انڈیا کا چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی اور چلانے کے لیے ایران کے ساتھ 10 سال کا معاہدہ

اردو نیوز  |  May 14, 2024

انڈیا نے ایران کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی اور چلانے کے لیے 10 سال کا معاہدہ کر لیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نریندر مودی حکومت کا یہ اقدام مشرق وسطیٰ کے اہم ملک کے ساتھ انڈیا کے سٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔

انڈیا خلیج عمان کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع بندرگاہ کو تجارتی اور دیگر سامان ایران، افغانستان اور وسطی ایشائی ممالک ترسیل کے لیے راستے کے طور پر پاکستان کے کراچی اور گوادر پورٹس کے مقابلے ڈیویلپ کرتا رہا ہے۔

تاہم ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے چابہار بندرگاہ کو ڈیویلپ کرنے کا عمل سست روی کا شکار رہا۔

انڈیا کے وزیر جہاز رانی سربانندا سونوال کا تہران میں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کہنا تھا کہ ’ چابہار پورٹ کی اہمیت انڈیا اور ایران کو ملانے والی آبی گزگاہ سے زیادہ ہے، یہ انڈیا، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو ملانے والا اہم تجارتی گزرگاہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس ربط نے تجارت کے لیے کئی راستے کھولا ہے اور پورے خطے میں سپلائی چین کو مزید مستحکم کیا ہے۔‘

دونوں ممالک کے حکام کے مطابق طویل مدتی معاہدہ انڈین پورٹ گلوبل لمیٹیڈ  (مطابق آئی پی جی ایل) اور پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن آف ایران کے درمیان ہوا ہے۔

انڈیا نے چاہ بہار سے 25 لاکھ ٹن گندم اور دو ہزار ٹن دالیں افغانستان بھجوا چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)ایران کے وزیر برائے روڈز اور اربن ڈیلولپمنٹ مہر دار بزرپوش کا کہنا ہے معاہدے کے مطابق آئی پی جی ایل بندرگارہ پر 12 کروڑ کی سرمایہ کاری کرے گی اور اضافی 25 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ فراہم کی جائے گی جس کے بعد معاہدے کی کل مالیت 37 کروڑ ڈالر ہو جائے گی۔

انڈین حکام کے مطابق آئی پی جی ایل نے پہلی مرتبہ چابہار بندرگاہ آپریشن کا انصرام 2018 میں سنبھال لیا تھا اور اس کے بعد سے کئی ملین ٹن کنٹینر ٹریفک اور عام کارگو ہینڈیل کیا ہے۔

ان کا کہنا ہےانڈیا نے چاہ بہار سے 25 لاکھ ٹن گندم اور دو ہزار ٹن دالیں افغانستان بھجوا چکا ہے۔

پیر کو ممبئی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ بندرگاہ میں بڑی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More