نے یہ شروع کیا ہے تب سے ایک وقت میں 60 کے قریب خواتین اور لڑکیاں شرکت کر چکی ہیں۔

سیلا کہتی ہیں کہ 'میں باسکٹ بال کی وجہ سے آج آپ کے سامنے ہوں۔'

'باسکٹ بال کا مطلب میرے لیے سب کچھ ہے۔ یہ صرف ایک لفظ نہیں۔ اس نے میری جان بچائی۔ میں ایک ایسے محلے میں رہتی تھی جہاں منشیات تھی۔ باسکٹ بال نے مجھے ایک بہتر انسان بننے، اپنی زندگی میں نظم و ضبط رکھنے اور اپنے آپ کا بہترین ورژن بننے میں مدد کی۔'

سیلا فرانسیسی لیگ کی ٹیم اوبر ویلیئرز میں تھیں لیکن وہ ایک سال سے ان کے لیے نہیں کھیل سکی ہیں اور اس کی وجہ فرانس کا نیا قانون ہے۔

پیرس اولمپکس 2024: سکیورٹی کے سخت انتظامات اور بڑے ایونٹ کی گہما گہمیپنجاب: وہ صوبہ جس کے بغیر انڈیا کی اولمپکس تاریخ ادھوری ہی رہے گیاولمپکس کو حماس سے واقعی کوئی خطرہ یا یہ ایک ’روسی سازش‘؟Getty Imagesگذشتہ روز پیرس اولمپکس کی دریائے سین پر رنگا رنگ تقریبات ہوئیںمتنازع قانون

فرانس کے متنازع 'اسلامی علیحدگی‘ سے متعلق قانون کے منظور ہونے کے تین سال بعد اس نے آہستہ آہستہ فرانسیسی معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر اثرانداز ہونا شروع کر دیا جس میں مسابقتی کھیل بھی شامل ہے۔

یہ قانون نہ صرف کھلاڑیوں پر لاگو ہوتا ہے بلکہ کوچز اور ریفریز پر بھی لاگو ہوتا ہے اور یہ حجاب پہننے والے کسی بھی شخص کو کھیلوں کی مسابقتی جگہ سے مکمل طور پر خارج کر دیتا ہے۔

حالانکہ عالمی فٹبال فیڈریشن فیفا نے ایک دہائی قبل اپنے مذہبی ہیڈ گیئر پر عالمی پابندی اٹھا لی تھی لیکن فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن (ایف ایف ایف) کے تحت ہر سطح پر برسوں سے اس پر پابندی عائد ہے اور باسکٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیبا نے بھی 2017 میں اس قسم کی پابندی ہٹا لی تھی لیکن فرانس میں یہ شدت کے ساتھ نافذ ہے۔

دونوں کھیلوں میں بین الاقوامی سطح پر قوانین میں لائی جانے والی تبدیلیاں مسلم خواتین کی جانبسے چلائی جانے والی برسوں کی مہم کے بعد ایک پیشرفت تھیں۔

پیرس اولمپکس نے کھیل کے میدان میں عددی صنفی برابری حاصل کرنے والے پہلے کھیل کے طور پر تاریخ رقم کی۔ لیکن مسلم فرانسیسی خواتین اور لڑکیوں کو اپنے ملک میں ہی رکاوٹوں کا سامنا ہے جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں نے 'انسانی حقوق کی خلاف ورزی' قرار دیا ہے اور کہا کہ اس کے 'تباہ کن اثرات' ہوں گے۔

Getty Imagesپیرس اولمپکس افتتاحی تقریبدوہرے معیار پر تنقید

سوشل میڈیا پر جہاں اولمپکس کے جشن پر بات ہو رہی ہے وہیں مسلم خواتین کو حجاب کی وجہ سے پابندیوں کے سامنے پر بھی بات ہو رہی ہے۔

لوسیز پورٹریٹ نامی ایک صارف لکھتی ہیں: 'فرانس کی خواتین اپنے حجاب کی وجہ سے اپنا کھیل نہیں پیش کر سکتیں لیکن ایک مرد افتتاحی تقریب میں عملی طور پر اپنی شرمگاہ کو پھولوں سے ڈھک کر پوری طرح برہنہ ہو سکتا اور خود کو نیلے رنگ میں چھپا سکتا ہے۔۔۔ اس کا کیا جواز ہے؟'

فرانس واحد ملک ہے جو 2024 اولمپکس میں اپنے کھلاڑیوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ سنہ 2016 میں تلوار بازی میں تمغہ جیتنے والی امریکی اتھلیٹ ابتہاج محمد نے کہا تھا کہ کھیلوں میں ملسلمانوں کے حجاب پر جو مباحثہ ہے وہ در اصل اسلام سے منافرت پر مبنی ہے۔

مونیشا راجیش نامی صارف نے لکھا کہ 'اولمپکس پوری طرح سے سرکس نظر آ رہا ہے۔ حجاب پر پابندی ہے لیکن ڈچ والی بال ٹیم میں بچے کا ریپ کرنے والے مجرم ٹیم کا حصہ ہو سکتے ہیں اور فلسطینوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ آئی ڈی ایف کے ساتھ مقابلے میں شریک ہوں۔‘

سپورٹس صحافی شیریں احمد لکھتی ہیں کہ ’میں بخوبی واقف ہوں کہ فرانس میں میری بہنوں کو اسی ملک میں کھیلوں تک رسائی نہیں ہے جس پر میں کوریج کر رہی ہوں۔ میں ان کہانیوں کو زیادہ سے زیادہ سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘

مصلحہ نامی ایک صارف نے لکھا: 'ہمارے حجاب سے دور رہو! حجاب پر پابندی کی وجہ سے اولمپکس میں مسلم خواتین حصہ نہیں لے سکتیں۔‘

دریں اثنا کوناتی ابھی یہ فیصلہ نہیں کر سکی ہیں کہ آیا اس کے کھیل کو آگے بڑھانا ہے۔ لیکن حالیہ اولمپکس کھیلوں میں، وہ کبھی نہیں جان سکے گی کہ کیا ہو سکتا تھا۔

وہ کہتی ہیں: 'جو کچھ ہو رہا ہے اسے قبول کرنے کے لیے میں خود پر توجہ مرکوز کر رہی ہوں۔ مجھے واقعی ایسا لگتا ہے کہ میرا ایک شاندار کریئر رہتا، خاص طور پر فرانسیسی قومی ٹیم کے ساتھ کھیلتے ہوئے۔ میرے خیال میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے۔

'یہ سونے پر سہاگہ ہوتا۔'

وہ بھی ملے جلے جذبات کے ساتھ حجاب پہننے والے ایتھلیٹس کے لیے آواز بلند کرنے والوں میں شامل ہو گئی ہیں۔

اولمپکس کو حماس سے واقعی کوئی خطرہ یا یہ ایک ’روسی سازش‘؟فرانس کے سکولوں میں عبایہ پہننے پر پابندی: ’لڑکیاں شارٹس پہن سکتی ہیں تو عبایہ کیوں نہیں؟‘فرانس کا نیا قانون اور مسلمانوں کے خدشات: ’عربی میں بات کی تو خاتون نے مجھے دہشتگرد اور مہاجر کہا‘مسلم ممالک کی خواتین نے فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More