اسلام آباد۔11جون (اے پی پی):حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے مالی سال 2023-24 کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 2.38 فیصد رہی، مالی سال کے دوران تجارتی اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، زراعت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 6.25 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی جو گزشتہ 19 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے، صنعتی ترقی کی شرح 1.21 فیصد اور جی ڈی پی کے تناسب سے سرمایہ کاری کی شرح میں 13.1 فیصد کا اضافہ ہوا، فی کس آمدنی میں جاری مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 129 ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ بات قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 2023-24ء میں کہی گئی۔جاری مالی سال کیلئے پاکستان اقتصادی سروے رپورٹ منگل کو یہاں وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے جاری کی جس میں ملک کی تمام اہم اور کلیدی شعبوں میں ہونے والی پیشرفت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں اور دوطرفہ و کثیر الجہتی شراکت داروں کے تعاون سے مالی سال 2023-24ء کے دوران پاکستان میں بین الاقوامی اداروں کے اندازوں کے برعکس جی ڈی پی کی شرح میں 2.38 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی ہے۔ زراعت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 6.25 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی جو گذشتہ 19 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے، صنعتی ترقی کی شرح 1.21 فیصد اور جی ڈی پی کے تناسب سے سرمایہ کاری کی شرح میں 13.1 فیصد کا اضافہ ہوا۔جی ڈی پی کے تناسب سے بچتوں کی شرح 13 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ فی کس آمدنی 11 فیصد کے اضافہ کے بعد 1680 ڈالر تک پہنچ گئی۔ فی کس آمدنی میں جاری مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 129 ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ موجودہ مارکیٹ شرح کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم 106045 ارب روپے ہے۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق زراعت کے شعبہ میں شرح نمو 6.25 فیصد ریکارڈ کی گئی جس میں فصلوں کی پیداوار میں 11.03 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی، لائیو سٹاک کے شعبہ میں 13.89 فیصد کا اضافہ ہوا، جنگلات میں 3.05 فیصد اور ماہی گیری کے شعبہ میں 0.61 فیصد اضافہ ہوا۔ زرعی قرضوں کی فراہمی میں 33.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا،کھادوں کی کھپت کا حجم 3957 ہزار ٹن ریکارڈ کیا گیا جبکہ سرٹیفائیڈ بیجوں کی دستیابی کا حجم 642.5 ٹن ریکارڈ کیا گیا۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار میں جاری مالی سال کے دوران سالانہ بنیادوں پر 0.1 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، ٹیکسٹائل کے شعبہ میں 8.3 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی، اس کے برعکس ایپرل میں 5.4 فیصد، فرنیچر 23.1 فیصد، چمڑے کی مصنوعات 5.3 فیصد، کھاد سازی 16.4 فیصد، فارماسیوٹیکل 23.2 فیصد اور کان کنی کے شعبہ میں 4.9 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔ ٹیکس محاصل میں جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 29.3 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی اور ٹیکس محصولات کا حجم 7.26 ٹریلین ریکارڈ کیا گیا، نان ٹیکس ریونیو میں 90.7 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔ جاری اخراجات کے حجم میں 33.4 فیصد اضافہ ہوا اور اس کا حجم 12.33 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔ترقیاتی اخراجات 14.2 فیصد کے اضافہ کے بعد 1.16 ٹریلین روپے ہو گئے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے مالی خسارے کی شرح 3.7 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گذشتہ سال کے برابر ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے پرائمری سرپلس میں 1.5 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی سے اپریل تک کی مدت میں پالیسی ریٹ 22 فیصد ریکارڈ کیا گیا اور ایک روز قبل اس میں ڈیڑھ فیصد کی کمی کی گئی۔ زر وسیع (ایم ٹو) کا حجم 2 ہزار 216 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ مجموعی غیر ملکی اثاثوں کا حجم 530 ارب روپے رہا۔ مجموعی اندرونی اثاثوں کا حجم 1687 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، نجی شعبہ کو 188 ارب روپے کا قرضہ فراہم کیا گیا۔اوسط لینڈنگ ریٹ میں 20.8 فیصد کی اوسط شرح سے رہی جبکہ ڈیپازٹ ریٹ 10.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ جولائی سے مارچ تک کی مدت میں کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں 61.6 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ مالی سال کے آخری ماہ میں یہ 74 ہزار کی نفسیاتی حد کو عبور کر گیا ہے۔ مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 48.3 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس کا مجموعی حجم 9 ہزار 447.7 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں متحرک فنڈ کا حجم 18.9 ارب روپے رہا۔ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کا حجم 20810 ریکارڈ کیا گیا جبکہ اشیاء کی خریداری کے معاہدوں کا حجم 4.08 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔قومی اقتصادی سروے کے مطابق دانشمندانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں مئی 2024ء میں افراط زر کی شرح 11.8 فیصد تک گر گئی جو مئی 2023ء میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی۔ جاری مالی سال کے دوران صارفین کیلئے قیمتوں کا اشاریہ 24.5 فیصد رہا جو گذشتہ مالی سال میں 29.2 فیصد تھا۔ شہری علاقوں میں جاری مالی سال کے دوران صارفین کیلئے قیمتوں کا حساس اشاریہ 25.1 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ مالی سال کے دوران 26.8 فیصد تھا۔ شہری علاقوں میں اشیاء خوراک کے افراط زر کی شرح گذشتہ سال کے 37.7 فیصد سے کم ہو کر 24.2 فیصد ہو گئی۔دیہی علاقوں میں اشیاء خوراک کے افراط زر کی شرح گذشتہ سال کے 41.1 فیصد سے گر کر 23.7 فیصد کی سطح پر آ گئی۔ شہری علاقوں میں بنیادی افراط زر کی شرح 16.4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 23.3 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ قیمتوں کا حساس اشاریہ 28.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو گذشتہ مالی سال کے دوران 32.8 فیصد تھا۔ ہول سیل پرائس انڈیکس 21.1 فیصد رہا جو گذشتہ سال 33.9 فیصد تھا۔ ایف اے او فوڈ پرائس انڈیکس منفی 13.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی سے اپریل تک کی مدت کے حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 0.2 ارب ڈالر رہا۔ برآمدات میں 25.7 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا، درآمدات میں 43.4 فیصد کی کمی ہوئی، تجارتی خسارہ میں مجموعی طور پر 17.7 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 1.5 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ ترسیلات زر کی صورتحال بھی بہتر رہی۔قومی اقتصادی سروے کے مطابق مارچ کے اختتام تک مجموعی سرکاری قرضوں کا حجم 67 ہزار 525 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ اندرونی قرضوں کا حجم 43 ہزار 432 ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 24093 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ ٹریژری بلوں میں کمی کا حجم 0.8 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق تعلیمی شعبہ پر مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے 1.5 فیصد کے اخراجات آئے۔ مردوں میں شرح خواندگی 73.4 فیصد اور خواتین میں 51.9 فیصد رہی۔ ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد 263 ہے جس میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد 154 اور نجی یونیورسٹیوں کی تعداد 109 ہے، اعلیٰ تعلیم کیلئے 69.7 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے، فیکلٹی ممبران میں پی ایچ ڈیز کی تعداد 35.40 فیصد ہے۔ مالی سال 2023ء کے جی ڈی پی کے تناسب سے پبلک ہیلتھ اخراجات کی شرح ایک فیصد ریکارڈ کی گئی۔سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت پبلک ہیلتھ کیلئے 25.3 ارب روپے مختص کئے گئے، ہسپتالوں کی تعداد 1284، بنیادی مراکز صحت کی تعداد 5520 ریکارڈ کی گئی۔ 2022ء میں اوسط عمر 67.3 برس تھی، ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 2 لاکھ 99 ہزار 113 ہے۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق 2023ء میں ملک کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، دیہی علاقوں میں 14 کروڑ 77 لاکھ 50 ہزار افراد اور شہری علاقوں میں 9 کروڑ 37 لاکھ 50 ہزار افراد رہتے ہیں۔ 2021ء کے لیبر فورس سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ہے جبکہ سال 2023ء میں بیرون ملک جانے والی رجسٹرڈ افرادی قوت 8 لاکھ 62 ہزار 625 ہے۔ مارچ 2024ء تک وزیراعظم کے یوتھ بزنس ایگریکلچر لون سکیم کے تحت 83.68 ارب روپے کے فنڈز فراہم کئے گئے جن سے ایک لاکھ 40 ہزار 702 افراد نے استفادہ کیا۔قومی اقتصادی سروے کے مطابق جاری مالی سال کے دوران مئی 2024ء تک مواصلات کے منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 123 ارب روپے جاری کئے گئے۔ این ایچ اے کی شاہراہوں کی لمبائی 14 ہزار 480 کلومیٹر ہے، پاکستان ریلوے کے مسافروں کی تعداد 22.5 ملین رہی ہے، پاکستان ریلوے کی مال برداری کی ٹریفک کا حجم 4310 ٹن کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کو مجموعی طور پر 14690 ملین روپے کا بعد از ٹیکس منافع حاصل ہوا۔ قومی بندرگاہوں پر 98 ہزار 822 ملین ٹن کارگو کی نقل و حمل ہوئی۔ پاکستان پوسٹ کے نیٹ ورکس کی تعداد 10408 ریکارڈ کی گئی جبکہ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے نیٹ ورکس کی تعداد 80 یونٹس ہے۔ قومی اقتصادی سروے میں توانائی کے شعبہ کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ملک میں مارچ کے اختتام تک بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 42 ہزار 181 میگاواٹ ہے جبکہ مجموعی جنریشن 92091 گیگاواٹ آورز ہے۔ جولائی سے مارچ تک بجلی کی مجموعی کھپت کا حجم 68 ہزار 559 گیگاواٹ آورز ریکارڈ کیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی فروخت کا حجم 12.30 ملین ٹن رہا جبکہ گیس کی کھپت کا حجم 3 ہزار 207 ایم ایم سی ایف ڈی اور کوئلہ کی کھپت کا حجم 17.3 ملین ٹن ریکارڈ کیا گیا۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی سے مارچ تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کی مجموعی تعداد 20 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ آئی ٹی کی برآمدات کا حجم 2.283 ارب ڈالر رہا، فری لانسرز کی جانب سے ترسیلات زر کا حجم 350.2 ملین ڈالر رہا۔ براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 135 ملین جبکہ مجموعی ٹیلی کام صارفین کی تعداد 194.6 ملین ریکارڈ کی گئی۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق مارچ کے اختتام تک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستحقین کیلئے466 ارب روپے مختص کئے گئے جبکہ 313.4 ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 9.4 ملین ریکارڈ کی گئی، مشروط کیس ٹرانسفر کا حجم 56 ارب روپے اور غیر مشروط کیس ٹرانسفر کا حجم 257.7 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ تعلیمی وظائف کے تحت 2.2 ملین طلباء کی انرولمنٹ ہوئی جبکہ 36.9 ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ قومی اقتصادی سروے کے مطابق جاری مالی سال کے دوران ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبوں میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، نیشنل کلین ایئر پالیسی کا نفاذ کیا گیا جبکہ قومی آڈپٹیشن پلان 2023ء متعارف کرایا گیا۔ دسمبر 2023ء میں کوپ 28 کا انعقاد کیا گیا۔ گرین پاکستان اپ سکیلنگ پروگرام کے پہلے مرحلہ کے تحت 2.1 ارب درخت لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی، دسمبر 2023ء میں کلائوڈ سیڈنگ کے ذریعے مصنوعی بارش برسائی گئی۔