ارشد ندیم: اولمپکس میں پاکستان کو 32 سال بعد گولڈ میڈل دلوانے کی ’واحد امید‘

بی بی سی اردو  |  Jul 24, 2024

BBC

ایک ایتھلیٹ کے لیے کسی بھی بڑے ایونٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے کی امید عام سی بات ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے گولڈ میڈل کا انتظار بھی جڑ جائے تو کچھ الگ سا دباؤ سامنے آتا ہے۔

پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے جیولن تھروئر ارشد ندیم کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہانھیں 32 سال بعد اولمپکس میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنے کی واحد امید سمجھا جا رہا ہے۔

2024 کے اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کا سات رکنی دستہ شرکت کر رہا ہے لیکن ان میں سے ارشد ندیم کو ہی ان کی کارکردگی کی وجہ سے میڈل کا دعویدار سمجھا جا رہا ہے۔

اولمپکس میں شرکت کے لیے پیرس روانگی سے قبل بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اولمپکس ہو رہے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ دباؤ تو ہوتا ہے لیکن جب آپ سٹارٹ پر کھڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی آپ کے ہاتھ میں جیولن آتا ہے اور آپ کا فوکس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی بہترین تھرو کرنی ہے تو اس وقت وہ سارے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ بس یہی جذبہ ہوتا ہے کہ میں نے اپنی بہترین کارکردگی دینی ہے۔‘

اگرچہ یہ ارشد ندیم اور پاکستان کے لیے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کا بہترین موقع ہے تاہم اس مقابلے میں ان کے روایتی حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا بھی ہوں گے جنھوں نے ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا کو گولڈ میڈل جتوایا تھا۔ پیرس اولمپکس کی ویب سائٹ پر ارشد ندیم بمقابلہ نیرج چوپڑا کو ’پانچ بڑے مقابلوں‘ میں شمار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’پیرس 2024 دونوں کے لیے دنیا کا عظیم جیولن تھروئر بننے کا موقع ہے۔‘

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ارشد ندیم جنوبی ایشیا کے پہلے اور واحد ایتھلیٹ ہیں جن کے پاس 90 میٹر سے زیادہ فاصلے تک جیولن پھینکنے کا اعزاز ہے جبکہ نیرج چوپڑا نے اب تک 90 میٹر کا ہدف عبور نہیں کیا ہے۔

ارشد نے یہ اعزاز 2022 کے دولتِ مشترکہ کھیلوں میں حاصل کیا تھا تاہم 2023 میں ایتھلیٹکس کے عالمی مقابلوں میں ارشد اور نیرج چوپڑا جب مدمقابل آئے تو وہ ارشد کامن ویلتھ گیمز جیسی کارکردگی نہیں دہرا سکے تھے اور نیرج کو طلائی اور انھیں چاندی کا تمغہ ملا تھا۔

پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو مقابلوں کا ابتدائی کوالیفیکیشن راؤنڈ چھ اگست کو جبکہ فائنل آٹھ اگست کو منعقد ہو گا۔

BBCارشد ندیم جنوبی ایشیا کے پہلے اور واحد اتھلیٹ ہیں جن کے پاس 90 میٹر کا ہدف عبور کرنے کا اعزاز ہے’کوشش کرتا ہوں بہترین کارکردگی دکھاؤں‘

ہم نے ٹریننگ گراؤنڈ پر موجود ارشد ندیم کو مختلف مشقیں کرتے دیکھا۔ اس دوران وہ مکمل اعتماد کے ساتھ دکھائی دیے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جیسے ہی جیولن ہاتھ سے ریلیز ہوتا ہے تو (اسی وقت) پتا چل جاتا ہے کہ یہ تھرو اچھی ہو گی یا نہیں۔‘

ہر مقابلے کے فائنل میں چھ تھروز ہوتی ہیں مگر ارشد ندیم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’بہتر سے بہتر تھرو‘ کریں۔

پریکٹس کرتے ہوئے ارشد ندیم نے بتایا کہ 90 میٹر کی تھرو کرنے سے قبل ان کی بہترین تھرو 86.38 میٹر کی تھی۔ اس وقت ان کی کوشش تھی کہ ’اگلی تھرو 86.39 میٹر کی کروں۔‘

ابتدائی طور پر کرکٹ اور ڈسکس تھرو کھیلنے والے ارشد ندیم اپنے کیریئر میں کئی بار انجری سے متاثر ہوئے ہیں۔

حال ہی میں 2023 کے دوران بائیں گھٹنے میں انجری کی وجہ سے وہ تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں ایشین چیمپیئن شپ اور 2022 کی ایشین گیمز میں حصہ نہیں لے سکے تھے جبکہ گذشتہ نومبر کے دوران گھٹنے کی انجری کی وجہ سے وہ نیشنل گیمز سے بھی باہر ہوئے تھے۔

ارشد ندیم کی اکلوتی ’خراب‘ جیولن اور پاکستان کے لیے 32 برس بعد اولمپکس میڈل جیتنے کا خوابارشد ندیم نے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کی تاریخ میں پاکستان کو پہلا تمغہ دلوا دیا ارشد ندیم کا انٹرویو: ’نیرج چوپڑا سے اچھی دوستی ہے۔۔۔مقابلہ صرف ارشد ندیم سے ہے‘BBCپیرس اولمپکس کے لیے ارشد ندیم پُرامید ہیں

مگر پیرس اولمپکس کے لیے ارشد ندیم پُرامید ہیں۔ وہ اس لیے کہ ان کے مطابق وہ پہلے سے زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے والے ہیں۔

پیرس اولمپکس سے قبل وہ ٹریننگ کے لیے جنوبی افریقہ بھی گئے تھے جہاں سے ان کے مطابق انھوں نے ’جیولن تھرو کے لیے ورلڈ لیول کی سہولیات‘ کی بدولت بہت سے نئی چیزیں سیکھی ہیں۔

’وہاں ٹریننگ کے لیے مناسب سہولیات ہیں۔ آپ کو ہر چیز ملتی ہے جیسے میڈیسن بال، ہرڈلز، ہم اکھاڑے میں جمپ کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جیولن ہے، ویٹ ٹریننگ۔‘

پیرس روانگی سے قبل ایک ٹریننگ سیشن میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران ارشد ندیم نے بتایا کہ ’میں اس مرتبہ پہلے سے بہتر تیاری کے ساتھ اولمپکس میں شریک ہو رہا ہوں اور میری فٹنس بھی بہتر ہے۔‘

ارشد کے بقول ’اللہ اسی میں عزت دیتا ہے جب کھلاڑی اپنا بیسٹ دیتا ہے۔‘ بس وہ یہی چاہتے ہیں کہ ’قوم میرے لیے دعا کرے تاکہ میں وہاں اچھا پرفارم کروں اور پاکستان کے لیے میڈل جیتوں۔‘

جنوبی افریقہ میٍں ٹریننگ مکمل کر کے لوٹنے کے بعد ارشد ندیم نے مقامی کوچ کے ساتھ لاہور میں بھی اپنی پریکٹس کو جاری رکھا ہے تاہم اس دوران وہ رواں ماہ پیرس میں ہونے والی ڈائمنڈ لیگ میں شامل ہوئے جہاں انھوں نے 84.21 میٹر کی تھرو کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کی۔

یہ رواں برس میں ان کا پہلا عالمی مقابلہ تھا جس میٍں وہ اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ارشد ندیم نے بتایا کہ حالیہ ٹریننگ میں انھوں نے اپنی تکنیک اور طاقت کو مزید بہتر کرنے پر کام کیا ہے۔

میاں چنوں کے گاؤں کا کرکٹر ایتھلیٹ کیسے بنا؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے میاں جنوں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم اس سات رکنی اولمپکس دستے میں میڈل شامل ہیں جن سے پاکستان کو میڈل جیتنے کی امید ہے۔

27 سالہ ارشد ندیم کے والد راج مستری ہیں اور وہ آٹھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

ماضی میں ان کے کوچز میں سے ایک رشید احمد ساقی کے مطابق شروع میں ارشد ندیم کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی۔ وہ سنجیدگی سے کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن ’ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘

ارشید احمد ساقی کے بقول ارشد ندیم کے والد نے انھیں ایک بار کہا تھا کہ یہ اب ’آپ کے حوالے۔‘

ارشد ندیم نے مختصراً پاکستان ایئر فورس کے ساتھ ٹریننگ کی اور اس کے بعد وہ واپڈا کے ٹرائلز میں سلیکٹ ہوئے۔ ان کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو اُنھیں انٹرنیشنل مقابلوں میں لے گیا۔

2015 میں جیولن اٹھانے والے ارشد ندیم کا خواب اس وقت پورا ہوا جب انھوں نے 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور فائنل تک پہنچے مگر پانچویں نمبر پر آئے۔ وہ ٹریک اینڈ فیلڈ میں فائنل تک پہنچنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔

2022 کی کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل اور ریکارڈ 90 میٹر تھرو کے بعد انھوں نے 2023 میں ورلڈ ایتھلیٹکس مقابلوں میں ٹریک اینڈ فیلڈ میں پاکستان کو تاریخ میں پہلا چاندی کا تمغہ دلوایا تھا۔

ان کے کوچ فیاض حسین بخاری نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد ندیم ’ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔‘

خود ارشد ندیم ایک موقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ’کرکٹر نہ بننا میرے لیے سب سے اچھی بات تھی۔ ورنہ میں اولمپکس میں نہ ہوتا۔

’مجھے پتا ہے کہ میرے اندر ایتھلیکٹس کا قدرتی ٹیلنٹ ہے اور میں اس کا شکر گزار ہوں۔ لیکن پاکستان میں نان کرکٹ ایتھلیٹ ہونے کے کئی چیلنجز ہیں، جیسے وسائل اور سہولیات کی عدم دستیابی۔‘

پیرس اولمپکس: ارشد ندیم سمیت سات رکنی پاکستانی دستے میں شامل ایتھلیٹس کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟انڈیا کے نیرج چوپڑا اور پاکستان کے ارشد ندیم جو اچھےدوست بھی اور سخت حریف بھیکہنی اور گھٹنے کی تکلیف کے باوجود ارشد ندیم کی نظر اب عالمی ریکارڈ پر
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More