پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں جمعرات کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعے کے بعد اگرچہ ٹریفک کے لیے راستے کھول دیے گئے ہیں لیکن علاقے میں خوف پایا جاتا ہے اور علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
سوات میں مشتعل ہجوم نے توہینِ قرآن کا الزام لگا کر ایک سیاح کو پولیس کی تحویل سے زبردستی نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔
مدین میں توڑ پھوڑ اور اشتعال کے دوران 11 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بیشتر کی عمریں 13 سال سے 24 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں جبکہ چند ایک کی عمریں 34 اور 35 سال بیان کی گئی ہیں۔
مقامی سطح پر آج جمعے کو کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے اس کے لیے پولیس نے حفاظتی انتظامات کردیے ہیں اور مختلف مقامات پر پولیس نفری تعینات کی گئی ہے۔
سوات کے پولیس افسر ڈاکٹر زاہد اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ کل رات مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے ٹریفک کے لیے راستےکھولنے کے لیے پولیس بھر پور کوششیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رات دیر گئے ٹریفک کے لیے راستے کھول دیے گئے تھے۔
کیا ہوا تھا؟
سوات کے علاقے مدین سے واقعے سے متعلق متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ پولیس تفصیلات حاصل کر رہی ہے کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور اگر توہین ہوئی ہے تو وہ کیسے کی گئی ہے؟ پولیس کا کہنا ہے کہتفتیش کے بعد اس بارے میں بیان جاریکیا جائے گا۔
ضلعی پولیس افسر کے مطابق گذشتہ روز شام کے وقت مقامی پولیس تھانے کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ یہاں ہوٹل میں مقیم ایک شخص توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے جو اب رکشہ میں سامان لے کر کہیں جا رہا ہے۔ جس پر ایس ایچ او موقع پر پہنچے تو اس وقت تک بڑی تعداد میں لوگ مبینہ ملزم کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے پیچھے پہنچ چکے تھے۔ پولیس نے مشتعل ہجوم سے مبینہ ملزم کو بچانے کے لیے کوششیں کیں اور انھیں کہا کہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی لیکن ہجوم میں شامل لوگ مطالبہ کر رہے تھے کہ یہ شخص ان کے حوالے کیا جائے۔ یہ شخص مقامی ہوٹل میں 18 جون کو آئے تھے اور ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ’قران کی توہین‘کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے مقتول کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسے قریب ہی ایک کوارٹر میں منتقل کر دیا تھا لیکن ہجوم وہاں بھی پہنچ گیا۔
سوات کے ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر زاہد اللہ نے بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا کہ مدین میں مقامی لوگوں نے ایک سیاح پر قرآن کی توہین کا الزام لگایا اور اس واقعے کی اطلاع ملنے پر جب مقامی پولیس موقع پر پہنچی تو بازار میں لوگوں نے اس سیاح کو گھیرے میں لے رکھا تھا تاہم پولیس اہلکار اسے لوگوں کے نرغے سے نکال کر تھانے لے جانے میں کامیاب رہے۔
پولیس حکام کے مطابق ’پولیس کے پیچھے پیچھے مشتعل ہجوم بھی تھانے آن پہنچا تاہم پولیس نے ملزم کی جان بچانے کے لیے تھانے کے گیٹ بند کر دیے‘۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس دوران علاقے کی مساجد میں اعلانات کیے گئے جس پر بڑی تعداد میں لوگ تھانے کے باہر پہنچ گئے اور سیاح کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہجوم میں شامل افراد نے پہلے تھانے پر پتھراؤ کیا اور پھر دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور تھانے کی عمارت اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور اس دوران پولیس اہلکاروں کو بھی معمولی چوٹیں آئیں۔‘
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ہجوم کو تھانے پر دھاوا بولتے اور املاک کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مذکورہ شخص کو پولیس نے اپنی حراست میں لیا تھا مگر مشتعل ہجوم تھانے پر حملہ کر کے اسے تشدد کرتے ہوئے تھانے سے باہر لے آیا اور قتل کر دیا‘۔
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں لوگوں کو ایک جلتی ہوئی لاش کے اردگرد جمع ہو کر مذہبی نعرے بازی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
سوات کی تحصیل بحرین کے علاقے مدین میں تنازعات حل کے لیے تھانےکی سطح پر قائم کمیٹیڈی آر سی کمیٹی کے نائب چیرمین اقبال حسین کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر واقعہ ہوٹل میں پیش آیا جہاں پر مذکورہ شخص نے رہائش رکھی ہوئی تھی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس موقعے پر کچھ عینی شاہد بھی موجود تھے۔ اگرچہ ہوٹل کے عملے نے پولیس کو اطلاع دی تھی تاہم پولیس کے آنے تک بات پھیل چکی تھی‘۔
اقبال حسین کا کہنا تھا کہ ’اس موقعے پر بہت کوشش کی گئی کہ کسی طرح ہنگامہ آرائی کنٹرول کرلی جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا کہ لوگ بہت زیادہتھے اور مشتعل ہوچکے تھے۔ صورتحال لمحوں میں بگڑ گئی تھی۔‘
مدین کے تاجر رہنما میاں الطاف حسین گذشتہ روزمدین کے بازار میں اپنی دوکان پر موجود تھے جب مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سیاح کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ ان کی دوکان ہوٹل کے قریب ہی واقع ہے۔
میاں الطاف حسین کے مطابق ’بازار میں ساڑھے چھ بجے شور ہوا کہ کسی سیاح نے قران پاک کی توہین کی ہے جس کے بعد ہجوم اکھٹا ہوگیا بلکہ مساجد میں اعلانات بھی شروع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد مشتعل لوگوں نے تھانے پر ہلہ بول دیا۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے ممکنہ حد تک مزاحمت کی تھی۔ مگر لوگ بہت زیادہ تھے اور وہ مسلح بھی تھی۔ لوگوں نے اس شخص کو تھانے سے باہر نکالا اور قتل کردیا تھا۔‘
ہوٹل جہاں پر ہلاک ہونے والے شخص نے رہائش رکھی ہوئی تھی کہ اس کے قریب ہی واقع دوسرے ہوٹل کے ایک انتظامیہ کے شخص نے بتایا کہ ’واقعہ جو بھی ہوا ہوٹل میں پیش آیا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ نے بروقت پولیس کو اطلاع دی تھی مگر وہ شخص موقع سے فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا جس وجہ سے بات پھیل گئی تھی۔‘
پولیس حکام کے مطابق ’پولیس نے ممکنہ حد تک مزاحمت کی تھی۔ پولیس کی نفری بہت کم تھی جب کہ لوگ بہت زیادہ تھے۔‘
مدین میں اس وقت بڑی تعداد میں ہوٹل موجود ہیں اور تمام ہی ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مقامی لوگوں نے روڈ کھول کر کشیدگی کے بعد خوف کا شکار سیاح جن کی اکثریت علاقہ چھوڑنا چاہتی تھی کو واپسی میں مدد فراہم کی ہے۔
سوات میں مارا جانے والا شخص کون تھا؟
مدین میں توہین مذہب کے الزام میں مارے جانے والے شخص کے آبائی علاقے میں پولیسکی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔
پنجاب پولیس کے ترجمان کا کہنا کہ مقتول کے گھر کے باہر پولیس کی نفری تعینات کردی گئی ہے تاکہ کوئی نقص امن کا واقعہ پیش نہ آئے۔
اہل علاقہ اور خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ اس شخص کی عمر36 سال تھی اور وہ نشے کا نشے کاعادی تھا اور کی بیوی نے نشے کی لتاور پر تشدد رویّے کے باعث اس سے طلاق لے لی تھی۔
مقتول روزگار کے لیے کچھ عرصہ بیرونِ مملک مقیم رہا۔
اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس شخص کا ڈیڑھ سال سے گھر والوں سے تعلق نہیں۔ اس کا والدہ اور بھائی کیساتھ جائیداد کا بھی تنازع تھا اور اس کی والدہ نے 2022 میں اس کے خلاف تشدد کا مقدمہ بھی درج کروایا تھا۔
اس کی والدہ کا موقف ہے کہ انھوں نے اسے عاق کردیا ہے اور ’ہم اس کے قول و فعل کے ذمہ دار نہیں ہیں۔‘
والدہ شائستہ پروین نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’ اس کے والد تیس سال قبل وفات پاگئے تھے۔ بیرون ملک سے واپس آنےکے بعد اس کی شادی کروائی تاہم یہ ہم سے لڑائی جھگڑا کرتا رہا جس کے اس کے حصے کی جائیداد اسے دے دی اور قطع تعلق کرلیا۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے سیاح کی ہلاکت کا نوٹس لے کر آئی جی سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق علی امین گنڈاپور نے آئی جی پولیس کو صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے شہریوں سے پرامن رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔
خیال رہے کہ مدین سوات کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور آج کل اس علاقے میں عید کی تعطیلات کی وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
مدین میں موجود ایک سیاح نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ ’حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ عملاً مدین میں مشتعل ہجوم کا کنٹرول ہے اور وہ کسی گاڑی کو بھی آنے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں تاہم انھوں نے کسی بھی سیاح کو نہیں چھیڑا ہے۔ اس وقت مدین کا بازار مکمل بند ہے جب کہ سڑک پر صرف مظاہرین ہیں۔‘
توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام کون روکے گا؟سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟جڑانوالہ: قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف پرتشدد احتجاج، متعدد گرجا گھر نذر آتشتوہین مذہب کا الزام ہجوم کو جمع کرنے کا عام ذریعہ
پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے افراد پر مشتعل ہجوم کے حملے یا ایسے ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کا الزام پرتشدد ہجوم کو جمع کرنے کا ایک عام ذریعہ بنتا رہا ہے۔
گذشتہ ماہ ہی صوبہ پنجاب کے علاقے سرگودھا میں قرآن کی توہین کا الزام لگائے جانے کے بعد مشتعل ہجوم نے نہ صرف ایک گھر اور کارخانے کو نذرِ آتش کیا بلکہ ایک شخص کو پولیس کی موجودگی میں بُری طرح تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اس سے قبل 2023 میں پہلے فروری کے مہینے میں پنجاب میں ہی ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک شخص کو پولیس کی حراست سے چھڑوا کر ہلاک کر دیا تھا۔
چند ماہ بعد اگست کے مہینے میں جڑانوالہ میں توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد مسیحی آبادیوں پر حملے کے واقعات پیش آئے جن میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
Getty Imagesپرتشدد اور مشتعل ہجوم کے لیے سزا کا کیا نظام ہے؟
پرتشدد ہجوم کے معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ایسوسی ایٹ اور نسٹ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ماہین احمد کا کہنا تھا کہ ’جب آپ ہجوم کا حصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کرتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ملک میں لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور فوری انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
’ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان اب ختم ہو گئی ہے اس لیے انھیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔‘
AFP
دوسری جانب وہ سمجھتی ہیں کہ اس معاملے میں قانون میں سقم بھی موجود ہے۔ ’یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ مر گیا تو قتل کا مقدمہ ہو گا، زخمی ہوا تو اس سے متعلق مقدمہ ہو گا مگر آپ ایک پرتشدد ہجوم کا حصہ بنے، اس پر سزا نہیں ملتی۔‘
پولیس افسر عمر سعید اس وقت سیالکوٹ کے ڈی پی او تھے، جب وہاں دسمبر 2021 میں ایک سری لنکن شہری کو ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہجوم میں جرم کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جیسے سیالکوٹ میں سنہ 2010 میں ہلاک ہونے والے دو بھائیوں منیب اور مغیث کے مجرمان۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’مردان میں مشعال خان کے قتل کے واقعے میں مرکزی ملزم ایک تھا جس کی ویڈیو کی بنیاد پر شناخت ہوئی کہ انھوں نے گولی مار کر مشعال خان کو ہلاک کیا لیکن سیالکوٹ میں دونوں بھائیوں پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کے دوران یہ واضح نہ ہو سکا کہ وہ کونسا شخص تھا، جس کی ضرب سے ان بھائیوں کی جان گئی اور شاید یہی وہ خلا ہے جو پُرتشدد ہجوم کو سخت سزاؤں سے بچا رہا ہے۔‘
اسی بارے میںتوہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟مشال کیس: مرکزی ملزم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیلسرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟جڑانوالہ میں توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد مسیحی آبادیوں پر حملہ: ’19 گرجا گھر اور 86 مکانات جلائے گئے‘