غزہ، یوکرین اور روس کے علاقے داغستان میں حملوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 27, 2024

گذشتہ اتوار روس کے مسلم اکثریتی علاقے داغستان میں ہونے والے متعدد حملوں کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے جن میں 15 پولیس افسران اور ایک آرتھوڈوکس پادری سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ کم از کم 46 افراد زخمی ہوئے۔

ان حملوں میں کم از کم پانچ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔

ان بظاہر مربوط حملوں میں ڈیربنٹ اور ماخچکالا کے شہروں میں دو گرجا گھروں اور دو یہودی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملے آرتھوڈوکس تہوار پینٹی کوسٹ کے موقع پر کیے گئے۔

بی بی سی نے ان حملوں کا جائزہ لیا اور حملہ آوروں میں سے کچھ کی شناخت کی ہے۔

BBCہوا کیا تھا؟

ان حملوں میں ڈیربنٹ اور ماخچکالا کے شہروں میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔

ان حملوں کا آغاز قدیم یہودی برادری کے علاقے ڈربینٹ سے ہوا جہاں دو مسلح گروہوں نے بیک وقت (ماسکو کے مقامی وقت کے مطابق تقریباً شام کے پانچ بجے ) لینن سٹریٹ پر آرتھوڈوکس چرچ آف دی انٹرسیشن آف دی ورجن میری اور تاجی زادہ سٹریٹ پر ’کلی نوماز‘ نامی عبادت گاہوں پر آتشیں آلات پھینکے۔

ویڈیوز میں ان عمارتوںپر آلات پھینکے جانے اور نتیجے میں ان عمارات کو آگ پکڑتے دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی نے وقت اور سائے کے تجزیے سے ان کی تصدیق کی ہے۔

https://twitter.com/guyelster/status/1804909883688436096

ایک ویڈیو میں عبادت گاہ کے پچھلے دروازے پر کچھ نمبر نظر آ رہے ہیں جن کی تشریح بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے چند قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کی ہے۔

تاہم بی بی سی ان نمبروں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کی گئی تشریح کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

ویڈیوز سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حملہ آوروں نے سب سے پہلے عمارتوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلائیں۔

ڈربینٹ پر حملے کی ایک ویڈیو میں حملہ آوروں میں سے کچھ کے چہرے دکھائے گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دو زخمی ہیں جبکہ بندوق برداروں نے پولیس سے ان کی کار چھینی ہے۔

چرچ کے باہر ایک پولیس اہلکار اور پادری ہلاک ہو گئے۔ مقامی حکام کے مطابق پادری کی عمر 66 برس تھی اور وہ گذشتہ 40 سال سے زیادہ عرصے سے اس چرچ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

تقریباً 6:30 پر یعنی آدھے گھنٹے بعد مسلح افراد کے ایک اور گروہ نے داغستان کے دارالحکومت مخاچکالا میں گروموو سٹریٹ پر کیتھیڈرل آف دی ورجن میری کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ اس حملے میں چرچ کا محافظ ہلاک ہو گیا۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو فوٹیج میں سیاہ لباس میں ملبوس افراد کو پولیس کی گاڑیوں پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں اور گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔

ایک اور ویڈیو میں مسلح حملہ آوروں کو ایک عام شہری سے گاڑی چھینتے ہوئے دیکھا گیا۔ بی بی سی نے اس ویڈیو کی تصدیق کی ہے۔

اسی دوران 6:30 پر نامعلوم افراد کے ایک گروہ نے یرموشکن سٹریٹ پر واقع مکاچکلا عبادت گاہ میں دھماکہ خیز مواد پھینکا۔ بی بی سی نے اس ویڈیو کی بھی تصدیق کی ہے۔

جھڑپوں کے بارے میں وائرل ویڈیوز کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اتوار کی شام تک ڈربینٹ اور ماخچکالا میں فائرنگ جاری رہی۔

داغستان کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سرگوکالنسکی گاؤں کے چوک میں نامعلوم مسلح افراد نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جس دوران حملہ آوروں میں سے ایک زخمی ہو گیا۔

یہ قصبہ ڈربینٹ سے 37 میل شمال مغرب میں واقع ہے۔

https://twitter.com/HenMazzig/status/1804913003948638284

حملہ آوروں کی شناخت

وہ حملہ آوور جن کی شناخت کا اعلان حکام نے کیا اور جن کے چہرے ویڈیوز میں نظر آ رہے ہیں، بی بی سی نے چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے ذریعے ان میں سے کی شناخت کی ہے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ پانچ حملہ آور مارے گئے ہیں۔ ٹیلی گرام ایپ پر روسی چینلز نے کئی ایسی تصاویر دکھائی ہیں جن میں لوگوں کو زمین پر خون میں لت پت پڑے دیکھا جا سکتا ہے، ان چینلز کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ آوروں کے مارے جانے کے بعد کی تصاویر تھیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے مجرموں کا سراغ لگا رہے ہیں تاہم انھوں نے اب تک حملہ آوروں کی کل تعداد نہیں بتائی۔

مارے جانے والے حملہ آوروں میں عثمان اور عادل عمروف بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں شمالی داغستان کے ضلع سرگوکلنسکی کے سربراہ ماگومید عمروف کے بیٹے تھے۔ ان دونوں نے ماخچکالا میں ہونے والے حملے میں حصہ لیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمروف سینئر کو گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ بتایا جا رہا ہے کہ یونائیٹڈ رشیا پارٹی (روس میں حکمران سیاسی جماعت) نے انھیں اس بنا پر اپنی پارٹی سے نکال دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے انتہا پسند نظریات سے واقف تھے مگر اس کے باوجود انھوں نے انٹیلیجنس کو اطلاع نہیں دی۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے تحقیقات کے دوران اپنے بیٹوں کے انتہا پسند نظریات کا علم ہونے کا اعتراف کیا۔

روسی میڈیاکا دعویٰ ہے کہ عثمان عمروف کے ترکی میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ایک سیل سے بھی تعلقات تھے۔ وہ داغستان میں تعمیراتی کاروبار سے وابستہ تھے اور ازبرباش میں ایک کیفے کے مالک تھے۔

بی بی سی عثمان عمروف کے متعلق ان معلومات کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیےشدت پسند تنظیم ’دولتِ اسلامیہ خُراسان‘ کیا ہے اور اس نے روس پر حملہ کیوں کیا؟ماسکو حملہ: شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ ترکی میں تاجک شہریوں کو کیسے بھرتی کرتی ہے؟

عثمان کے 32 سالہ کزن عبدالصمد احمد زیف نے بھی ان کے ساتھ مکاچکالا حملے میں حصہ لیا تھا اور جب پولیس نے انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ ہلاک ہو گئے۔

روسی حکام کا دعویٰ ہے کہ احمد زیف شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے سابق رکن تھے تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا تنظیم نے انھیں دوبارہ بھرتی کیا یا نہیں۔

بی بی سی ان معلومات کی تصدیق نہیں کر سکا۔

مارے جانے والے حملہ آوروں میں حاجی مراد کارؤف بھی شامل ہیں جن کی عمر 28 برس تھی اور وہ مارشل آرٹس کے کھلاڑی تھے۔

یاد رہے کہ کافی عرصے سے داغستان اور انگوشیتیا (شمالی اور قفقاز) کے کھلاڑیوں میں مذہبی انتہا پسندی پھیلنے کے متعلق اطلاعات آ رہی ہیں۔

سنہ 2014 میں داغستان کے نائب وزیر کھیل زینل سالوتدینو نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ کسی طرح انتہا پسندی ملک میں کھیلوں کے میدانوں تک پہنچ گئی ہے۔

پانچواں حملہ آور 35 سالہ علی زکریجیو تھے جوسرگوکلنسکی ضلع کے سربراہ عمروف کے بھتیجے تھے۔

وہ اسی ضلع میں پارٹی کی شاخ کے سربراہ بھی تھے۔ اگرچہ انھوں نے 2021 میں یہ عہدہ چھوڑ دیا تھا لیکن وہ پارٹی کے رکن رہے۔

ان حملوں کا ذمہ دار کون ہے؟

ابھی تک کسی نے بھی ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن سوشل میڈیا پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے حامیوں کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے انھیں یقین ہو یا وہ یہ امید کر رہے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے دولتِ اسلامیہ کا ہی ہاتھ ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ تمام حملہ آوروں کی شناخت ظاہر ہونے تک کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔

دولتِ اسلامیہ کے رہنماؤں نے ’غزہ پر حملوں کے بدلے‘ دنیا بھر میں دوسرے مذاہب کی اہم مذہبی عبادت گاہوں پر حملے کرنے کو کہا ہے تاکہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مذہبی جنگ کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔

اس خطے کے سربراہ سرگئی میلیکوؤ نے ان حملوں کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’یہ حملے یوکرین کی جنگ سے جڑے ہیں‘ لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

گذشتہ حملے

داغستان میں مسیحی اور یہودی عبادت گاہوں پر یہ پہلے حملے نہیں تھے۔ اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک بندوق بردار نے کزلیار شہر میں چرچ جانے والوں پر فائرنگ کی تھی جس میں پانچ خواتین ہلاک ہو گئیں تھیں۔

شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ’قفقاز ریجن‘ شاخ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

گذشتہ برس 29 اکتوبر کو مظاہرین نے اسرائیل سے آنے والے طیارے کی آمد کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر یہود مخالف مہم کے جواب میں ماخچکالا کے ہوائی اڈے پر دھاوا بول دیا تھا۔

ہوائی اڈے پر بنائی گئی ایک ویڈیو میں ہجوم کو فلسطینی پرچم لہراتے، دروازے توڑتے اور پولیس کی گاڑی کو الٹنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس حملے میں متعدد پولیس اہلکاروں سمیت 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

ماسکو حملے کے تاجک ملزم کے گاؤں میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟ ’اسے اتنا مارا گیا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو بھی تیار ہو سکتا ہے‘’ہر دس منٹ میں ایک بچہ ہلاک۔۔۔‘ اسرائیل غزہ جنگ اعداد و شمار کے حوالے سے کتنی ہولناک ہے؟ یوکرین جنگ کے دو سال: لڑائی کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہو گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More