کیا ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے پر شہریوں کے سِم کارڈ بند کرنے جیسا اقدام مؤثر ثابت ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  May 02, 2024

Getty Images

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے حکومتی ادارے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘ (ایف بی آر) نے ملک میں ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے شہریوں کے سِم کارڈز بند کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے جاری کیے جانے والے ’انکم ٹیکس جنرل آرڈر‘ کے مطابق ملک بھر میں5 لاکھ 6 ہزار سے زائد ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جو ادارے کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل نہیں ہیں لیکن انکم ٹیکس آرڈنینس کے تحت اُن پر ٹیکس ریٹرن جمع کروانا لازم ہے۔

اب ایف بی آر نے ان افراد کے قومی شناختی کارڈز پر نکلے ہوئے سم کارڈز بلاک کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کو ہدایات جاری کی ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کا حالیہ فیصلہ فی الحال پی ٹی اے حکام کے زیر غور ہے اور ’ہم اس معاملے پر موبائل فون آپریٹرز اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘

پی ٹی اے نے مزید کہا کہ ’ہمارا مقصد ریگولیٹری فریم ورک اور متعلقہ قانونی دفعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدام اٹھانا ہے تاکہ ٹیلی کام صارفین کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔‘

یاد رہے کہ ایف بی آر نے اگرچہ اس ضمن میں کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی ہے تاہم پی ٹی اے کو یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں عملدرآمد رپورٹ 15 مئی کو جمع کروائے۔

خیال رہے پاکستان کے موجودہ قوانین کے مطابق کوئی بھی شہری اپنے شناختی کارڈ پر زیادہ سے زیادہ پانچ سم کارڈز حاصل کر سکتا ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز کے سم کارڈ بلاک کرنے کا اقدام گذشتہ سال دسمبر میں نگراں حکومت کے دور میں متعارف کرائی گئی ٹیکس پالیسی کے تحت اٹھایا گیا ہے، جس کے مطابق ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کے سم کارڈز بند کرنے کے ساتھساتھ اُن کے بجلی اور گیس کے کنکشن بھی کاٹے جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ایف بی آر کی جانب سے تمام اہل شہریوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس جمع کروانے کے بعد اپنے ٹیکس ریٹرنز بھی فائل کریں۔

پاکستان میں ٹیکس کی وصولی ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہی ہے اور ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10.4 فیصد ہے، جو کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان ایک شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو متعدد بار کہا جا چکا ہے کہ وہ شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کریں اور بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر قابو پائیں۔

پاکستان میں ٹیکس اُمور کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے لیے جانے والے تازہ اقدامات بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر لیے جا رہے ہیں۔

مگر ٹیکس جمع کروانے کے باوجود ٹیکس ریٹرنز جمع کروانا اتنا ضروری کیوں ہیں؟

ملک میں ٹیکس ادا کرنے والے افراد جہاں ایک طرف ہر سال حکومت کو اپنی آمدن کا ایک حصہ ٹیکس کی صورت میں جمع کرواتے ہیں تو دوسری طرف ایسے افراد کو اپنے ٹیکس گوشوارے بھی ایف بی آر میں جمع کروانا ہوتے ہیں۔

سابق ممبر ایف بی آر رحمت اللہ وزیر نے اس سلسلے میں بی بی سی اُردو کو بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 کے تحت ٹیکس جمع کروانے والے افراد پر لازم ہے کہ وہ ہر سال اپنے ٹیکس گوشوارے بھی حکومت کے پاس جمع کرائیں۔

تاہم انھوں نے کہا کہ اس کے لیے پہلے ایک نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ آپ کے ذمے میں اتنا ٹیکس واجب الادا ہے، اسے جمع کروائیں اور اس کے بعد گوشوارے ایف بی آر کے پاس جمع کروائیں۔

ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بی بی سی کو بتایا کہ ٹیکس جمع کروانے کے بعد اس کا گوشوارہ اس لیے جمع کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے پتا لگایا جا سکے کہ اگر ایک شخص نے ٹیکس جمع کروایا ہے تو اس گوشوارے میں درج تفصیلات کی روشنی میں اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ اس نے اپنی آمدنی کے مطابق پورا ٹیکس ادا کیا ہے یا کم۔

اسی طرح انھوں نے کہا کہ یہ ٹیکس ریٹرن ایک ڈیکلریشن بھی ہے جس سے حکومت کو معلوم ہوتا ہے کہ کن شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کتنا ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کروایا ہے۔

فون سم بلاک کرنے اور بجلی، گیس کے کنکشن کاٹنے کی پالیسی کس قانون کے تحت اپنائی گئی؟BBC Sportایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے والوں کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے

دسمبر 2023 میں ایف بی آر کے ترجمان نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے کنکشنز منقطع کرنے کی پالیسی اور اس کے تحتاختیارات انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 بی کے تحت دیے گئے ہیں۔

ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا تھا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں اس سیکشن کے تحت ریٹرنز نہ جمع کرانے پر پہلے نان فائلرز کو نوٹس دیا جائے گا اور ایک مہینے کے بعد جواب نہ جمع کرانے پر اس نان فائلر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی کہ جس میں اس کے گیس و بجلی کے کنکشن اور موبائل سم بلاک کرنے جسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’یہ کام پاکستان میں منفرد ہوا ہے اور یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے بھی متصادم ہے کیونکہ بنیادی انسانی حقوق میں اب صرف سانس لینا ہی نہیں ہے بلکہ ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے بجلی و گیس اور دوسری چیزیں ضروری ہیں اور پاکستان میں یہ اس سیکشن کے تحت لوگوں کو ان کے اس بنیادی حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔‘

نان فائلرز کی نشاندہی کیسے کی جاتی ہے؟Getty Images

نان فائلرز کی نشاندہی کیسے کی گئی، اس بارے میں ایف بی آر کے ترجمان نے بتایا تھا کہ ایف بی آر ایسے نان فائلرز کو پہلے نوٹس بھیجے کہ جنھیں ریٹرن فائل کرنا ہیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں کنکشن کاٹنے کی کارروائی بروئے کار لائی جائے گی۔

ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں کہا کہ ’ایسے نان فائلرز کی نشاندہی کوئی مشکل نہیں ہے جو ریٹرن فائل نہیں کرتے۔‘

انھوں نے کہا ’مثال کے طور پر جب کسی بینک ٹرانزیکشن پر زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس ایف بی آر میں آ رہا ہو تو لازمی ایف بی آر کو پتا ہے کہ ایسی ٹرانزیکشن کرنے والا فرد فائلر نہیں ہے۔ اس لیے ایسے افراد کی نشاندہی مشکل نہیں ہے۔ اسی طرح ایک لاکھ روپے سے زائد کے بجلی کے بل پر نان فائلر کا ود ہولڈنگ ٹیکس زیادہ ہوتا ہے تو یہ آسانی سے پتا چل جاتا ہے کہ فلاں شخص نے زیادہ ود ہولڈنگ ٹیکس تو دیا تاہم اس کا ریٹرن فائل نہیں ہوا۔‘

معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز راناکا کہنا ہے کہ ’لوگوں کی انٹر نیشنل ٹریولنگ، ان کے بجلی کے بل اور بینکوں کی ٹرانزیکشنز سے یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔‘

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟’سپر ٹیکس‘ کیا ہے اور یہ کیوں لگایا جاتا ہے؟انکم ٹیکس میں ڈھائی فیصد اضافہ پاکستانی مڈل کلاس کو کیسے متاثر کرے گا؟ایف بی آر کو پالیسی میں نان فائلرز سے متعلق سختی کیوں آئی ہے؟

پاکستان میں ریٹرنز جمع کروانے والوں اور نہ کروانے والوں سے متعلق ایف بی آر نے ماضی میں بھی مختلف اقدامات اٹھائے اور ریٹرن جمع کرانے والوں کو مختلف سہولیات جیسا کہ بینک سے کیش نکلوانے پر نان فائلرز کے مقابلے میں کم ود ہولڈنگ ٹیکس کی ادائیگی، گاڑی خریدنے پر نان فائلر کے مقابلےود ہولڈنگ ٹیکس کی کم ادائیگی وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم اب ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز سے متعلق پالیسی میں سختی لائی گئی جس میں ان کے بجلی و گیس کے کنکشن اور موبائل سم بند کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

پالیسی میں سختی کے بارے میں ایف بی آر کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’فائلرز کے لیے سہولیات جیسا کہ ود ہولڈنگ کی کم ادائیگی تو جاری رہیں گی تاہم یہ سختی صرف نان فائلرز کے لیے ہو گی جو اپنا ریٹرن فائل نہیں کر تے۔‘

شہباز رانا نے بتایا کہ ’اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ ریٹرن فائل نہیں کرتے کیونکہ ٹیکس کلچر ملک میں فروغ نہیں پا سکا اور ٹیکس چوری عام ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے ایف بی آر کا اپنا قصور ہے کہ اس نے ماضی میں ایسی پالیسی رکھی کہ جس میں لوگوں نے فائلر بننا ضروری نہیں سمجھا۔‘

انھوں نے کہا ’جب ایف بی آر نان فائلر سے زیادہ ود ہولڈنگ ٹیکس لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے خود ہی اس کلچر کو فروغ دیا کہ جس میں لوگ زیادہ ریٹرنز فائل نہ کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں فائلر ہوتا ہے یا پھر ڈیفالٹر ہوتا ہے تاہم پاکستان میں ایف بی آر نے نان فائلر کی نئی کیٹگری نکال کر ان سے زیادہ ٹیکس تو اکٹھا کر لیا تاہم ملک میں ریٹرن فائل کرنے کے کلچر کو فروغ نہ دے سکا۔‘

ڈاکٹر اکرام نے کہا ’اب پالیسی میں سختی آئی ایم ایف کے کہنے پر لائی گئی ہے جو زیادہ ڈائریکٹ ٹیکس کے لیے زور دے رہا ہے اور وہ ریٹرن کے زیادہ فائل ہونے سے ممکن ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف نے حالیہ ہفتوں میں ایف بی آر کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے جس میں ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح کےنہ بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا۔‘

Getty Imagesایف بی آر کی نئی پالیسی کیا مؤثر ثابت ہو گی؟

ایف بی آر کی نان فائلرز سے متعلق نئی پالیسی کے متعلق ٹیکس امور کے صحافی شہباز رانا زیادہ پرامید نظر نہیں آتے۔

ان کا کہنا ہے ’اوّل تو ایف بی آر کی یہ سکیم زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو گی، سب سے پہلے دیکھا جائے تو ایف بی آر کے اپنے اندر اس کام کو کرنے کے لیے حوصلے کی کمی ہے ورنہ ادارہ سب سے پہلے اپنے ملازمین کو نان فائلرز سے فائلرز بناتا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’ایف بی آر کا ہر پانچ میں سے ایک افسر فائلر نہیں ہے جب کہ ملازمین کی تو بڑی تعداد نان فائلر ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام نے اس کے متعلق کہا کہ ’اس سکیم کو نافذ تو کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ایف بی آر کو صرف گیس و بجلی کے متعلقہ اداروں اور موبائل کمپنیوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ فلاں کا کنکشن بند کر دیں یا پھر سم بلاک کر دیں۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ایسی سکیموں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی کا بینک میں زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس کٹ رہا ہے اور وہ نان فائلر ہے تو ایف بی آر سیدھا اس نان فائلر کو رابطہ کرے کہ آپ کی انکم کا ذریعہ کیا ہے اور آپ ٹیکس کیوں نہیں جمع کرا رہے۔‘

انھوں نے کہا ’دنیا میں فائلر اور ڈیفالٹر صرف دو کیٹگری ہوتی ہیں کہ اگر ریٹرن فائل کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ریٹرن فائل نہ کرنے والا ڈیفالٹر کی کیٹگری میں شمار ہو گا۔‘

ایف بی آر کے ترجمان نے اس سلسلے میں کہا ان کی ’سکیم ڈیٹا کی مدد سے آگے بڑھے گی کہ جس میں ایسے افراد کو دیکھا جائے گا کہ جن کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ ریٹرن کیوں نہیں فائل کرتے اور اگر وہ پھر بھی قانون پر عمل درآمد نہیں کرتے تو پھر ایف بی آر اس پالیسی کے تحت اقدامات اٹھائے گا۔‘

سکیم سے ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کی حوصلہ شکنی کے بارے میں ڈاکٹر اکرام کہتے ہیں کہ ’ریٹرن نہ جمع کرانے والوں کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔‘

شہباز رانا نے بھی اس سلسلے میں کہا ’یہ انفورسمنٹ اقدام ہے یعنی ایک قانون پر عمل درآمد کرانا ہے اس لیے اس کے پالیسی کا کوئی منفی رد عمل نہیں ہو گا۔‘

انکم ٹیکس کے نئے سلیب: اب آپ کی تنخواہ میں سے کتنا ٹیکس کٹے گا؟پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟بجلی کے بل میں ’چھپے‘ وہ ٹیکس جو حکومت آپ سے وصول کر رہی ہےانکم ٹیکس میں ڈھائی فیصد اضافہ پاکستانی مڈل کلاس کو کیسے متاثر کرے گا؟پاکستان میں مہنگائی نے آپ کے گروسری بل میں کتنا اضافہ کیا؟پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ان دیکھے اثرات: ’اچھی تنخواہ کے باوجود دوسری نوکری کرنی پڑی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More