فرانس الیکشن: اندازوں کے برعکس انتہائی دائیں بازو کی شکست، عوام نے میرین لی پین کی جماعت کو مسترد کیوں کیا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 08, 2024

EPAفرانسیسیوں نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کو مسترد کر دیا ہے

فرانس میں قبل از وقت کرائے جانے والے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کی بھاری اکثریت سے جیت توقع کی جا رہی تھی لیکن انتخابات میں جیت کے بجائے وہ تیسرے نمبر پر آئی ہے۔

صدر ایمانوئل میکخواں نے چار ہفتے قبل اپنی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کے مد نظر قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا جس میں پہلے مرحلے میں نیشنل ریلی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور اقتدار کی دہلیز پر دستک دیتی نظر آ رہی تھی۔

لیکن حتمی نتائج میں نیو پاپولر فرنٹ نامی بائیں بازو کے اتحاد نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔

نیشنل ریلی (آر این) کی پہلے مرحلے میں کارکردگی کے سبب تمام رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی جیت کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

فرانس الیکشن میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب وہاں معلق پارلیمان کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ فرانس کی 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے289 نشستیں درکار ہیں۔

آر این کے رہنما جارڈن بارڈیلا نے ’غیر فطری سیاسی اتحاد‘ کو ان کی پارٹی کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

گیبریل اٹل کو صدر میکخواں نے صرف سات ماہ قبل ہی وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ صبح اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ ان کا اتحاد تین گنا زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے تیار ہے۔

اپنی رہائش گاہ سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کے وزیر اعظم گیریل اٹل نے کہا کہ فرانسیسی ووٹروں نے ایک انتہائی حکومت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے ان تمام امیدواروں کی تعریف کی جو آر این کو جیتنے سے روکنے کے لیے دوڑ سے دستبردار ہو گئے تھے۔

خیال رہے کہ کل 217 امیدوار نے آر این کو روکنے کے لیے دستبرداری کا اعلان کیا تھا جس میں میکخواں کی پارٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔

گیبریل اٹل نے کہا کہ کل صبح میں اپنا استعفیٰ سونپ دوں گا۔ آج رات سے ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔‘

انتہائی دائیں بازو کے لاکھوں وٹروں کے بارے میں انھوں نے مزید کہا: ’میں آپ میں سے ہر ایک کا احترام کرتا ہوں، کیونکہ فرانسیسی لوگوں کی ایسی کوئی قسم نہیں ہے جو صحیح اور غلط ووٹ دیتے ہیں۔‘

Getty Imagesگیبریئل اٹل اپنی رہائش ہوٹل دی میٹنگٹن سے خطاب کرتے ہوئےنیو پاپولر فرنٹ سیاسی اتحاد کیا ہے؟

نیو پاپولر فرنٹ فرانسیسی بائیں بازو کی جماعتوں کا سیاسی اتحاد ہے، جس میں سوشلسٹ، کمیونسٹ، ماہرین ماحولیات (گرین پارٹی) اور لا فرانس انسومیس کے لوگ شامل ہیں۔

یہ سیاسی اتحادفرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں کی جانب سے نو جون کو قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ جماعتیں پہلے بھی ایک دوسرے پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ ان کے نظریے اور نقطہ نظر میں بھی کچھ بڑے اختلافات ہیں، لیکن انھوں نے انتہائی دائیں بازو کو حکومت سے دور رکھنے کے لیے ایک بلاک بنانے کا فیصلہ کیا ۔

نیو پاپولر فرنٹ نے موجودہ حکومت کی طرف سے منظور کی گئی پنشن اور امیگریشن اصلاحات کو واپس لینے، غیر دستاویزی تارکین وطن کے لیے ایک ریسکیو ایجنسی بنانے اور ویزا درخواستوں میں سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

فرانس میں ’میکخواں کا جوا‘ سمجھے جانے والے انتخابات جو پناہ گزین مخالف جماعت کو پہلی بار اقتدار کی دہلیز تک لے آئےفرانس میں بحر ہند کی جنت جہاں مسلم تارکین وطن پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیںاسلام کو ’بحران کا مذہب‘ قرار دینے والے میکخواں دوبارہ صدر منتخب: فرانس کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا؟تجزیہ: فرانس نے ایک بار پھر انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو رد کر دیا

بی بی سی کے ہو شوفیلڈ نے لکھا کہ فرانسیسیوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اقتدار میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو دیکھنا نہیں چاہتے۔

اگرچہ ووٹروں نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو یورپی انتخابات اور پارلیمانی الیکشن کے پہلے راؤنڈ میں بڑی کامیابی دلائی لیکن جب اصل ووٹنگ کی بات آئی تو وہ صدارتی انتخابات کی طرح ہی پیچھے ہٹ گئے۔

ایک ہفتہ قبل نیشنل ریلی کی تقریباً 300 سیٹوں پر فتح یاب ہونے کی پیشین گوئی کی گئی تھی لیکن اب انھیں اس کی نصف سیٹیں ہی ملنے کی امید ہیں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ووٹرز انھیں اقتدار میں جانے سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دینے کے لیے باہر نکل آئے۔

آر این والے کچھ حد تک بجا طور پر یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ایسا صرف اس لیے ممکن ہوا کیونکہ دوسری پارٹیاں نظام کو چلانے کے لیے اکٹھی ہوگئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کی مختلف جماعتوں نے اچانک اپنے اختلافات بھلا کر ایک نیا آر این مخالف اتحاد تشکیل دیا اور مزید برآں میکخواں اور بائیں بازو کے لوگ بھی اپنے اختلافات کو بھول گئے۔

آر این والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سیاست دانوں کو (سینٹر رائٹ کے ایڈورڈ فلپ سے لے کر ٹراٹسکی کے بائیں بازو والے فلپ پوٹاؤ تک) آر این کی مخالفت کے سوا کوئی دوسری چیز متحد نہیں کرتی ہے اور یہ کہ یہ مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔

لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ فرانس میں زیادہ تر لوگ انتہائی دائیں بازو کو نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ ان کے نظریات کے مخالف ہیں یا پھر وہ اس بدامنی سے ڈرتے ہیں جو لامحالہ ان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے آئے گی۔

Getty Imagesجارڈن بارڈیلا بارڈیلا اگر فرانس کے اگلے وزیر اعظم نہیں ہوں گے تو کون ہوگا؟

یہی ایک بات ہے جو شاید کسی کو معلوم نہیں ہے۔ پچھلے فرانسیسی پارلیمانی انتخابات کے بعد ہونے والے کنونشن کے برعکس اس کا جواب ملنے میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔

کیونکہ پچھلے چند ہفتوں میں فرانسیسی سیاسی نظام کی نوعیت کو بدلنے کے لیے کچھ شدید قسم کی چیزیں ہوئی ہیں۔

جیسا کہ چارلس ڈی گال کے زمانے سے ہر الیکشن پر نظر رکھنے والے تجربہ کار تجزیہ نگار ایلن دوامیل نے کہا کہ ’آج اب کوئی غالب پارٹی نہیں ہے۔ سات سال قبل میکخواں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہم سیاسی قوتوں میں گراوٹ کے دور سے گزر رہے ہیں۔

’شاید اب ہم اپنے ہاں تعمیر نو کا نیا دور شروع کر رہے ہیں۔‘

ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں کا ایک ہجوم ہے۔ تین بڑے سیاسی بلاک (بائیں بازو، انتہائی دائیں بازو اور معتدل نظریاتی کی جماعتیں) ہیں ان کے علاوہ معتدل دائیں بازو کی جماعتیں بھی ہیں۔ اور ان کے اندر مسابقتی رجحانات ہیں۔

کوئی بھی پارٹی اسمبلی میں اکثریت میں نہیں ہے کہ وہ اپنی بات منوا سکے اس لیے اب ہنگامہ آرائی کا ایک طویل عرصہ ناگزیر ہے کیونکہ معتدل دائیں بازو کی جماعتوں اور بائیں بازو کی جماعتوں سے ایک نیا اتحاد بننا ہے۔

ایک دوسرے کے خلاف جو اب تک واضح نفرت رہی ہے اس کے پیش نظر یہ واضح نہیں ہے کہ یہ نیا اتحاد کس طرح تشکیل پائے گا۔

لیکن ہم شرط لگا سکتے ہیں کہ صدر میکخواں کے لیے گذشتہ ہفتوں کے تناؤ کے بعد یہ مفاہمت اور لوگوں کی خواہشات کے احترام کا دور ہوگا۔

اور یہ دورانیہ اولمپکس اور گرمیوں کی تعطیلات تک رہے گا۔

BBCپارٹی کی نشستیں

دریں اثنا وہ کسی کو مذاکرات کی قیادت کرنے اور مختلف جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کرنے کے لیے نامزد کریں گے۔ کیا یہ بائیں بازو سے کوئی ہوگا؟ کیا یہ معتدل جماعت سے کوئی ہو گا؟ یا یہ پھر سیاست سے باہر کا کوئی شخص ہوگا؟ ہم نہیں جانتے۔

جو بات یقینی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فرانس اب مزید پارلیمانی نظام میں جانے والا ہے۔

صدر میکخواں کی طاقت کم ہوگی اور یہ طاقت اس جانب منتقل ہوگی جو بھی نئی حکومت کی سربراہی کرے گا۔

یہاں تک کہ اگر وہ وزارت عظمیٰ کے لیے کسی معتدل جماعت سے تعلق رکھبے والے شخص کو لاتے ہیں (جو کہ مشکل ہوگا، بائیں بازو کی طاقت کو دیکھتے ہوئے) تو وہ شخص اپنی ایما اور پارلیمان کی حمایت کی بنیاد پر اپنی طاقت کا استعمال کرے گا۔

اور میکخواں کا سنہ 2027 میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس لیے ان کی حیثیت کم ہوتی جائے گی۔

تو کیا صدر وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا اپنا جوا ہار گئے؟ کیا انھیں قبل از وقت انتخابات کرانے میں جلد بازی پر افسوس ہے؟ کیا وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں؟

ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں میکخواں اسے اس طرح نہیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہوں گے انھوں نے قبل از وقت انتخابات کرائے کیونکہ حالات ناگفتہ بہ تھے اور یہ کہ ان کے اس اقدام سے فرانس میں سیاست کا رخ واضح ہوا ہے، آر این کو ان کی وسیع حمایت کے پیش نظر اسمبلی کی نشستوں میں زیادہ حصہ ملا ہے۔

لیکن انھوں نے جو جوا کھیلا کہ فرانسیسی کبھی بھی انتہائی دائیں بازو کو اقتدار میں نہیں لائیں گے وہ درست تھا۔

اگرچہ میکخواں کی طاقت زوال پذیر ہوئی ہے لیکن پوری طرح سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ وہ اب بھی ایلیسی میں موجود ہیں اور اپنی ٹیم کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں سیاست دانوں کو آگے لا رہے ہیں اور اب بھی سیاسی بساط پر چال چل رہے ہیں۔

اسلام کو ’بحران کا مذہب‘ قرار دینے والے میکخواں دوبارہ صدر منتخب: فرانس کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا؟فرانس میں ’میکخواں کا جوا‘ سمجھے جانے والے انتخابات جو پناہ گزین مخالف جماعت کو پہلی بار اقتدار کی دہلیز تک لے آئےرشی سونک نے برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیوں کیا؟امیگریشن پالیسی، جنسی بدسلوکی کے الزام یا دھڑے بازی: وہ عوامل جو رشی سونک اور کنزرویٹو پارٹی کے زوال کی وجہ بنے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More