نو کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے نایاب ’کھوکھلے‘ انڈے جن کے لیے خصوصی آپریشن کیا گیا

بی بی سی اردو  |  Jul 19, 2024

آپ نے پولیس کے چھاپوں میں بہت ساری کرنسی ، منشیات ، سونا چاندی، نواردارت کے پکڑے جانے کے بارے میں تو بہت سنا ہوگا لیکن آسٹریلیا میں پولیس نے ایک چھاپے میں ہزاروں انڈے پکڑے ہیں۔

آسٹریلیا میں ایک بڑے آپریشن میں نایاب پرندوں کے تقریبا ساڑے تین ہزار انڈوں کی ایک کھیپ پکڑی گئی ہے جس کی مالیت پاکستانی کرنسی کے حساب سے نو کروڑ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

یہ آپریشن پرندوں کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کیا گیا تھا جس میں تسمانیہ کے علاقے میں دریافت ہونے والے انڈوں کی قیمت کا تخمینہ آسٹریلیا کی کرنسی میں پانچ لاکھ ڈالر تک لگایا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام انڈوں کو اندر سے ’کھوکھلا‘ کیا گیا تھا یعنی یہ صرف سجاوٹ کے لیے ہی استعمال ہو سکتے ہیں۔

حکام کے مطابق ایک 62 سالہ شخص سے تفتیش کی جا رہی ہے تاہم باضابطہ طور پر ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

دنیا میں جنگلی حیات سے جڑے جرائم کافی منافع بخش بن چکے ہیں جن کی وجہ سے بہت سے حیوانات معدومیت کا شکار ہو رہے ہیں۔

وفاقی محکمہِ موسمیاتی تبدیلی، توانائی، ماحولیات اور پانی (ڈی سی سی ای ای ڈبلیو) کے ایک ترجمان نے کہا ’اس شخص پر الزام ہے کہ وہ جنگلی جانوروں سے پرندوں کے انڈے جمع کرنے اور ان کی کٹائی اور بیرون ملک لوگوں کے ساتھ آسٹریلیا کے مقامی اور سی آئی ٹی ای ایس فہرست میں شامل پرندوں کے انڈوں کی تجارت میں ملوث تھا۔‘

سی آئی ٹی ای ایس کی فہرست کا مطلب یہ ہے کہ ایک نسل جنگلی جانوروں اور نباتات کی خطرے سے دوچار اقسام میں بین الاقوامی تجارت کے کنونشن میں درج ہے۔ یہ حکومتوں کے مابین ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کا مقصد خطرے سے دوچار پودوں اور جانوروں کو بین الاقوامی تجارت سے بچانا ہے۔

100 سے زائد زندہ سانپ پتلون میں چھپا کر چین سمگل کرنے کی کوشش ناکاماژدھے نے خاتون کو نگل لیا، شوہر نے بیوی کی باقیات کی تلاش میں اژدھے کا سر اور پیٹ کاٹ دیا

انڈوں کا تجزیہ کیا جا رہا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہ وہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں نایاب اور خطرے سے دوچار انواع شامل ہیں جو معدومیت کے خطرے کا سامنا کر رہی ہیں۔

تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ان میں سے 40 انڈے تیز رفتار طوطے اور شرمیلے البٹراس کے ہیں جو صرف تسمانیہ کے برونی جزیرے پر پائے جاتے ہیں۔

اس مجموعے میں موجود تمام انڈے کھوکھلے تھے، یعنی انڈے کی سفیدی اور زردی کو ہٹا دیا گیا تھا۔

سنہ 2023 میں یورپی حکام نے یورپ اور بین الاقوامی سطح پر پرندوں کے انڈوں کو غیر قانونی طور پر چننے، ذخیرہ کرنے، ان کی تجارت اور خرید و فروخت کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

متعدد سرچ وارنٹ جاری کیے گئے جس کے نتیجے میں 56 ہزار سے زائد انڈے ضبط کیے گئے۔

سی آئی ٹی ای ایس کا اندازہ ہے کہ زندہ جانوروں سے لے کر ان سے حاصل ہونے والی مصنوعات تک جنگلی حیات کی بین الاقوامی تجارت اربوں ڈالر کی ہے۔

معاہدے کے تحت 40,000 سے زائد اقسام کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں آسٹریلیا سمیت 180 سے زیادہ ممالک متفق ہیں۔

تسمانیہ کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر سیلی برائنٹ نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ انڈے جمع کرنا شاید ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ’ہم اس قسم کی سرگرمیوں سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن یہ بہت پرانی ہیں اور وہ اخلاقی اور قانونی طور پر کرپٹ ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اتنا بڑا مجموعہ ’ماہر آپریٹرز‘ نے کئی سال‘ میں جمع کیا تھا۔

خطرے سے دوچار اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں میں مداخلت پر سات سال قید، ایک لاکھ 38 ہزار 600 آسٹریلوی ڈالر جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

سی آئی ٹی ای ایس کی فہرست میں انڈوں سمیت آسٹریلوی مقامی نمونوں کی برآمد اور انڈوں سمیت نمونوں کی برآمد یا درآمد پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید، 330،000 آسٹریلوی ڈالر جرمانہ یا دونوں کی سزا ہے۔

سی آئی ٹی ای ایس کی فہرست میں شامل نمونوں بشمول انڈوں کو رکھنے پر پانچ سال قید، تین لاکھ 30 ہزار آسٹریلوی ڈالر جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

ماحولیات اور پانی کی وزیر تانیا پلبرسک نے کہا: ’غیر قانونی سمگلنگ اور جنگلی حیات کے جرائم تیزی سے ہماری بہت سی انواع کے لیے خطرہ بن رہے ہیں جو پہلے ہی معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘

’ہمیں اس خوفناک تجارت کو ختم کرنا ہوگا جس میں ہمارے مقامی جانوروں کو آسٹریلوی جھاڑیوں میں پکڑا جاتا ہے اور فروخت کرنے کے لیے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔‘

100 سے زائد زندہ سانپ پتلون میں چھپا کر چین سمگل کرنے کی کوشش ناکامجانوروں کی سمگلنگ سے متعلق پانچ عجیب و غریب واقعاتزہریلی مکڑیوں کی سمگلنگ: ’جیسے ہی لاہور پہنچے تو گاہگ نے اپنا موبائل بند کر دیا‘’کھالوں کی قیمت 30 لاکھ روپے لیکن جرمانہ صرف چار لاکھ۔۔۔‘ برفانی تیندوؤں کی بڑھتی سمگلنگ کی وجوہات کیا ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More