اسلام آباد۔29مئی (اے پی پی):چینی سفارتخانے کے میڈیا ونگ کے سربراہ وانگ شی نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان کے پانچ سی اور فائیو ای فریم ورک کو یکجا کرنے اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لیے تجاویز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام “سی پیک کے دوسرے مرحلے کےلئے اصلاحات کا ایجنڈا: مواقع اور آگے بڑھنے کا راستہ” کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ سی پیک کا سٹریٹجک مرحلہ ہے،متحد وژن اور قیادت سی پی ای سی کی ترقی کے لیے اہم ہے، چین اور پاکستان کے پانچ سی اور فائیو ای فریم ورک کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔وانگ شی نے کہا کہ ہم چینی ماہرین کے ذریعے پاکستان میں ایس ای زیڈ تیار کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں، ایم ایل ون جیسے پائلٹ پراجیکٹس انتہائی توجہ کے متقاضی ہیں ۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ مصطفیٰ حیدر نے کہا کہ پاکستان کو سی پی ای سی کے تحت سفر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے،بہت سے ممالک بی آر آئی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، پاکستان کوبی آر آئی میں سی پیک کے تحت اپنی مسابقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔مصطفی ٰحیدر نے کہا کہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی میں کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں ہوئی، ہمیں چینیوں کے لیے فول پروف سکیورٹی کو عملی جامہ پہنا نے اور آگے بڑھنے کے لیے ایک واضح فریم ورک اور مشترکہ ورکنگ گروپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ ہمیں مواقع کے ساتھ چیلنجوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، آگے کا راستہ دونوں قوموں کی بھلائی کے لیے اس چیلنج کا انتظار کرنا ہے۔ ڈاکٹر عابد نے کہا کہ یورپی یونین نے کاربن کے اخراج کی رپورٹ طلب کی اور اپنا منصوبہ تیار کیا، امریکا اور چین اس پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں برآمدات کی سپلائی چین کی مختلف سطحوں پر انوینٹری کی ضرورت ،کاربن کے اخراج کی تصدیق کے لیے سرٹیفیکیشن ہونا ضروری ہے۔ کاربن کے اخراج پیداوار اور کاروبار کے روایتی طریقوں کو تبدیل کرنا ہے۔تیسرا چیلنج چائنا گرین انرجی ٹرانزیشن ٹیکنالوجی پر ٹیرف میں اضافہ ہے،یورپی یونین ، پاکستان اور چین ان ٹیکنالوجیز کو دو طرفہ طور پر فروغ دے سکتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد نے کہا کہ ہمیں گرین بانڈز اور فنانسنگ کے لیے سوچنا چاہیے تاکہ گرین ٹرانزیشن کو پائیدار طریقے سے منظم کیا جا سکے۔شاہجہان مرزا نے کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں ہمیں بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا،ہمارے پاس اس سے نمٹنے کا کوئی متبادل نہ تھا، یوس یوکرین جنگ نے بھی ہمارے توانائی کےمسائل میں اضافہ کیا،اب ہمارے پاس بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور ہم سی پیک کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں،ہمیں ہر شعبے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔انرجی ایکسپرٹ ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ توانائی کے منصوبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں توانائی کے موجودہ منصوبوں پر نظرثانی کی جائے ، ہمارے پاس 40,000 میگاواٹ سے زیادہ تنصیب کی گنجائش ہے جبک طلب 27000 میگاواٹ ہے، سی پی پی کے کیپسٹی چارجز بڑھ رہے ہیں۔