اسلام آباد۔4جون (اے پی پی):سپریم کورٹ نےسنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں کی آئندہ سماعت 24 جون 2024 تک ملتوی کر دی ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے منگل کو یہاں اپیلوں پر سماعت کی ۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنے کا کہا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کل جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ سلمان اکرم راجا نے اس کے متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی تھی۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جبکہ آزاد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا اور سنی اتحاد کونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سوالات سے متعلق تمام دستاویزات موجود ہیں؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میرے پاس تمام سوالات ہیں اور سب دستاویزات بھی عدالت میں پیش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی تنازع نہیں ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ بس کہیں کہ الیکشن نہیں لڑا، فل سٹاپ۔ انہوں نے کہا کہ اپنی درخواست میں دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی، تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا ہے جبکہ آخری جگہ صرف پارٹی لکھا ہے۔کیا اس میں کوئی خاص فرق ہے؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے اور پولیٹیکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ آئین پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کی پارٹی میں شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل سے کہا کہ میں نے آپ کے سوالات سے لفظ پولیٹیکل حذف کر دیا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہوئے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہو گی تو پارلیمانی پارٹی ہی ہو گی۔ جس پر سپریم کورٹ میں پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمانی پارٹی کے الفاظ میں فرق پر دلائل دیئے گئے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے جنہیں ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔ جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں۔آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کامیاب امیدوار جب حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی۔ پارلیمانی پارٹی کا ذکر ابھی غیر متعلقہ ہے۔ مناسب ہو گا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر فوکس کیا جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تحریک انصاف یا آزاد امیدواروں نے بلے کا انتخابی نشان لینے کی درخواست دی تھی؟ اگر بیٹ کا نشان نہیں ملا تو اس کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سب آزاد امیدوار تو بلے کا نشان نہیں مانگ سکتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ ہر حلقہ کا فارم الگ ہوتا ہے۔کیوں نہیں مانگ سکتے؟ دیں نہ دیں الگ بات ہے۔ دوران سماعت جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو تحریک انصاف لینا چاہتی تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ بلے باز والی جماعت کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلے باز والی جماعت کے ساتھ الحاق ختم کر دیا گیا تھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلہ میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہو سکتا؟ جس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے جواب دیا کہ بلے کانشان کسی اور کو الاٹ ہونے کا سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں لکھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کی دشواری یہ ہے کہ آپ خود کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کو کہا کہ تحریک انصاف کو بلا نہیں ملا تو آپ کو نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ خود کو تب آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرتے اور بلے کا نشان مانگ لیتے۔ قانون نے کہا کہ اپنی پارٹی میں انتخابات کرا لیں۔ قانون ہم نے نہیں آپ نے بنایا ہے۔ میں آپ کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں۔ پہلے بھی دوران سماعت مشورے دیئے۔ آپ نے خود کو تحریک انصاف ظاہر کرنا چاہا لیکن آپ کم سے کم بلے کا نشان مانگتے تو سہی۔ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اب آزاد امیدوار نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں، خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا ،بطور آزاد امیدوار نہیں۔ آپ پارٹی کو ٹھکرا کر آ رہے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ میں پی ٹی آئی امیدوار نہیں بلکہ آزاد امیدوار ہوں۔ سماعت کے دوران اس موقع پر جسٹس شاہد وحید نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا اور یہ حتمی ہو چکا ہے۔جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر فیصلہ حتمی ہو چکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلہ کی وضاحت کر دیتی تو سارے مسائل حل ہو جاتے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ تحریک انصاف اگر انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔سپریم کورٹ پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے اپنے لوگوں کو جمہوری حق سے محروم رکھا تھا۔ اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی انتخابات ہوتے تو فائدہ تحریک انصاف کے ممبران کو ہی ہوتا۔ انتخابات لڑ لیتے اگر جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری کریں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی آئندہ سماعت 24 جون 2024 تک کیلئے ملتوی کر دی۔